جمعہ, ستمبر ۱۲, ۲۰۲۵
19.7 C
Srinagar
ہوم بلاگ صفحہ 1795

’افسپا پر کانگریس کی زبان ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی ‘

نئی دہلی ،5 اپریل   :  وزیر اعظم نریندر مودی نے کانگریس کے مرکز میں اقتدار میں آنے پر جموں و کشمیر میں سیکورٹی فورسز کے خصوصی اختیارت قانون (افسپا ) کی نظر ثانی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی زبان قرار دیا ہے۔
مسٹر مودی نے ایک ٹیلی ویژن چینل اے بی پی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کانگریس کے افسپا قانون کا جائزہ لینے کے سوال کے جواب میں کہا’’آپ افسپا قانون ہٹانا چاہتے ہیں، آپ کو کبھی باقاعدہ طور پر جائزہ لینا چاہئے تھا ، صورتحال دیکھنی چاہئے، لیکن آنکھیں بند رکھنے سے کام نہیں چلے گا ۔ ہاں دنیا میں کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ ملک جیل خانہ بنے، لیکن آپ کوحالات بہتر بنانے چاہئے تھے ، جیسا ہم نے اروناچل پردیش میں کیا، جہاں حالا ت میں بہتری آئی ہے ، جہاں ہم نے اروناچل کو ان حالات سے باہر نکالا، لیکن قانون ختم کر دینا، قانون کو بدل دینا، یہ جو آپ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ کی زبان بول رہے ہو، تو یہ ملک کیسے چلے گا۔ مسٹر مودی نے علیحدگی پسند وں کی زبان کو پاکستان حمایت یافتہ زبان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’سوال یہ ہے کہ ہم ایسا ہندوستان چاہتے ہیں ، جس میں افسپا ہو ہی نہیں لیکن پہلے وہ حالا ت تو بہتر بنائیں ، اس صورتحال پر آج پاکستان جس طرح سے واقعات انجام دے رہا ہے ، جو علیحدگی پسند لوگ زبان استعمال کرتے ہیں ، علیحدگی پسند لوگ جو ہماری فوج کے لئے زبان استعمال کرتے ہیں ، جو پاکستان حمایت یافتہ زبان ہے ،اس زبان کی منشور میں بو آتی ہے ، وہ ملک کے سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی آپ کتنی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں ، آپ ملک کا کتنا نقصان کر رہے ہیں ۔
۔ ( یواین آئی

گیارہویں انتخابات: کانگریس بے دخل، بی جے پی کی پہلی حکومت

نئی دہلی، 5 اپریل  : سال 1996 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ایک بار پھر اقتدار سے باہر ہوئی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مرکز میں پہلی بار حکومت بنائی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی مرکز میں سیاسی عدم استحکام کا دور تیز ہو گیا تھا۔
اس الیکشن میں بھی کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی۔ سیاسی عدم استحکام کا عالم یہ تھا کہ مئی 1996 سے مارچ 1998 تک ملک میں تین وزیر اعظم بنے۔ اس کے باوجود لوک سبھا اپنی پانچ سال کی مدت مکمل نہیں کر سکی اور ملک میں ایک بار پھر عام انتخابات کرانے پڑے۔
گیارہویں انتخابات میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور مسٹر اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی لیکن ان کی حکومت محض 13 دن ہی چل سکی۔ اس کے بعد ایچ ڈی دیوگوڑا اور اندر کمار گجرال نے ملک کی قیادت سنبھالی۔ اس سے پہلے پی وی نرسمہا راؤ کی اقلیتی حکومت نے موثر قیادت کی صلاحیت کی وجہ سے پانچ سال کی اپنا مدت مکمل کی لیكن انتخابات میں کانگریس کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام رہی تھی۔
لوک سبھا کی 543 سیٹوں کے لئے ہوئے انتخابات میں آٹھ قومی پارٹیوں، 30 ریاستی سطح جماعتوں اور 170 رجسٹرڈ جماعتوں نے الیکشن لڑا۔ کل 59 کروڑ 25 لاکھ ووٹروں میں سے 57.94 فیصد ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے 13952 امیدواروں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا تھا۔ اس الیکشن میں جنتا پارٹی کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا تھا۔
جاری۔یو این آئی

