سڑکوں پر چلنے کی پابندی محبوبہ مفتی کی بدحکمرانی کی دین :عمر عبداللہ

سڑکوں پر چلنے کی پابندی محبوبہ مفتی کی بدحکمرانی کی دین :عمر عبداللہ

رفیع آباد::پی ڈی پی اور بھاجپا کی 4سالہ شراکت داری میں ریاست کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا، اس حد تک اس ریاست کا بیڑا غرق کیا گیا کہ ہمیں اپنی سڑکوں پر چلنے کی بھی اجازت نہیں، اب بارہمولہ سے اُدھمپور تک شاہراہ ہفتے میں دو دن عام لوگوں کے چلنے پر پابندی ہوگی، یہ سب کچھ محبوبہ جی کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔

ان باتوں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے رفیع آباد بارہمولہ میں چناﺅ ی مہم کے دوران ورکرس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، نامزداُمیدوار ایڈکیٹ محمد اکبر لون، سابق ایم پی شریف الدین شارق، ضلع صدر جاوید احمد ڈار، شمی اوبرائے، غلام حسن راہی، جنک سنگھ سوڑھی، ایڈوکیٹ نیلوفر مسعود بھی موجود تھیں۔

عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”مشکل سے ہم نے اس ریاست کو 2014میں ایک مقام پر پہنچایا تھا ، جہاں امن و امان ، خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ تھا لیکن 2015میں پی ڈی پی اور بھاجپا کے ملن نے سب کچھ تباہ کردیا، جو ایک نہ مٹنے والی حقیقت ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 2014میں بے تحاشہ گرفتاریاں اور پبلک سیفٹی ایکٹ نہیں لگایا جارہا تھا، NIAکی سختیاں اور نوجوانوں اور مذہبی رہنماﺅں کی تنگ طلبی نہیں کی جارہی تھی، اُس وقت جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی، 2014سے پہلے شاہراہ بند نہیں تھی، کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی، حالات بالکل ٹھیک تھے اور ہم ان عوام کش اقدامات کی اجازت بھی نہیں دیتے۔یہ سب کچھ محبوبہ مفتی جی کی مہربانی ہے کہ ہمیں آج اپنی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں۔“

ہفتے میں دو دن شاہراہ پر عام لوگوں کے چلنے کی پابندی کو تغلکی فرمان قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ حکمنامہ جاری کرنے سے پہلے کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کی یہاں کے مریض ہسپتال کیسے جائیں گے، یہاں کے ملازم دفتر کہاں سے جائینگے، یہاں کے بچے کن راستوں سے سکول جائینگے؟ عام لوگ اپنا رعبور و مرور کیسے کریں گے؟ کیا مودی جی یہاں ہیلی کاپٹر بھیجیں گے؟اسی لئے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ان عناصر کو مسترد کریں جن کی بدولت آج ہم اپنی سڑکوں کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ ”اس ریاست کو اس دلدل سے نکالنے کیلئے آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں لوگوں کو صحیح فیصلہ کرنا ہوگا، مجھے یاد رہے کہ 2008میں میں مجھے اور محبوبہ مفتی کو پارلیمنٹ میں ریاست پر بات کرنے کیلئے کہا گیا، 5منٹ میں مجھ سے جتنا ہوسکا میں نے کہہ دیا لیکن جب سپیکر نے محبوبہ مفتی کو کشمیر پر بات کرنے کیلئے کہا تو موصوفہ نے کہا ”میں کیا بولوں یار“ اور بیٹھ گئیں۔ کیا ہمیں ایسے نمائندے چاہئے جو وہاں خاموش رہیں؟ہم نے پی ڈی پی کے اُس نمائندے کو بھی دیکھا جسے بارہمولہ کے لوگوں نے ووٹ دیئے اور اُس نے پارلیمنٹ میں جاکر مودی سے کہا کہ کشمیر کا نوجوان محض دو جوڑے کرتے پجامے کیلئے بندوق اُٹھاتا ہے اور اپنی جان قربان کرتا ہے۔چاپلوسی، اقتدار پرستی اور موقعہ پرستی کی اس سے زیادہ اور کیا حد ہوسکتی ہے۔میں دعوے کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب اکبر لون صاحب پارلیمنٹ جائیں گے تو کشمیریوں کی بات کرینگے اور مودی بھی خاموش سے اُن کو سنیں گے“۔

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے این سی نائب صدر نے کہا کہ ”محبوبہ جی آج کہتی ہیں کہ وہ دفعہ370پر آواز اُٹھائیں گی، جب مودی نے اُن کے والد مرحوم مفتی محمد سعید کی سرینگر کے عوامی جلسے میں بے عزتی کی تو موصوفہ نے اُس وقت خاموش رہیں تو دفعہ370پر کیا آواز اُٹھائیں گی۔جب یہاں آپریشن آل آﺅٹ شروع محبوبہ مفتی خاموش رہی، جب نئے سرے سے کریک ڈاﺅنوں کا سلسلہ شروع ہوا وہ خاموش رہیں، جب 35اے کیخلاف سپریم کورٹ مین کیس ہوا وہ خاموش رہیں، بھاجپا خصوصی پوزیشن کی دھجیاں اُڑا رہے تھے موصوفہ خاموش رہیں، آر ایس ایس والے ہتھیار بند ریلیاں نکال رہے تھے محبوبہ مفتی خاموش بیٹھی، بیروہ کے فاروق ڈار کو فوج کی جیپ کیساتھ باندھ کر درجن بھر دیہات میں گھمایا گیا اُس وقت بھی محبوبہ مفتی خاموش رہیں،آج ہم کیسے اُمید کرسکتے ہیں کہ محبوبہ مفتی کشمیریوں کے حق میں آواز اُٹھائیں گی“۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ محبوبہ مفتی اُس وقت بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی جب یہاں کے نوجوانوں نے ازسرنو بندوقیں اُٹھانا شروع کیا اور اُس وقت بھی آواز بلند نہیں کی جب مرکز نے ریاست کیساتھ سیاسی بات چیت کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم کہتے آئے ہیں جموں وکشمیر بندوق کا مسئلہ نہیں، یہ پیسے کا مسئلہ نہیں، یہ نوکری یا روزگار کا مسئلہ نہیں، یہ ترقی اور ترقیاتی کاموں کا مسئلہ ، جموںوکشمیر کا بنیادی مسئلہ سیاسی ہے اور بندوق کی نوک سے اس کی ہیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سیاسی مسئلے کا حل یہاں کے لوگوں کیخلاف سازشیں کرنے سے نہیں ہوگا، سیاسی مسئلہ حل ہوتا ہے تو بات چیت کے ذریعے ہوتا ہے۔نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کے دوران حزب المجاہدین کیساتھ بات ہوئی اور حریت کیساتھ بھی بات ہوئی کیونکہ ہم نے ہمیشہ بات چیت کو ہی ترجیح دی اور مرکز کو بھی قائل کیا“۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.