جمعرات, ستمبر ۱۱, ۲۰۲۵
16.5 C
Srinagar
ہوم بلاگ صفحہ 4

سری نگر – جموں قومی شاہراہ مسلسل بند، بحالی کا کام جاری

سری نگر،: وادی کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ جوڑنے والی 270 کلو میٹر طویل سری نگر – جموں قومی شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حمل مسلسل بند ہے تاہم بحالی کا کام جنگی بنیادوں پر جاری ہے۔

ادھر مغل روڈ اور سری نگر لیہہ شاہراہ پر حسب ایڈوائزری ٹریفک جاری ہے۔حکام نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ بحالی کا کام مکمل ہونے تک قومی شاہراہ پر سفر کرنے سے احتراز کریں اور افواہوں پر کان نی دھریں۔
ٹریفک حکام نے اتوار کی صبح بتایا کہ قومی شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حمل بند ہے تاہم بحالی کا کام جنگی بنیادوں پر جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں کو صوبہ جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع کے ساتھ جوڑنے والے مغل روڈ اور وادی کو لداخ یونین ٹریٹری کے ساتھ جوڑنے والی سری نگر – لیہہ شاہراہ پر ٹریفک کی نقل وحمل حسب ایڈوائزری جاری ہے۔

حکام نے لوگوں سے کہا کہ وہ بحالی کا کام مکمل ہونے تک قومی شاہراہ پر سفر کرنے سے احتراز کریں اور افواہوں پر کان نی دھریں۔انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ سڑکوں کے متعلق تازہ اپ ڈیٹ حاصل کرنے کے لئے ٹریفک پولیس کے ٹویٹر ہینڈل، فیس بک پیج اور ٹریفک کنٹرول یونٹوں کی طرف رجوع کریں۔


قومی شاہراہ مسلسل بند رہنے کے باعث تین ہزار سے زائد گاڑیاں، جن میں تقریباً 500 میوہ بردار ٹرک بھی شامل ہیں، درماندہ ہو کر رہ گئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ خراب موسمی صورتحال کی وجہ سے کئی مقامات پر مٹی کے تودے گر آنے اور چٹانیں کھسک آنے کی وجہ سے قومی شاہراہ پر گذشتہ قریب دو ہفتوں سے ٹریفک کی نقل و حمل متاثر ہے۔

دریں اثنا وادی کے لئے شہہ رگ کی حیثیت رکھنے والی اس قومی شاہراہ کے بند ہونے سے اہلیان وادی کو گونا گوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


اس شاہراہ کے بند ہونے سے جہاں وادی کے بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا ہوئی ہے وہیں باغ مالکان بھی پریشانی کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔اہلیان وادی کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ کے بند ہوتے ہی بازاروں میں گراں بازاری آسمان چھونے لگتی ہے۔

کولگام انکاونٹر: ایک عدم شناخت دہشت گرد ہلاک،فوجی جوان زخمی

سری نگر،: جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کے گڈر جنگلاتی علاقے میں جاری انکائونٹر کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ ایک جونیئر کمشنڈ افسر (جے سی او) زخمی ہوا ہے۔

فوجی ذرائع نے بتایا کہ کولگام انکائونٹر میں ایک عدم شناخت دہشت گرد ہلاک ہوا ہے جبکہ ایک کے سی او زخمی ہوا ہے جس کو علاج و معالجے کے لئے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

کشمیر زون پولیس نے ‘ایکس’ پر اس انکائونٹر کے متعلق جانکاری فراہم کرتے ہوئے ایک پوسٹ میں کہا کہ مصدقہ اطلاع پر کارروائی کے دوران کولگام کے گڈر علاقے میں انکائوٹر شروع ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر پولیس کا اسپیشل آپریشن گروپ، فوج اور سی آر پی ایف کام پر لگے ہوئے ہیں۔
قبل ازیں ذرائع نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق مصدقہ خفیہ اطلاع ملنے پر فوج، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس نے علی الصبح گڈر جنگل اور ملحقہ علاقوں کو محاصرے میں لے کر تلاشی آپریشن شروع کیا۔