یہ واضح نہیں کہ پاکستان میں معاملات کون سنبھالتا ہے: مودی

نئی دہلی، 5 اپریل :  وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کے روز اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ہندوستان کے لئے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان سے پہلے کے وزیراعظم نواز شریف میں سے کون بہتر اور سہل ہے۔
مسٹر مودی نے کہا کہ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان میں حقیقت میں معاملات کون سنبھالتا ہے، ایک منتخب حکومت یا کوئی اور۔
انہوں نے ٹی وی نیوز چینل اے بی پی نیوز کے ساتھ انٹرویو کے دوران پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا فیصلہ پاکستان کے لوگوں کو کرنے دیں۔ میرا کام ہندوستان کے مفادات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ پاکستان کی انتظامیہ کو چلانے میں میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا کرکٹر سے لیڈر بنے مسٹر خان، نواز شریف سے زیادہ ہوشیار ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ ’’وہ (عمران خان) کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے، ان سب باتوں کو پاکستان کے لوگوں پر چھوڑ دیں‘‘۔
مسٹر مودی نے کہاکہ ’’میں نے دنیا کے کئی لیڈروں سے بات کی ہے اور انہوں نے کیا کہا اور مجھے کیا محسوس ہوا، دنیا کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ پاکستان کے معاملات کو کون سنبھالتا ہے۔ پاکستان کی منتخب حکومت یا فوج یا آئی ایس آئی یا پھر پاکستان سے بھاگ کر مغربی ممالک میں آباد ہونے والے کچھ لوگ‘‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستان كے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئے، انہوں نے کہاکہ ’’یہ بہت آسان ہےاور بہت سہل ہے، پاکستان کو سب سے پہلے دہشت گردی کی برآمد بند کر دینی چاہئے‘‘۔
جاری۔ یو این آئی۔

کولگام میں حادثہ ،متعدد اہلکار زخمی

کولگام : جنوبی ضلع کولگام میں آئی ٹی بی پی فورسز کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا  جسکے نتیجے میں متعدد اہلکار زخمی ہوئے ۔یہ حادثہ جمعہ کی صبح پیش آیا ۔

کولگام پولیس حکام کا کہنا ہے کہ چولگام کے مقام مذکورہ فورسز گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوئی اور سڑک پر پلڑ گئی جسکے نتیجے میں اس میں سوار کم ازکم تین اہلکار زخمی ہوئے ،جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔

 

 

 

 

سینٹرل جیل سرینگر میں پُرتشدد احتجاجی مظاہرے،اضافی فورسز طلب

  رپورٹ کے مطابق دلباغ سنگھ نے کہا کہ دیگر قیدیوں نے جیل حکام کے ساتھ پرتشدد حرکتیں کیں اور جیل کے اندر ایک جگہ پر آگ بھی لگادی ،فائر اینڈ ایمرجنسی عملہ جائے موقعے پر موجود ہے اور آگ بجھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔

خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق سینٹرل جیل سرینگر میں اُس وقت پُرتشدد احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے جب جیل کے اندر یہ افواہ پھیلی کہ بعض قیدویوں کو وادی سے باہر منتقل کیا جارہا ہے۔

جیل کے باہر اضافی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی،تصویر سوشل میڈیا

رپورٹ کے مطابق احتجاجی قیدیوں نے عارضی جائے پناہ کو نظر آتش کیا۔ جیل کے اندر پھوٹ پڑے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں سی آر پی ایف کے اضافی اہلکاروں کی تعیناتی جیل کے باہر تعینات کردی گئی ہے ،تاہم صورتحال کشیدہ ہے ،لیکن قابو میں ہے۔

دریں اثنا جیل کے باہر انتظامیہ نے لوگوں کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کی ہے ۔یاد رہے کہ سینٹرل جیل سرینگر ،شہرخاص کے رعناواری پولیس تھانہ حدود میں آتا ہے۔

سنگریزے

 ۱۔ امیت شاہ ایک بڑی جنگ کےلئے تیار رہیں / محبوبہ مفتی 
٭ دور اقتدار میں زبان کی یہ ”مٹھاس “کہاں تھی؟
۲۔ اسرائیلی پالیسی کشمیر کو فلسطین میں تبدیل کرے گی /شاہ فیصل 
٭ اسی لئے آپ میدان میں کودے ہیں ۔
۳۔ کانگریس کا انتخابی منشورڈھکوسلہ /نریندر مودی 
٭ اور بی جے پی کا منشور کیا ہے ؟
۴۔ ریاستی حکومت نے خصوصی پوزیشن کا مطالبہ نہیں کیا تھا /کرن سنگھ 
٭ لہٰذا دی ہوئی چیز واپس لینا غیرت کے خلاف ہے۔ 
۵۔ وزیر اعظم عہدہ کی بحالی کا سوال ہی نہیں /امیت شاہ 
٭ آپ نے کئی اور معاملات کے حوالے سے یہی سوال پیدا کیا تھا ؟
۶۔ 1975 میں شیخ محمد عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ کیوں قبول کیا /پی ڈی پی 
٭ کیونکہ اس وقت کرسی حاصل کرنے کی مجبوری تھی۔ 
۷۔ شہری ہلاکتیں نا قابل برداشت /آزاد 
٭ کاش اپنے دور اقتدار میں یہ بیان دیا ہوتا۔ 
۸۔ این سی اور پی ڈی پی دھوکہ دے رہی ہیں/ عمران انصاری 
٭ آپ کو اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟
۹۔ 1953ئ کی پوزیشن ہماری منزل ہے/ڈاکٹر فاروق
٭ منزل دور ہے جانا ضرور ہے۔اٹانومی بھول گئے؟
۰۱۔ ووٹران کو بہتر ماحول فراہم ہوگا/دلباغ سنگھ 
٭ یعنی ہر ووٹر کے ساتھ دو دو سپاہی ہونگے۔ 

