ووٹ کی قیمت بھاری 

کانگریس کا انتخابی منشور یہ ہے کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے بنک کھاتوں میں ماہانہ 6ہزار روپے جمع کئے جائیں گے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی وزیر اعظم بننے سے قبل اسی طرح کا منشور 2014 میں ملک کے عوام کے سامنے رکھا تھا جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ سالانہ ۲ کروڑ نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کسانوں کے کھاتوں میں 15لاکھ جمع کئے جائیں گے ۔ نہ ہی نوجوانوں کو ۵ برسوں میں روزگار فراہم ہو سکا ہے اور نہ ہی کسی کے کھاتے میں کوئی رقم جمع ہو سکی ہے ۔ البتہ اگر کسی کھاتے میں غریب عوام کے چند ہزار روپے جمع تھے اس پر انکم ٹیکس رٹیرن بھرنا لازمی قرار دیا گیا اور بنک حکام نے کھاتہ دار کے کھاتے سے اپنا خرچہ کاٹ دیا ۔ انتخابی منشوروں کے نام پر عام لوگوں کی نیند حرام کی جا رہی ہے وہ بیچارے دن رات یہ سوچ رہے ہیں کہ اب کی بار نئی سرکار ان کا کچھ بھلا کرے گی لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے بلکہ وہ بیچارہ روتا ہی رہتا ہے چند دنوں کےلئے ملک کا ووٹر واقعی ایک طاقت کے طور پر آزاد ہے وہ جس کو چاہے اپنے ووٹ کے ذریعے نئی سرکار کےلئے متنخب کر سکتا ہے اس طرح اپنی تقدیر بنا بھی ستکا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے اس لئے لازمی ہے کہ ہر ووٹر اس بات کا خیال رکھے کہ وہ ووٹ ڈالتے وقت نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے سوچے کہ اس کی حکمرانی کےلئے کون بہتر نمائندہ ہے وہ پارٹیوں کی جانب اجراءکردہ منشور پر بھروسہ نہ کرے بلکہ سیاسی لیڈر کے معیار زندگی کو پرکھ لے کہ اسکا ماضی کیا رہا ہے اس نے کتنا جھوٹ بولا ہے ۔ لوگوں کا کام کتنا کیا ہے ، لوگوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے کیونکہ آپ کے ووٹ کی قیمت بہت بھاری ہے اس کی بدولت سیاستدان زیرو سے ہیرو بن سکتا ہے ۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published.