تاہم اس دوران وہاں چھپے ملی ٹینٹوں نے فورسز پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے جواب میں سیکورٹی اہلکاروں نے بھی مورچے سنبھال کر جوابی کارروائی کی۔ اس طرح طرفین کے درمیان گولیوں کا شدید تبادلہ شروع ہوا جو وقفے وقفے سے جاری ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سلامتی عملے نے فرار ہونے کے تمام ممکنہ راستوں کو سیل کر دیا ہے اور جنگل کے اندرونی حصوں میں خصوصی دستے تعینات کئے گئے ہیں تاکہ ملی ٹینٹوں کو محاصرے سے باہر نکلنے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔
دفاعی ذرائع کے مطابق آپریشن میں جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ تصادم کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔

واضح رہے کہ یکم اگست 2025 کو اسی ضلع کے اکھل جنگلاتی علاقے میں فورسز اور ملی ٹینٹوں کے مابین گیارہ روز تک انکاونٹر جاری رہا تھا جس دوران ایک ملی ٹینٹ ہلاک جبکہ دو فوجی جوان جاں بحق ہوئے تھے۔ اکھل اور گڈر علاقے کولگام جنگلاتی ڈویژن کے دائرے میں آتے ہیں۔

 

جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع میں این آئی اے کے چھاپے

سری نگر،: قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) ملی ٹنسی کی تحقیقات کے سلسلے میں جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع میں تلاشی کارروائیاں انجام دے رہی ہے۔

حکام نے بتایا کہ ایجنسی نے مقامی پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کے تعاون سے صبح کے اوقات میں مربوط چھاپے مارے۔

انہوں نے کہا کہ یہ چھاپہ مار کارروائیاں دہشت گردی سے متعلق ایک کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں انجام دی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں تین اضلاع میں تلاشی کارروائیاں جاری ہیں۔اس سلسلے میں مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔

سرینگر میں پینے کے پانی کا بحران سنگین ، درجنوں علاقوں میں سپلائی متاثر، شہری اضطراب میں مبتلا

فردوس وانی

سرینگر:،حالیہ سیلابی صورتحال کے بعد سرینگر شہر کے متعدد علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ راجباغ، مہجور نگر، پادشاہی باغ، ڈلگیٹ، سونہ وار، بنڈ ،کرسو راجباغ سمیت درجنوں علاقوں میں پانچ روز سے پانی کی سپلائی معطل ہے، جس کے باعث شہری سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔شہری علاقوں کے مکینوں نے شکایت کی ہے کہ نلوں میں پانی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اُنہیںشدید ذہنی کوفت، اضطراب اور جسمانی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔متعدد مقامی افراد نے بتایا کہ وہ پانی خریدنے پر مجبور ہیں، جبکہ کچھ کو قریبی علاقوں سے پانی لانے کے لیے سفر کرنا پڑ رہا ہے۔
راج باغ کے رہائشی محمد رفیق ڈار نے بتایا:’ہمارے گھروں میں پانچ دن سے ایک بوند پانی نہیں آیا۔ راجباغ نزدیکمسجد اویسہ، ایم پی لین اور ڈاکٹر ماجد وانی لین سمیت کئی علاقوں میں پانی مکمل بند ہے۔ ان دنوں میں بچوں، بزرگوں اور مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ آج عید میلادالنبی ﷺ کی تقریب سعید تھی ،لیکن آج بھی پانی کی سپلائی بحال نہیں ہوئی ۔، مہجور نگر، پادشاہی باغ، ڈلگیٹ، سونہ وار اور دیگر علاقوں سے بھی لوگوں نے پانی کی سپلائی متاثر ہونے کا الزام عائد کیا ۔
دوسری جانب محکمہ جل شکتی کے ذرائعنے پانی کی معطلی کی وجوہات پر بتاتے ہوئے کہا ہے کہ:’شہریوں کی صحت اور تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ حالیہ سیلابی صورتحال کے باعث خدشہ ہے کہ آلودہ پانی سپلائی لائنوں میں شامل ہو سکتا ہے، اس لیے پانی کی فراہمی عارضی طور پر معطل کی گئی ہے۔‘ادھرمحکمہ کے اعلیٰ حکام کے مطابق، متاثرہ علاقوں میں متبادل طور پر واٹر ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی جاری ہے جبکہ جہاں ضرورت ہو، وہاں کے لوگ متعلقہ محکمہ سے براہ راست رابطہ قائم کریں تاکہ فوری طور پر مدد فراہم کی جا سکے۔ان کا کہناتھا کہ شہر میں صد فیصد پانی کی سپلائی فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جارہے ہیں ۔