 ووٹ کی قیمت بھاری 

کانگریس کا انتخابی منشور یہ ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے بنک کھاتوں میں ماہانہ 6ہزار روپے جمع کئے جائیں گے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی وزیر اعظم بننے سے قبل اسی طرح کا منشور 2014 میں ملک کے عوام کے سامنے رکھا تھا جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ سالانہ ۲ کروڑ نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کسانوں کے کھاتوں میں 15لاکھ جمع کئے جائیں گے ۔ نہ ہی نوجوانوں کو ۵ برسوں میں روزگار فراہم ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی کے کھاتے میں کوئی رقم جمع ہو سکی ہے ۔ البتہ اگر کسی کھاتے میں غریب عوام کے چند ہزار روپے جمع تھے اس پر انکم ٹیکس رٹیرن بھرنا لازمی قرار دیا گیا اور بنک حکام نے کھاتہ دار کے کھاتے سے اپنا خرچہ کاٹ دیا ۔ انتخابی منشوروں کے نام پر عام لوگوں کی نیند حرام کی جا رہی ہے وہ بیچارے دن رات یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کی بار نئی سرکار ان کا کچھ بھلا کرے گی لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ وہ بیچارہ روتا ہی رہتا ہے چند دنوں کےلئے ملک کا ووٹر واقعی ایک طاقت کے طور پر آزاد ہے وہ جس کو چاہے اپنے ووٹ کے ذریعے نئی سرکار کےلئے متنخب کر سکتا ہے اس طرح اپنی تقدیر بنا بھی ستکا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے اس لئے لازمی ہے کہ ہر ووٹر اس بات کا خیال رکھے کہ وہ ووٹ ڈالتے وقت نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے سوچے کہ اس کی حکمرانی کےلئے کون بہتر نمائندہ ہے وہ پارٹیوں کی جانب اجراءکردہ منشور پر بھروسہ نہ کرے بلکہ سیاسی لیڈر کے معیار زندگی کو پرکھ لے کہ اسکا ماضی کیا رہا ہے اس نے کتنا جھوٹ بولا ہے ۔ لوگوں کا کام کتنا کیا ہے ، لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے کیونکہ آپ کے ووٹ کی قیمت بہت بھاری ہے اس کی بدولت سیاستدان زیرو سے ہیرو بن سکتا ہے ۔ 

سڑکوں پر چلنے کی پابندی محبوبہ مفتی کی بدحکمرانی کی دین :عمر عبداللہ

رفیع آباد::پی ڈی پی اور بھاجپا کی 4سالہ شراکت داری میں ریاست کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا، اس حد تک اس ریاست کا بیڑا غرق کیا گیا کہ ہمیں اپنی سڑکوں پر چلنے کی بھی اجازت نہیں، اب بارہمولہ سے اُدھمپور تک شاہراہ ہفتے میں دو دن عام لوگوں کے چلنے پر پابندی ہوگی، یہ سب کچھ محبوبہ جی کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔

ان باتوں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے رفیع آباد بارہمولہ میں چناﺅ ی مہم کے دوران ورکرس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، نامزداُمیدوار ایڈکیٹ محمد اکبر لون، سابق ایم پی شریف الدین شارق، ضلع صدر جاوید احمد ڈار، شمی اوبرائے، غلام حسن راہی، جنک سنگھ سوڑھی، ایڈوکیٹ نیلوفر مسعود بھی موجود تھیں۔

عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”مشکل سے ہم نے اس ریاست کو 2014میں ایک مقام پر پہنچایا تھا ، جہاں امن و امان ، خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ تھا لیکن 2015میں پی ڈی پی اور بھاجپا کے ملن نے سب کچھ تباہ کردیا، جو ایک نہ مٹنے والی حقیقت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 2014میں بے تحاشہ گرفتاریاں اور پبلک سیفٹی ایکٹ نہیں لگایا جارہا تھا، NIAکی سختیاں اور نوجوانوں اور مذہبی رہنماﺅں کی تنگ طلبی نہیں کی جارہی تھی، اُس وقت جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی، 2014سے پہلے شاہراہ بند نہیں تھی، کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی، حالات بالکل ٹھیک تھے اور ہم ان عوام کش اقدامات کی اجازت بھی نہیں دیتے۔یہ سب کچھ محبوبہ مفتی جی کی مہربانی ہے کہ ہمیں آج اپنی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں۔“

ہفتے میں دو دن شاہراہ پر عام لوگوں کے چلنے کی پابندی کو تغلکی فرمان قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ حکمنامہ جاری کرنے سے پہلے کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کی یہاں کے مریض ہسپتال کیسے جائیں گے، یہاں کے ملازم دفتر کہاں سے جائینگے، یہاں کے بچے کن راستوں سے سکول جائینگے؟ عام لوگ اپنا رعبور و مرور کیسے کریں گے؟ کیا مودی جی یہاں ہیلی کاپٹر بھیجیں گے؟اسی لئے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ان عناصر کو مسترد کریں جن کی بدولت آج ہم اپنی سڑکوں کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ ”اس ریاست کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں لوگوں کو صحیح فیصلہ کرنا ہوگا، مجھے یاد رہے کہ 2008میں میں مجھے اور محبوبہ مفتی کو پارلیمنٹ میں ریاست پر بات کرنے کیلئے کہا گیا، 5منٹ میں مجھ سے جتنا ہوسکا میں نے کہہ دیا لیکن جب سپیکر نے محبوبہ مفتی کو کشمیر پر بات کرنے کیلئے کہا تو موصوفہ نے کہا ”میں کیا بولوں یار“ اور بیٹھ گئیں۔ کیا ہمیں ایسے نمائندے چاہئے جو وہاں خاموش رہیں؟ہم نے پی ڈی پی کے اُس نمائندے کو بھی دیکھا جسے بارہمولہ کے لوگوں نے ووٹ دیئے اور اُس نے پارلیمنٹ میں جاکر مودی سے کہا کہ کشمیر کا نوجوان محض دو جوڑے کرتے پجامے کیلئے بندوق اُٹھاتا ہے اور اپنی جان قربان کرتا ہے۔چاپلوسی، اقتدار پرستی اور موقعہ پرستی کی اس سے زیادہ اور کیا حد ہوسکتی ہے۔میں دعوے کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب اکبر لون صاحب پارلیمنٹ جائیں گے تو کشمیریوں کی بات کرینگے اور مودی بھی خاموش سے اُن کو سنیں گے“۔

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے این سی نائب صدر نے کہا کہ ”محبوبہ جی آج کہتی ہیں کہ وہ دفعہ370پر آواز اُٹھائیں گی، جب مودی نے اُن کے والد مرحوم مفتی محمد سعید کی سرینگر کے عوامی جلسے میں بے عزتی کی تو موصوفہ نے اُس وقت خاموش رہیں تو دفعہ370پر کیا آواز اُٹھائیں گی۔جب یہاں آپریشن آل آﺅٹ شروع محبوبہ مفتی خاموش رہی، جب نئے سرے سے کریک ڈاﺅنوں کا سلسلہ شروع ہوا وہ خاموش رہیں، جب 35اے کیخلاف سپریم کورٹ مین کیس ہوا وہ خاموش رہیں، بھاجپا خصوصی پوزیشن کی دھجیاں اُڑا رہے تھے موصوفہ خاموش رہیں، آر ایس ایس والے ہتھیار بند ریلیاں نکال رہے تھے محبوبہ مفتی خاموش بیٹھی، بیروہ کے فاروق ڈار کو فوج کی جیپ کیساتھ باندھ کر درجن بھر دیہات میں گھمایا گیا اُس وقت بھی محبوبہ مفتی خاموش رہیں،آج ہم کیسے اُمید کرسکتے ہیں کہ محبوبہ مفتی کشمیریوں کے حق میں آواز اُٹھائیں گی“۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی اُس وقت بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی جب یہاں کے نوجوانوں نے ازسرنو بندوقیں اُٹھانا شروع کیا اور اُس وقت بھی آواز بلند نہیں کی جب مرکز نے ریاست کیساتھ سیاسی بات چیت کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم کہتے آئے ہیں جموں وکشمیر بندوق کا مسئلہ نہیں، یہ پیسے کا مسئلہ نہیں، یہ نوکری یا روزگار کا مسئلہ نہیں، یہ ترقی اور ترقیاتی کاموں کا مسئلہ ، جموںوکشمیر کا بنیادی مسئلہ سیاسی ہے اور بندوق کی نوک سے اس کی ہیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سیاسی مسئلے کا حل یہاں کے لوگوں کیخلاف سازشیں کرنے سے نہیں ہوگا، سیاسی مسئلہ حل ہوتا ہے تو بات چیت کے ذریعے ہوتا ہے۔نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کے دوران حزب المجاہدین کیساتھ بات ہوئی اور حریت کیساتھ بھی بات ہوئی کیونکہ ہم نے ہمیشہ بات چیت کو ہی ترجیح دی اور مرکز کو بھی قائل کیا“۔

