جمعرات, ستمبر ۱۱, ۲۰۲۵
17 C
Srinagar
ہوم بلاگ صفحہ 1809

چند قرآنی اصطلاحات کی تعبیر کا معاملہ

مفتی سیّد سیاح الدین کاکاخیل

سوال: ہمارے ہاں بعض علما، مولانا مودودی صاحب پر اعتراض کرتے ہیں کہ    وہ قرآنِ مجید کے بعض الفاظ کے ایسے معانی بیان کرتے ہیں جو عام طور پر بیان نہیں کیے جاتے، چنانچہ وہ اس چیز کو مولانا کی مخالفت کا جواز بناتے ہیں۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں لفظ ’طاغوت‘ آیا ہے مفسرین نے تو اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد شیطان ہے، مگر مولانا مودودی، انسانوں پر  اس کا اطلاق کرتے ہیں اور اسٹالن، لینن، چرچل وغیرہ جیسے غیرمسلم لیڈروں کو بھی ’طاغوت‘ کہتے ہیں۔ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی، غلامی اور کسی کو سجدہ کرنا، اور مودودی صاحب کسی دوسرے انسانی قانون کی اطاعت و فرماں برداری کو بھی عبادت  کہتے ہیں، اور لا اِلٰہ اِلَّا اللہ میں اِلٰہ کے معنی ’حاکم‘ کرتے ہیں اور یوں لکھتے ہیں کہ اس کلمۂ طیبہ کا مطلب ہے لَاحَاکِمَ اِلَّا اللہُ، حالاں کہ کسی نے بھی اِلٰہ کا ترجمہ حاکم نہیں کیا۔ مولوی صاحبان کی ان تقاریر سے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور مولانا مودودی کے مخالف ہوکر اسلامی دعوت کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ ہماری رہنمائی کیجیے کہ کیا   یہ اعتراضات واقعہ میں صحیح ہیں، اور یہ مولانا صاحب کا قرآنی الفاظ کے معانی کو بدلنا ہے یا وہ کسی دلیل سے یہ لکھتے ہیں؟
جواب: بہتر تو یہ ہوتا کہ آپ خود مولانا مودودی صاحب سے پوچھتے کہ آپ کن دلائل اور کن کتابوں کے حوالے سے ’طاغوت‘، ’عبادت‘ اور اِلٰہ کے یہ معنی کرتے ہیں۔ یقینا وہ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دے کر آپ کو مطمئن کرتے، مگر اعتراض کرنے والے علما کا اطمینان پھر بھی نہ ہوتا، کیوںکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ حضرات مولانا مودودی صاحب کی مخالفت کچھ اور وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں۔ چند مسائل کو یا اس قسم کے سطحی اعتراضات کو تو محض بہانہ بنایا اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ہماری مخالفت دینی بنیادوں پر ہے۔ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے، تو اگرچہ     مولانا مودودی صاحب کی عبارات اور ان کی تحقیقات پر اعتراضات کی جواب دہی میری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہمارے ’کرم فرما‘ جو اعتراض کریں اور میں مدافعت کے لیے اُٹھ کھڑا ہوں۔ لیکن جب قرآنی اصطلاحات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے اور آپ درحقیقت مجھے ایک ثالث  سمجھ کر یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں: مذکورہ چند علما اور مولانا مودودی دونوں سے قطع نظر میں آپ کو صحیح بات اپنے علم و فہم کے مطابق بتا دوں تو اب شرعاً میری ذمہ داری ہوگی کہ آپ کو اس کا جواب اس طرح دوں کہ کسی فریق کی حمایت کے جذبے کے بغیر اپنے علم و مطالعے کی بنا پر اس سے حق واضح ہوجائے۔
اس وقت: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلِمٍ فَکَتَمَہُ أَلْجَمَہُ بِلِجَامٍ مِّنْ نَارِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ     (ابی داؤد:  ۳۶۵۸) ’’جس سے کسی معلومات کے بارے میں پوچھا گیا اور اس نے وہ معلومات چھپائیں، اس کو آگ کا لگام پہنایاجائے گا‘‘، حدیث نبویؐ میرے سامنے آگئی ہے۔ میں مولوی صاحبان کی رعایت کرکے یاا ُن کی ناراضی سے ڈر کر اپنے علم کو چھپائوں اور سوال کا صحیح جواب نہ دوں تو  لِجَامٍ مِّنْ  نَارِ کی وعید سامنے آتی ہے، لہٰذا جواب عرض کر رہا ہوں۔