درگاہ حضرت بل میں نصب اشوک چکر والی تختی کو فوری طور پر ہٹایا جائے:متحدہ مجلس علمائ

سری نگر،:جموں و کشمیر کی سب سے بڑی دینی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علما نے درگاہ حضرت بل میں حالیہ نصب کی گئی اشوک چکر کندہ تختی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسلامی روایت اور عوامی جذبات کے منافی قرار دیا ہے۔

مجلس نے اپنے بیان میں کہا کہ حضرت بل صرف ایک عمارت نہیں بلکہ صدیوں سے کشمیری مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے اور اس کی حرمت و تقدس میں کسی قسم کی مداخلت عوامی و مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مساجد، خانقاہوں اور مزارات میں تختیاں یا کوئی بھی علامت نصب کرنا درست نہیں اور ماضی میں بھی حضرت بل کی دوبارہ تعمیر کے وقت کوئی تختی یا سنگِ بنیاد نہیں لگایا گیا تاکہ روایت برقرار رہے۔
مجلس نے وقف بورڈ کو یاد دہانی کرائی کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی اصولوں اور مسلم روایت کا احترام کرے اور مقدس مقامات کو محض عبادت و روحانیت کا مرکز بنائے، نہ کہ علامتوں کی نمائش کا۔
متحدہ مجلس علما نے عوامی ردعمل کو سچے اور خلوص پر مبنی مذہبی جذبات قرار دیتے ہوئے ان عبادت گزاروں پر ایف آئی آر درج کرنے اور سخت کارروائی کرنے کو ناجائز، غیر منصفانہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ مجلس نے زور دیا کہ ایسے دینی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ سخت اقدامات سے۔
مجلس نے وقف بورڈ سے مطالبہ کیا کہ درگاہ حضرت بل میں نصب اشوک چکر والی تختی کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور مستقبل میں اس طرح کے حساس فیصلے لینے سے قبل مستند علما کرام سے مشاورت کی جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ متحدہ مجلس علما میں وادی کی درجنوں بڑی دینی، سماجی اور ملی تنظیمیں شامل ہیں جن میں انجمن اوقاف جامع مسجد سری نگر، انجمن شرعی شیعان، جمعیت اہلحدیث، جمعیت ہمدانیہ، کاروان اسلامی، دارالعلوم رحیمیہ، انجمن حمایت الاسلام، ادارہ غوثیہ، انجمن علمائے احناف، انجمن نصرة الاسلام، خانقاہ حیدریہ، مجلس علمائے امامیہ کشمیر اور متعدد دیگر ادارے شامل ہیں۔

 

جموں و کشمیر اور لداخ میں عید میلاد النبی(ص) کی تقریب مذہبی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی

سری نگر: جموں و کشمیر اور لداخ میں ہفتے کے روز عید میلادالنبی (ص) کی تقریب مذہبی جوش و خروش، روحانی سرشاری اور بے پناہ عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی۔ مساجد، خانقاہیں، امام بارگاہیں اور زیارت گاہیں چراغاں سے جگمگاتی رہیں، جب کہ درجنوں مقامات سے عظیم الشان جلوس برآمد ہوئے۔ لاکھوں عقیدت مندوں کی شرکت سے وادی کی فضائیں درود و سلام، نعتیہ کلام اور نعرۂ تکبیر و رسالت کی صداؤں سے معمور ہو گئیں۔

