جمعرات, ستمبر ۱۱, ۲۰۲۵
25.6 C
Srinagar
ہوم بلاگ صفحہ 5

سرینگر میں پینے کے پانی کا بحران سنگین ، درجنوں علاقوں میں سپلائی متاثر، شہری اضطراب میں مبتلا

فردوس وانی

سرینگر:،حالیہ سیلابی صورتحال کے بعد سرینگر شہر کے متعدد علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ راجباغ، مہجور نگر، پادشاہی باغ، ڈلگیٹ، سونہ وار، بنڈ ،کرسو راجباغ سمیت درجنوں علاقوں میں پانچ روز سے پانی کی سپلائی معطل ہے، جس کے باعث شہری سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔شہری علاقوں کے مکینوں نے شکایت کی ہے کہ نلوں میں پانی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اُنہیںشدید ذہنی کوفت، اضطراب اور جسمانی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔متعدد مقامی افراد نے بتایا کہ وہ پانی خریدنے پر مجبور ہیں، جبکہ کچھ کو قریبی علاقوں سے پانی لانے کے لیے سفر کرنا پڑ رہا ہے۔
راج باغ کے رہائشی محمد رفیق ڈار نے بتایا:’ہمارے گھروں میں پانچ دن سے ایک بوند پانی نہیں آیا۔ راجباغ نزدیکمسجد اویسہ، ایم پی لین اور ڈاکٹر ماجد وانی لین سمیت کئی علاقوں میں پانی مکمل بند ہے۔ ان دنوں میں بچوں، بزرگوں اور مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ آج عید میلادالنبی ﷺ کی تقریب سعید تھی ،لیکن آج بھی پانی کی سپلائی بحال نہیں ہوئی ۔، مہجور نگر، پادشاہی باغ، ڈلگیٹ، سونہ وار اور دیگر علاقوں سے بھی لوگوں نے پانی کی سپلائی متاثر ہونے کا الزام عائد کیا ۔
دوسری جانب محکمہ جل شکتی کے ذرائعنے پانی کی معطلی کی وجوہات پر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ:’شہریوں کی صحت اور تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ حالیہ سیلابی صورتحال کے باعث خدشہ ہے کہ آلودہ پانی سپلائی لائنوں میں شامل ہو سکتا ہے، اس لیے پانی کی فراہمی عارضی طور پر معطل کی گئی ہے۔‘ادھرمحکمہ کے اعلیٰ حکام کے مطابق، متاثرہ علاقوں میں متبادل طور پر واٹر ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی جاری ہے جبکہ جہاں ضرورت ہو، وہاں کے لوگ متعلقہ محکمہ سے براہ راست رابطہ قائم کریں تاکہ فوری طور پر مدد فراہم کی جا سکے۔ان کا کہناتھا کہ شہر میں صد فیصد پانی کی سپلائی فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جارہے ہیں ۔

درگاہ حضرت بل میں نصب اشوک چکر والی تختی کو فوری طور پر ہٹایا جائے:متحدہ مجلس علمائ

سری نگر،:جموں و کشمیر کی سب سے بڑی دینی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علما نے درگاہ حضرت بل میں حالیہ نصب کی گئی اشوک چکر کندہ تختی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسلامی روایت اور عوامی جذبات کے منافی قرار دیا ہے۔

مجلس نے اپنے بیان میں کہا کہ حضرت بل صرف ایک عمارت نہیں بلکہ صدیوں سے کشمیری مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے اور اس کی حرمت و تقدس میں کسی قسم کی مداخلت عوامی و مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مساجد، خانقاہوں اور مزارات میں تختیاں یا کوئی بھی علامت نصب کرنا درست نہیں اور ماضی میں بھی حضرت بل کی دوبارہ تعمیر کے وقت کوئی تختی یا سنگِ بنیاد نہیں لگایا گیا تاکہ روایت برقرار رہے۔
مجلس نے وقف بورڈ کو یاد دہانی کرائی کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی اصولوں اور مسلم روایت کا احترام کرے اور مقدس مقامات کو محض عبادت و روحانیت کا مرکز بنائے، نہ کہ علامتوں کی نمائش کا۔
متحدہ مجلس علما نے عوامی ردعمل کو سچے اور خلوص پر مبنی مذہبی جذبات قرار دیتے ہوئے ان عبادت گزاروں پر ایف آئی آر درج کرنے اور سخت کارروائی کرنے کو ناجائز، غیر منصفانہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ مجلس نے زور دیا کہ ایسے دینی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ سخت اقدامات سے۔
مجلس نے وقف بورڈ سے مطالبہ کیا کہ درگاہ حضرت بل میں نصب اشوک چکر والی تختی کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور مستقبل میں اس طرح کے حساس فیصلے لینے سے قبل مستند علما کرام سے مشاورت کی جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ متحدہ مجلس علما میں وادی کی درجنوں بڑی دینی، سماجی اور ملی تنظیمیں شامل ہیں جن میں انجمن اوقاف جامع مسجد سری نگر، انجمن شرعی شیعان، جمعیت اہلحدیث، جمعیت ہمدانیہ، کاروان اسلامی، دارالعلوم رحیمیہ، انجمن حمایت الاسلام، ادارہ غوثیہ، انجمن علمائے احناف، انجمن نصرة الاسلام، خانقاہ حیدریہ، مجلس علمائے امامیہ کشمیر اور متعدد دیگر ادارے شامل ہیں۔

