مجلس نے اپنے بیان میں کہا کہ حضرت بل صرف ایک عمارت نہیں بلکہ صدیوں سے کشمیری مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے اور اس کی حرمت و تقدس میں کسی قسم کی مداخلت عوامی و مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مساجد، خانقاہوں اور مزارات میں تختیاں یا کوئی بھی علامت نصب کرنا درست نہیں اور ماضی میں بھی حضرت بل کی دوبارہ تعمیر کے وقت کوئی تختی یا سنگِ بنیاد نہیں لگایا گیا تاکہ روایت برقرار رہے۔
مجلس نے وقف بورڈ کو یاد دہانی کرائی کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی اصولوں اور مسلم روایت کا احترام کرے اور مقدس مقامات کو محض عبادت و روحانیت کا مرکز بنائے، نہ کہ علامتوں کی نمائش کا۔
متحدہ مجلس علما نے عوامی ردعمل کو سچے اور خلوص پر مبنی مذہبی جذبات قرار دیتے ہوئے ان عبادت گزاروں پر ایف آئی آر درج کرنے اور سخت کارروائی کرنے کو ناجائز، غیر منصفانہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ مجلس نے زور دیا کہ ایسے دینی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ سخت اقدامات سے۔
مجلس نے وقف بورڈ سے مطالبہ کیا کہ درگاہ حضرت بل میں نصب اشوک چکر والی تختی کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور مستقبل میں اس طرح کے حساس فیصلے لینے سے قبل مستند علما کرام سے مشاورت کی جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ متحدہ مجلس علما میں وادی کی درجنوں بڑی دینی، سماجی اور ملی تنظیمیں شامل ہیں جن میں انجمن اوقاف جامع مسجد سری نگر، انجمن شرعی شیعان، جمعیت اہلحدیث، جمعیت ہمدانیہ، کاروان اسلامی، دارالعلوم رحیمیہ، انجمن حمایت الاسلام، ادارہ غوثیہ، انجمن علمائے احناف، انجمن نصرة الاسلام، خانقاہ حیدریہ، مجلس علمائے امامیہ کشمیر اور متعدد دیگر ادارے شامل ہیں۔