اس دن کی سب سے بڑی اور پرشکوہ تقریب درگاہ حضرت بل میں منعقد ہوئی، جو جھیل ڈل کے کنارے پر واقع ہے اور جہاں حضور اکرم (ص) کے موئے مقدس کی زیارت کی جاتی ہے۔ رات بھر جاری رہنے والی شب خوانی کی محافل میں ہزاروں مرد و زن نے شرکت کی۔ رات کی ٹھنڈ کے باوجود عقیدت مندوں نے وعظ و نصیحت، نعت خوانی، درود و سلام اور ختمات المعظمات میں بھرپور حصہ لیا۔
صبح کے وقت جب موئے مقدس(ص) کی زیارت کرائی گئی تو عاشقان رسول (ص) کے چہرے خوشی و سرور سے منور ہو گئے۔ آنکھوں میں آنسو، لبوں پر درود اور دلوں میں عقیدت کی شمعیں روشن تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے ہر عقیدتمند کے ایمان کو تازگی بخشی اور روحانی سکون عطا کیا۔
عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر وادی بھر میں جلوس ہائے میلاد نکالے گئے۔ جلوسوں کے دوران فضائیں "لبیک یا رسول اللہؐ”، "سرکار کی آمد مرحبا” اور "یا نبی سلام علیک” کے نعروں سے گونجتی رہیں۔ بچے سبز پرچم اور جھنڈیاں تھامے چل رہے تھے جبکہ بزرگ تسبیح و درود پڑھتے ہوئے جلوس کا حصہ بنے۔
راستے بھر جگہ جگہ پانی، چائے، گرم دودھ اور لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی مقامات پر مقامی دکانداروں نے اپنی دکانوں کے سامنے عاشقان رسول (ص) کے لئے سبیلیں لگائیں۔
اس دن کی مناسبت سے منعقدہ مجالس میں علما و مشائخ نے حضور اکرم (ص) کی سیرتِ طیبہ پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ رسول اللہ (ص) کی تعلیمات عالمِ انسانیت کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ انہوں نے اتحاد، بھائی چارہ، خدمتِ خلق اور انسانیت نوازی کو امت مسلمہ کے لئے ناگزیر قرار دیا۔
خطبا نے اس بات پر زور دیا کہ آج کے دور میں امت کو نفرت اور تقسیم کے بجائے محبت، رواداری اور اخوت کا پیغام عام کرنا چاہئے۔ اگر ہم حضور (ص) کی سنتوں پر عمل کریں تو معاشرے سے ظلم، ناانصافی اور نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔
حضرت بل کے علاوہ آثار شریف شہری کلاشپورہ، پنجورہ، صورہ، ترال، پٹن اور گاندربل کی زیارت گاہوں میں بھی شب خوانی اور میلاد کی مجالس منعقد ہوئیں۔
جنوبی کشمیر کے پانپور میں ادارہ اوقاف اسلامیہ ٹرسٹ اور شاہ ہمدان میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک عظیم جلوس برآمد ہوا۔ جلوس روایتی راستوں سے ہوتا ہوا خانقاہ عالیہ پانپور میں اختتام پذیر ہوا جہاں خصوصی دعا ہوئی۔
اسی طرح جموں و کشمیر جمعیت ہمدانیہ کی جانب سے سری نگر کے کلاشپورہ علاقے سے جلوس نکالا گیا جس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے۔
انجمن شرعی شیعیان نے خانقاہ میر شمس الدین اراکی سے امام بارہ گلشن باغ تک ایک بڑا جلوس نکالا۔ شیعہ و سنی برادری کے مشترکہ اجتماعات نے وادی میں اخوت اور بھائی چارے کی مثال قائم کی۔
صوبہ جموں کے ڈوڈہ، کشتواڑ، راجوری اور پونچھ میں بھی میلاد النبی (ص) کے موقع پر خصوصی مجالس اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔ مقامی لوگوں نے گھروں کو چراغاں کیا اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پیر پنچال کے علاقے مینڈھر اور سرنکوٹ میں ہزاروں افراد نے جلوس میلاد میں شرکت کی۔ خواتین نے گھروں سے جلوس کے شرکا کو مٹھائیاں اور شربت پیش کئے۔
خطہ لداخ کے لیہہ، کرگل اور دراس میں بھی میلاد النبی (ص) جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ کرگل میں امام بارگاہوں میں شب خوانی کی محافل سجائی گئیں جبکہ لیہہ میں اہل سنت برادری نے جلوس نکالے۔ برف پوش پہاڑوں کے درمیان جب عقیدتمندوں کی زبانوں سے درود و سلام بلند ہوا تو فضا میں ایک روحانی منظر قائم ہو گیا۔
عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر وادی کے تقریباً تمام شہروں اور قصبوں میں بازاروں کو سبز جھنڈوں، برقی قمقموں اور رنگ برنگی بتیوں سے سجایا گیا۔ دکانیں اور مساجد جگمگاتی رہیں۔ کئی مقامات پر نوجوانوں نے اجتماعی طور پر گلی کوچوں کو سجانے کا بیڑا اٹھایا۔
سری نگر شہر کی سڑکوں پر سبز جھنڈیاں لہراتی رہیں اور رات بھر برقی قمقموں سے شہر کا منظر دیدنی بنا رہا۔
زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے انتظامیہ کی جانب سے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ درگاہ حضرت بل میں بجلی، پینے کا صاف پانی، صحت و صفائی اور طبی امداد کے لئے ہنگامی مراکز قائم کئے گئے تھے۔
جموں و کشمیر بینک اور محکمہ امور صارفین نے لنگر اور طعام کا اہتمام کیا جبکہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے زائرین کی آمدورفت کے لئے اضافی بسیں چلائیں۔
میلاد النبی (ص) کے موقع پر عوامی جوش و خروش دیدنی تھا، لوگ اپنے بچوں کے ساتھ رات بھر مساجد اور خانقاہوں میں رہے۔ خواتین نے گھروں میں محافل میلاد منعقد کیں۔
ایک عقیدتمند نے کہا: ’یہ دن ہمارے لئے سب سے بڑی خوشی کا دن ہے کیونکہ اس دن دنیا کو وہ ہستی نصیب ہوئی جس نے جہالت کے اندھیروں کو مٹا کر انسانیت کو روشنی بخشی۔‘