 

جموں و کشمیر اور لداخ میں عید میلاد النبی(ص) کی تقریب مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی

سری نگر: جموں و کشمیر اور لداخ میں ہفتے کے روز عید میلادالنبی (ص) کی تقریب مذہبی جوش و خروش، روحانی سرشاری اور بے پناہ عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ مساجد، خانقاہیں، امام بارگاہیں اور زیارت گاہیں چراغاں سے جگمگاتی رہیں، جب کہ درجنوں مقامات سے عظیم الشان جلوس برآمد ہوئے۔ لاکھوں عقیدت مندوں کی شرکت سے وادی کی فضائیں درود و سلام، نعتیہ کلام اور نعرۂ تکبیر و رسالت کی صداؤں سے معمور ہو گئیں۔

اس دن کی سب سے بڑی اور پرشکوہ تقریب درگاہ حضرت بل میں منعقد ہوئی، جو جھیل ڈل کے کنارے پر واقع ہے اور جہاں حضور اکرم (ص) کے موئے مقدس کی زیارت کی جاتی ہے۔ رات بھر جاری رہنے والی شب خوانی کی محافل میں ہزاروں مرد و زن نے شرکت کی۔ رات کی ٹھنڈ کے باوجود عقیدت مندوں نے وعظ و نصیحت، نعت خوانی، درود و سلام اور ختمات المعظمات میں بھرپور حصہ لیا۔
صبح کے وقت جب موئے مقدس(ص) کی زیارت کرائی گئی تو عاشقان رسول (ص) کے چہرے خوشی و سرور سے منور ہو گئے۔ آنکھوں میں آنسو، لبوں پر درود اور دلوں میں عقیدت کی شمعیں روشن تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے ہر عقیدتمند کے ایمان کو تازگی بخشی اور روحانی سکون عطا کیا۔
عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر وادی بھر میں جلوس ہائے میلاد نکالے گئے۔ جلوسوں کے دوران فضائیں "لبیک یا رسول اللہؐ”، "سرکار کی آمد مرحبا” اور "یا نبی سلام علیک” کے نعروں سے گونجتی رہیں۔ بچے سبز پرچم اور جھنڈیاں تھامے چل رہے تھے جبکہ بزرگ تسبیح و درود پڑھتے ہوئے جلوس کا حصہ بنے۔
راستے بھر جگہ جگہ پانی، چائے، گرم دودھ اور لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی مقامات پر مقامی دکانداروں نے اپنی دکانوں کے سامنے عاشقان رسول (ص) کے لئے سبیلیں لگائیں۔
اس دن کی مناسبت سے منعقدہ مجالس میں علما و مشائخ نے حضور اکرم (ص) کی سیرتِ طیبہ پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کی تعلیمات عالمِ انسانیت کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ انہوں نے اتحاد، بھائی چارہ، خدمتِ خلق اور انسانیت نوازی کو امت مسلمہ کے لئے ناگزیر قرار دیا۔
خطبا نے اس بات پر زور دیا کہ آج کے دور میں امت کو نفرت اور تقسیم کے بجائے محبت، رواداری اور اخوت کا پیغام عام کرنا چاہئے۔ اگر ہم حضور (ص) کی سنتوں پر عمل کریں تو معاشرے سے ظلم، ناانصافی اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔
حضرت بل کے علاوہ آثار شریف شہری کلاشپورہ، پنجورہ، صورہ، ترال، پٹن اور گاندربل کی زیارت گاہوں میں بھی شب خوانی اور میلاد کی مجالس منعقد ہوئیں۔
جنوبی کشمیر کے پانپور میں ادارہ اوقاف اسلامیہ ٹرسٹ اور شاہ ہمدان میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک عظیم جلوس برآمد ہوا۔ جلوس روایتی راستوں سے ہوتا ہوا خانقاہ عالیہ پانپور میں اختتام پذیر ہوا جہاں خصوصی دعا ہوئی۔
اسی طرح جموں و کشمیر جمعیت ہمدانیہ کی جانب سے سری نگر کے کلاشپورہ علاقے سے جلوس نکالا گیا جس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔
انجمن شرعی شیعیان نے خانقاہ میر شمس الدین اراکی سے امام بارہ گلشن باغ تک ایک بڑا جلوس نکالا۔ شیعہ و سنی برادری کے مشترکہ اجتماعات نے وادی میں اخوت اور بھائی چارے کی مثال قائم کی۔