گالف کھیل کے اعلیٰ ماہر اور مشیر نے درجہ بندی میں کشمیر گالف کورس کو ٹرپل ( اے)قراردیا

سرینگر:: گالف کھیل کے بین الاقوامی شہرت کے مالک اعلیٰ ماہر اور مشیر ڈیوڈ جے برنکل نے کشمیر گالف کورس کو ٹرپل اے درجے سے نوازا ہے۔

برنکل کشمیر گالف کورس کا جائزہ لینے یہاں پر دو راوزہ دورے پر آئے ہوئے تھے اور اس گالف کورس کی تعمیر و تجدید کا کام جموں و کشمیر بینک اپنی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری یعنی سی ایس آر کے تحت کر رہا ہے۔

ڈیوڈ برنکل کو خاص طور پرجے اینڈ کے بینک نے گالف کورس کے ڈیزائن اور احاطے کا جائزہ لینے کیلئے یہاں بُلایا تھا اور جائزے کے دوران انہوں نے جے کے بینک کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اسکی درجہ بندی AAAیعنی ٹرپل اے زُمرے میں کی ہے۔

جے کے بینک چیئرمین اور سر پرست اعلیٰ جناب پرویز احمد کے ساتھ گفتگو کے دوران برنکل نے کہا کشمیر گالف کورس کو نہایت عمدگی کے ساتھ سنبھالا گیا ہے اور وہ کافی متاثر ہیں کہ جس طرح پیشہ وارانہ طریقے پر اسکی تعمیر اور پانی کے نکاس کا انتظام کیا گیا ہے۔

گالف کورس کا سبزہ اور Tees کو بین الاقوامی معیار پر سنبھالا گیا ہے۔ برنکل کو بتایا گیا کہ اس گالف کورس کو بینک نے ریا ستی سرکار کی درخواست پر اپنے ہاتھوں میں لیا تاکہ اسکی شان رفتہ بحال ہوسکے۔

واضح رہے کہ جے اینڈ کے بینک نے ریاست کے طول وعرض میں ریاستی ثقافت کے تحفظ کیلئے کئی پروجیکٹ در دست لے رکھیں ہیں اور اُنہی میں سے کشمیر گالف کورس جیسا گرانقدر پروجیکٹ بھی ایک ہے۔

اننت ناگ میں منشیات فروش گرفتار ، بڑی مقدار میں خشک خشخاش برآمد

 اننت ناگ :: منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف اپنی مہم جاری رکھتے ہوئے اننت ناگ پولیس نے ڈاگپورہ کھنہ بل کے نزدیک ایک شخص جس کی شناخت مد ثر احمد نجار ولد فیاض احمد نجار ساکنہ ڈاگپورہ کے بطور ہوئی کی گرفتاری عمل میں لا کر اُس کے قبضے سے بڑی مقدار میں خشک خشخاش برآمد کرکے ضبط کیا۔ پولیس نے معاملے کی نسبت ایف آئی آر زیر نمبر 34/2019کے تحت اننت ناگ پولیس اسٹیشن میں کیس درج کرکے تحقیقات شروع کی ہے۔

پولیس نے واضح کیا ہے کہ منشیات فروشی کے ناجائز دھندے میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔پولیس کی جانب سے منشیات اور نشیلی ادویات کے خلاف چلائی جا رہی مہم کامقصد لوگوں کو منشیات سے پاک ماحول فراہم کرنا ہے۔منشیات فروش سماج کیلئے ناسور بن چکے ہیں لہذا اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہر ایک کو اپنا دستِ تعاون پیش کرنا چاہئے تاکہ نوجوان نسل کو بری عادتوں میں مبتلا ہونے سے دور رکھا جاسکے۔