 

حضرت بل درگاہ میں قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے:محبوبہ مفتی

سری نگر،: پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حضرت بل دوگاہ کے اندر قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے حکام پر متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔موصوف سابق صدر نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔


انہوں نے کہا: ‘پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی سرکاروں کے دوران بھی حضرت بل میں تعمیراتی کام کیا گیا لیکن ایسی حرکت کبھی نہیں کی گئی جس سے لوگوں خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے مذبی جذبات مجروح ہوں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ذمہ داروں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295-اے کا استعمال کیا جانا چاہئے جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر کارروائیوں سے متعلق ہے’۔

محبوبہ مفتی نے کہا: ‘لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں لہذا اس پر ضرور کارروائی ہونی چاہئے’۔
انہوں نے کہا: ‘جب سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید نے اوقاف بورڈ کو سنبھالا تو ہم نے کبھی اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا بلکہ اس کو چلانے کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ مذہبی جذبات میں آکر قومی نشان کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی نشان والی افتتاحی تختی نصب کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرے جنہوں نے اس طرح کی حرکت کی اجازت دی۔ حضرت بل ایک مذہبی مقام ہے’۔

انہوں نے کہا کہ درگاہ حضرت بل تاجپوشی یا سیاسی علامت کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مذہبی جگہ ہے’۔
پی ڈی پی صدر نے کہا: ‘ وزیر داخلہ کو مقامی لوگوں پر پی ایس اے عائد کرنے کے لیے بلانا ناقابل قبول ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک ایسے مزار میں نشان لگانے کی اجازت کس نے دی جہاں بت پرستی کا کوئی تصور نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘یہ بی جے پی کی کوئی تقریب نہیں تھی، یہ حضرت میں میں ایک تقریب تھی جس میں درود و اذکار بلند ہونے چاہئے تھے، یہ تاج پوشی کی کوئی تقریب نہیں تھی’۔
 

قومی نشان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے مذہنی اداروں میں نہیں: عمر عبداللہ

سری نگر،: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے حضرت بل کے مزار پر نصب تختی پر قومی نشان موجود ہونے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مذہبی اداروں میں سرکاری نشانات کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے لہذا لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے۔

وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار ہفتے کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں نامہ نگاروں کی طرف سے درگاہ حضرت بل میں نصب تختی پر قومی نشان موجود ہونے پر ہوئے تنازعے کے متعلق سوالوں کا جواب دینے کے دوران کیا۔


انہوں نے کہا: ‘میں نے ابھی تک کسی بھی مذہنی ادارے یا تقریب میں قومی نشان کو استعمال ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے تو حضرت بل میں قومی نشان استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی’۔

ان کا کہنا تھا: ‘درگاہ حضرت بل کو یہ شکل شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے دی ہے لیکن کہیں ان کا کوئی پتھر نہیں لگا ہے لوگ آج بھی ان کے کام کو یاد کرتے ہیں’۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ پتھر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی یہ ان کی غلطی ہے جس پر ان کو لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے۔