صوبہ جموں کے ڈوڈہ، کشتواڑ، راجوری اور پونچھ میں بھی میلاد النبی (ص) کے موقع پر خصوصی مجالس اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔ مقامی لوگوں نے گھروں کو چراغاں کیا اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پیر پنچال کے علاقے مینڈھر اور سرنکوٹ میں ہزاروں افراد نے جلوس میلاد میں شرکت کی۔ خواتین نے گھروں سے جلوس کے شرکا کو مٹھائیاں اور شربت پیش کئے۔
خطہ لداخ کے لیہہ، کرگل اور دراس میں بھی میلاد النبی (ص) جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ کرگل میں امام بارگاہوں میں شب خوانی کی محافل سجائی گئیں جبکہ لیہہ میں اہل سنت برادری نے جلوس نکالے۔ برف پوش پہاڑوں کے درمیان جب عقیدتمندوں کی زبانوں سے درود و سلام بلند ہوا تو فضا میں ایک روحانی منظر قائم ہو گیا۔
عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر وادی کے تقریباً تمام شہروں اور قصبوں میں بازاروں کو سبز جھنڈوں، برقی قمقموں اور رنگ برنگی بتیوں سے سجایا گیا۔ دکانیں اور مساجد جگمگاتی رہیں۔ کئی مقامات پر نوجوانوں نے اجتماعی طور پر گلی کوچوں کو سجانے کا بیڑا اٹھایا۔
سری نگر شہر کی سڑکوں پر سبز جھنڈیاں لہراتی رہیں اور رات بھر برقی قمقموں سے شہر کا منظر دیدنی بنا رہا۔
زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ درگاہ حضرت بل میں بجلی، پینے کا صاف پانی، صحت و صفائی اور طبی امداد کے لئے ہنگامی مراکز قائم کئے گئے تھے۔
جموں و کشمیر بینک اور محکمہ امور صارفین نے لنگر اور طعام کا اہتمام کیا جبکہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے زائرین کی آمدورفت کے لئے اضافی بسیں چلائیں۔
میلاد النبی (ص) کے موقع پر عوامی جوش و خروش دیدنی تھا، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ رات بھر مساجد اور خانقاہوں میں رہے۔ خواتین نے گھروں میں محافل میلاد منعقد کیں۔
ایک عقیدتمند نے کہا: ’یہ دن ہمارے لئے سب سے بڑی خوشی کا دن ہے کیونکہ اس دن دنیا کو وہ ہستی نصیب ہوئی جس نے جہالت کے اندھیروں کو مٹا کر انسانیت کو روشنی بخشی۔‘

 

حضرت بل درگاہ میں قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے:محبوبہ مفتی

سری نگر،: پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حضرت بل دوگاہ کے اندر قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے حکام پر متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔موصوف سابق صدر نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔


انہوں نے کہا: ‘پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی سرکاروں کے دوران بھی حضرت بل میں تعمیراتی کام کیا گیا لیکن ایسی حرکت کبھی نہیں کی گئی جس سے لوگوں خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے مذبی جذبات مجروح ہوں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ذمہ داروں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295-اے کا استعمال کیا جانا چاہئے جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر کارروائیوں سے متعلق ہے’۔

محبوبہ مفتی نے کہا: ‘لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں لہذا اس پر ضرور کارروائی ہونی چاہئے’۔
انہوں نے کہا: ‘جب سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے اوقاف بورڈ کو سنبھالا تو ہم نے کبھی اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اس کو چلانے کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ مذہبی جذبات میں آکر قومی نشان کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرے جنہوں نے اس طرح کی حرکت کی اجازت دی۔ حضرت بل ایک مذہبی مقام ہے’۔

انہوں نے کہا کہ درگاہ حضرت بل تاجپوشی یا سیاسی علامت کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی جگہ ہے’۔
پی ڈی پی صدر نے کہا: ‘ وزیر داخلہ کو مقامی لوگوں پر پی ایس اے عائد کرنے کے لیے بلانا ناقابل قبول ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسے مزار میں نشان لگانے کی اجازت کس نے دی جہاں بت پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘یہ بی جے پی کی کوئی تقریب نہیں تھی، یہ حضرت میں میں ایک تقریب تھی جس میں درود و اذکار بلند ہونے چاہئے تھے، یہ تاج پوشی کی کوئی تقریب نہیں تھی’۔
 

قومی نشان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے مذہنی اداروں میں نہیں: عمر عبداللہ

سری نگر،: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حضرت بل کے مزار پر نصب تختی پر قومی نشان موجود ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مذہبی اداروں میں سرکاری نشانات کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے لہذا لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے۔

وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں نامہ نگاروں کی طرف سے درگاہ حضرت بل میں نصب تختی پر قومی نشان موجود ہونے پر ہوئے تنازعے کے متعلق سوالوں کا جواب دینے کے دوران کیا۔


انہوں نے کہا: ‘میں نے ابھی تک کسی بھی مذہنی ادارے یا تقریب میں قومی نشان کو استعمال ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے تو حضرت بل میں قومی نشان استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی’۔

ان کا کہنا تھا: ‘درگاہ حضرت بل کو یہ شکل شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے دی ہے لیکن کہیں ان کا کوئی پتھر نہیں لگا ہے لوگ آج بھی ان کے کام کو یاد کرتے ہیں’۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ پتھر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی یہ ان کی غلطی ہے جس پر ان کو لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے۔

اس پتھر کو مبینہ طور توڑنے کی کوشش کرنے والوں پر پی ایس اے لگانے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ‘ڈرانے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے، کم سے کم لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے’۔

ان کا کہنا تھا: ‘اگر ہم گوگل پر بھی سرچ کریں گے تو کہیں بھی یہ نظر نہیں آئے گا کہ کسی مذہبی ادارے میں قومی نشان کا استعمال کیا گیا ہو’۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قومی نشان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے لیکن مذہبی جگہوں جیسے مندر، مساجد یا درگاہوں میں اس کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔
یو این آئی

جموں و کشمیر میں 12 ستمبر تک موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں

سری نگر،: جموں و کشمیر میں موسمی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور اس دوران محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ یونین ٹریٹری میں 12 ستمبر تک موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
محکمے نے اپنی ایڈوائزری میں لوگوں سے دریائوں، ندی نالوں اور کمزور تعمیراتی ڈھانچوں کے نزدیک جانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 9 ستمبر کے بعد اپنے کھیت کھلیانوں اور باغوں میں کام شروع کریں۔

متعلقہ محکمے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جموں وکشمیر میں 6 ستمبر کو کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشوں کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ 7 اور 8 ستمبر کو جموں وکشمیر میں کچھ مقامات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشیں ہوسکتی ہیں جبکہ جموں صوبے کے کچھ اضلاع میں صبح اور شام کے وقت درمیانی درجے کی بارشوں کا امکان ہے۔موصوف ترجمان نے بتایا کہ بعد میں 9 سے 12 ستمبر تک کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشوں کے مرحلے متوقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں مجموعی طور پر 12 ستمبر تک کسی موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔محکمے نے اپنی ایڈوائزری میں کہا کہ جموں وکشمیر میں کہیں کہیں لینڈ سلائیڈنگ اور چٹانیں کھسک آنے کے بھی خطرات ہیں۔

ایڈوائزری میں لوگوں سے دریائوں، ندی نالوں اور کمزور تعمیراتی ڈھانچوں کے نزدیک جانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 9 ستمبر کے بعد اپنے کھیت کھلیانوں اور باغوں میں کام شروع کریں۔
دریں اثنا وادی میں ہفتے کی صبح سے ہی مطلع جزوی طور پر ابر آلود لیکن موسم خشک رہا۔

عمر عبداللہ نے ضلع اننت ناگ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا

سری نگر: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ہفتے کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں متاثرہ کنبوں کے ساتھ بات چیت کی۔

انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

اس دوران نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری، وزیر تعلیم سکینہ یتو،قبائلی امور کے وزیر جاوید رانا، وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم اور متعلقہ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

واضح رہے کہ حالیہ سیلاب سے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ اور کولگام میں سیب باغوں کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے اور دھان و دیگر زرعی پید وار بھی تبای ہوئی ہے۔

وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ‘ایکس’ ہینڈل پر ایک پوسٹ میں کہا گیا: ‘ وزیر اعلیٰ نے آج اننت ناگ ضلع کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے بات چیت کی۔’
پوسٹ میں کہا گیا: ‘انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے’۔

پوسٹ کے مطابق نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری، وزیر تعلیم سکینہ، یتو،قبائلی امور کے وزیر جاوید رانا، وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم اور متعلقہ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کی صبح سیلاب کے بعد کے منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے ایک اہم میٹنگ کی صدارت کی جس میں انہوں نے حساس مقامات کو مزید تقویت دینے، سیلاب زدہ دیہاتوں سے لوگوں کو نکالنے اور کنٹرول رومز کے ذریعے چوبیس گھنٹے نگرانی کرنے کی ہدایت دی۔

حکام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کا عمل شروع کیا ہے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا: ‘ہم تمام علاقوں سے نقصان کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ رپورٹ مکمل ہونے کے بعد حکومت کو بھیجی جائے گی اور اس کے بعد ریلیف اقدامات اٹھائے جائیں گے’

ہماچل لینڈ سلائیڈنگ: تین کشمیری مزدوروں کی لاشیں سری نگر پہنچی

سری نگر: ہماچل پردیش کے کولو لینڈ سلائیڈنگ میں اپنی جان گنوانے والے تین کشمیری مزدوروں کی لاشیں ہفتے کی صبح سری نگر پہنچ گئیں جہاں سے ان کو اپنے آبائی گائوں کنگن پہنچایا گیا۔

جب یہ لاشیں کنگن پہنچیں تو وہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے اور مہلوکین کے احباب و اقارب زار و قطار رو رہے تھے خاص طور پر خواتین اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال تھیں۔گریز کے رکن اسمبلی نذیر احمد گریزی بھی کنگن پہنچے اور پسماندگان کے غم میں شریک ہوئے۔

واضح رہے کہ ہماچل پردیش کے کولو میں 4 ستمبر کو دو مکان لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آگئے تھے جس میں 12 سے 13 افراد کے پھنس گئے تھے جن میں سے 7 کا تعلق کشمیر سے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ابھی 4 افراد ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں جن کو نکالنے کا کام جنگی بنیادوں پر جاری ہے۔
جموں و کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اپنے ایک بیان میں کہا: ‘ہم نے ان تین کشمیری مزدوروں کی لاشوں کو ایمبولنسسز کے بجائے آٹو لوڈ کیرئرمیں لانے کا مسئلہ فوری طور پر وزیر اعلیٰ کے دفتر اور چیف سکریٹری پربودھ سکسینہ کے ساتھ اٹھایا جنہوں نے بغیر کسی تاخیر کے مداخلت کی۔ سڑک کے ذریعے نقل و حمل کو فوری طور پر روک دیا گیا تھا اور لاشوں کو وقار کے ساتھ ہوائی جہاز سے اٹھانے کے انتظامات کیے گئے’۔

انہوں نے بیان میں کہا: ‘آج صبح چیف سکریٹری نے ہمیں مطلع کیا کہ تین برآمد شدہ لاشوں کو چندی گڑھ ہوائی اڈے سے ایر لفٹ کیا گیا،وہ اب سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتر چکی ہیں اور اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، جہاں انہیں وقار کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ تمام نقل و حمل اور متعلقہ اخراجات ہماچل پردیش حکومت نے برداشت کی’۔

ان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر حکومت نے لاشوں کو ان کے گھروں تک لے جانے کے لیے ایمبولینسیز فراہم کیں۔

وادی کشمیر میں حالیہ سیلاب سے کسان طبقہ زیادہ متاثر، حکومت سے معاوضے کا مطالبہ

سری نگر: وادی کشمیر میں حالیہ سیلاب سے گرچہ بیشتر شعبہ ہائے حیات متاثر ہوئے لیکن اس کے غیض و غضب سے سب سے زیادہ متاثر کسان طبقہ ہوا کیونکہ جس وقت یہ سیلاب آیا اس وقت سیب کی فصل بھی تیار تھی اور دھان کی فصل کی کٹائی بھی شروع ہوچکی تھی۔