اس پتھر کو مبینہ طور توڑنے کی کوشش کرنے والوں پر پی ایس اے لگانے کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ‘ڈرانے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے، کم سے کم لوگوں سے معافی مانگی جانی چاہئے’۔

ان کا کہنا تھا: ‘اگر ہم گوگل پر بھی سرچ کریں گے تو کہیں بھی یہ نظر نہیں آئے گا کہ کسی مذہبی ادارے میں قومی نشان کا استعمال کیا گیا ہو’۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قومی نشان کا استعمال سرکاری اداروں میں کیا جاتا ہے لیکن مذہبی جگہوں جیسے مندر، مساجد یا درگاہوں میں اس کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔
یو این آئی

جموں و کشمیر میں 12 ستمبر تک موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں

سری نگر،: جموں و کشمیر میں موسمی صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور اس دوران محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ یونین ٹریٹری میں 12 ستمبر تک موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
محکمے نے اپنی ایڈوائزری میں لوگوں سے دریائوں، ندی نالوں اور کمزور تعمیراتی ڈھانچوں کے نزدیک جانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 9 ستمبر کے بعد اپنے کھیت کھلیانوں اور باغوں میں کام شروع کریں۔

متعلقہ محکمے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جموں وکشمیر میں 6 ستمبر کو کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشوں کا امکان ہے۔انہوں نے کہا کہ 7 اور 8 ستمبر کو جموں وکشمیر میں کچھ مقامات پر گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشیں ہوسکتی ہیں جبکہ جموں صوبے کے کچھ اضلاع میں صبح اور شام کے وقت درمیانی درجے کی بارشوں کا امکان ہے۔موصوف ترجمان نے بتایا کہ بعد میں 9 سے 12 ستمبر تک کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارشوں کے مرحلے متوقع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں مجموعی طور پر 12 ستمبر تک کسی موسم میں کسی خاص تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔محکمے نے اپنی ایڈوائزری میں کہا کہ جموں وکشمیر میں کہیں کہیں لینڈ سلائیڈنگ اور چٹانیں کھسک آنے کے بھی خطرات ہیں۔

ایڈوائزری میں لوگوں سے دریائوں، ندی نالوں اور کمزور تعمیراتی ڈھانچوں کے نزدیک جانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 9 ستمبر کے بعد اپنے کھیت کھلیانوں اور باغوں میں کام شروع کریں۔
دریں اثنا وادی میں ہفتے کی صبح سے ہی مطلع جزوی طور پر ابر آلود لیکن موسم خشک رہا۔

عمر عبداللہ نے ضلع اننت ناگ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا

سری نگر: جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ہفتے کو جنوبی کشمیر کے ضلع اننت کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں متاثرہ کنبوں کے ساتھ بات چیت کی۔

انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

اس دوران نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری، وزیر تعلیم سکینہ یتو،قبائلی امور کے وزیر جاوید رانا، وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم اور متعلقہ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

واضح رہے کہ حالیہ سیلاب سے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ اور کولگام میں سیب باغوں کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے اور دھان و دیگر زرعی پید وار بھی تبای ہوئی ہے۔

وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ‘ایکس’ ہینڈل پر ایک پوسٹ میں کہا گیا: ‘ وزیر اعلیٰ نے آج اننت ناگ ضلع کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے بات چیت کی۔’
پوسٹ میں کہا گیا: ‘انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت آزمائش کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی مدد کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے’۔

پوسٹ کے مطابق نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری، وزیر تعلیم سکینہ، یتو،قبائلی امور کے وزیر جاوید رانا، وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم اور متعلقہ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ کے ہمراہ تھے۔

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعہ کی صبح سیلاب کے بعد کے منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے ایک اہم میٹنگ کی صدارت کی جس میں انہوں نے حساس مقامات کو مزید تقویت دینے، سیلاب زدہ دیہاتوں سے لوگوں کو نکالنے اور کنٹرول رومز کے ذریعے چوبیس گھنٹے نگرانی کرنے کی ہدایت دی۔

حکام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کا عمل شروع کیا ہے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا: ‘ہم تمام علاقوں سے نقصان کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں۔ رپورٹ مکمل ہونے کے بعد حکومت کو بھیجی جائے گی اور اس کے بعد ریلیف اقدامات اٹھائے جائیں گے’