تفصیلات کے مطابق، دھان کی فصل جو کٹائی کے قریب تھی بلکہ کئی علاقوں میں کاٹی گئی تھی اور کھیت پر تھی، زیرِ آب آکر برباد ہو گئی جبکہ سیب کے باغات میں بھی سیلابی پانی نے تبادہی مچادی۔
علاوہ ازیں سیلابی پانی سے کئی دیہات میں تعمیراتی ڈھانچوں اور رہائشی مکانوں، گائو خانوں کو بھی نقصان پہنچا جو کسانوں کے لئے دوہرے نقصان کا باعث بن گیا۔

وسطی ضلع بڈگام کے خورشید احمد نامی ایک کسان نے بتایا: ‘ہم 2 کنال اراضی پر سبزی اور 3 کنال اراضی پر دھان کی فصل اگاتے ہیں، فصل بالکل تیار تھی، دھان کی فصل کاٹی تھی، اب یہ پانچوں کا کنال اراضی زیر آب ہیں، سب کچھ تباہ ہوگیا’۔

انہوں نے کہا: ‘سال بھر محنت و مشقت کرکے یہ فصل تیار کی تھی جو چشم زدن میں تباہ ہوگئی، اسی پر ہمارے گھر کا گذارہ ہوتا تھا’۔
اونتی پورہ کے کسان مشتاق احمد نے بتایا: ‘ہمارے کھیت مکمل طور پر زیرِ آب آچکے ہیں۔ یہ سیلاب گزشتہ دس برسوں میں سب سے بدترین ہے۔ دھان کی فصل جو کٹائی کے قریب تھی، ساری ضائع ہوگئی۔ ہماری ساری محنت رائیگاں ہوگئی’۔

جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ایک باغ مالک امتیاز احمد نے کہا: ‘سیب کے باغات کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ پھل پکنے کے قریب تھا لیکن زیادہ تر درختوں سے جھڑ گیا اور باقی خراب ہوگیا۔ یہ ہمارے لیے مکمل نقصان ہ’۔‘
کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ تباہی انہیں 2014 کے سیلاب کی یاد دلا رہی ہے، جب وادی کے بیشتر حصے متاثر ہوئے تھے اور حکومت نے اس وقت مالی معاوضہ فراہم کیا تھا۔ اس موقع پر بھی کسان حکومت سے فوری مالی امداد اور معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک مقامی کسان فیاض احمد نے کہا: ‘سال 2014 میں ہمیں حکومت نے معاوضہ دیا تھا۔ اب بھی وہی مطالبہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ متاثرین کے لئے فوری ریلیف اور مالی مدد فراہم کرے’۔ادھر انتظامیہ نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کا عمل شروع کیا ہے۔

ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا: ‘ہم تمام علاقوں سے نقصان کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ رپورٹ مکمل ہونے کے بعد حکومت کو بھیجی جائے گی اور اس کے بعد ریلیف اقدامات اٹھائے جائیں گے’۔

کٹھوعہ میں عادی مجرم پی ایس اے کے تحت گرفتار: پولیس

جموں: جرائم پیشہ افراد کے خلاف شکنجے کو مزید تنگ کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس نے ضلع کٹھوعہ میں متعدد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ایک عادی مجرم کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت مقدمہ درج کیا ہے اور اس کو گرفتار کرکے کوٹ بلوال جیل جموں میں بند کر دیا ہے۔

ایک پولیس ترجمان نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ کٹھوعہ کی ہدایت پر ملزم عبدالغنی ولد علی حسین ساکن جگت پور کٹھوعہ کے خلاف ایک وارنٹ جاری کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ نے یہ وارنٹ ضلع پولیس کٹھوعہ کی طرف سے ڈوزیئر حاصل کرنے کے بعد جاری کی۔

موصوف ترجمان نے کہا کہ اس وارنٹ پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن لکھن پور کی ایک ٹیم نے ایس ایچ او کی قیادت میں ملزم کو گرفتار کیا اور مذکورہ وارنٹ کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ 1978 کے سیکشن 8 (1) (A) کے تحت عملی جامہ پہنایا۔

بیان میں کہا گیا کہ ملزم ایک عادی اور کٹر مجرم تھا اور پولیس اسٹیشن کٹھوعہ اور لکھن پور میں اس کے خلاف مختلف دفعات کے تحت 6 مقدمے درج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کو گرفتار کرکے سینٹرل کوٹ بلوال جیل جموں میں بند رکھا گیا۔