طاغوت کا مفہوم
سورئہ بقرہ میں فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ(۲:۲۶۵) کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابوالثناء شہاب الدین آلوسیؒ [۱۰دسمبر ۱۸۰۲ء-۲۹ جولائی ۱۸۵۴ء]نے روح المعانی میں لکھا ہے:
اَلطَّاغُوْتُ اَلشَّيْطَانُ وَهُوَ الْمَرْوِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ – وَبِهٖ قَالَ مُجَاهِدٌ، وَقَتَادَةُ  وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعِكْرِمَةَ أَنَّهٗ الْكَاهِنُ، وَعَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ أَنَّهٗ السَّاحِرُ، وَعَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ كُلُّ مَا عُبِدَ مِنْ دُوْنِ اللهِ تَعَالٰى وَعَنْ بَعْضِهِمْ الْأَصْنَامُ، وَالْأَوْلٰى أَنْ يُّقَالَ بِعُمُوْمِهٖ سَائِرُ مَا يَطْغٰى، وَيُجْعَلُ الْاِقْتِصَارُ عَلٰى بَعْضٍ فِيْ تِلْكَ الْأَقْوَالِ مِنْ بَابِ التَّمْثِيْلِ وَهُوَ نَبَاءٌ مُبَالَغَةً كَالْجَبَرُوْتِ وَاخْتُلِفَ فِيْهِ فَقِيْلَ  هُوَ مَصْدَرٌ فِي الْأَصْلِ وَلِذٰلِكَ يُوَحَّدٌ وَيُذَكَّرُ كَسَائِرِ الْمَصَادِرِ الْوَاقِعَةِ عَلَى الْأَعْيَانِ وَ اِلٰى ذٰلِكَ ذَهَبَ الْفَارِسِيُّ- وَقِيْلَ: هُوَ اِسْمُ جِنْسٍ مُفْرَدٌ فَلِذٰلِكَ لَزِمَ اِلَيْهِ ذَهَبَ سَيْبَويْه  وَقِيْلَ: هُوَ جَمْعٌ  وَهُوَ مَذْهَبُ الْمُبَرَّدِ   وَقَدْ يُؤَنَّثُ ضَمِيْرُهٗ كَمَا فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰى: وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوْهَا [الزمر۳۹:۱۷] وَهُوَ تَأنِيْثٌ اِعْتِبَارِيٌّ وَ اِشْتِقَاقُهٗ  مِنْ طَغٰى يَطْغٰى أَوْ طَغٰى يَطْغُوْ  وَمَصْدَرُ الْأَوَّلِ الطُّغْيَانُ. وَالثَّانِيْ الطُّغْوَانُ ، وَأَصْلُهٗ عَلَى الْأَوَّلِ طَغْيُوْتٌ، وَعَلَى الثَّانِيْ  طَغْوُوْتٌ فَقُدِّمَتِ اللَّامُ وَأُخِّرَتِ الْعَيْنُ فَتَحَرَّكَ حَرْفُ الْعِلَّةِ وَالْفَتْحُ مَا قَبْلَهٗ فَقُلِّبَ اَلِفًافَوَزْنُهٗ مِنْ قَبَلُ فَعْلَوُوْتٌ وَالْآنَ فَلْعُوْتٌ (روح المعانی، ج۳،ص ۱۳)
[’ طاغوت‘ سے مراد شیطان ہے۔ یہ بات حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ سے روایت کی گئی ہے۔ مجاہدؒ، اور قتادہؒ نے بھی یہی بات کی ہے۔ سعید بن جبیرؒ اور عکرمہؒ سے منقول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے۔ ابو العالیۃ سے منقول ہے کہ اس سے مراد جادوگر ہے۔ امام مالکؒ سے منقول ہے کہ ہر وہ ذات جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ بعض سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد بُت ہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ   تمام اشیا ’طاغوت‘ ہیں جو طغیان (یعنی سرکشی) کرتی ہیں۔ ان اقوال میں سے کسی ایک قول پر اکتفا کرنے کو تمثیل کے باب سے قرار دیا جاسکتا ہے۔یہ لفظ (طاغوت) مبالغہ کے لیے آتا ہے، جیسے جبروت۔
[اس لفظ کی اصل لغوی حقیقت میں اختلاف ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مصدر ہے۔اسی وجہ سے اس کو واحد مذکر قرا ردیا جاتا ہے، جیسا کہ متعین چیزوں کے لیے باقی مصادر ہیں۔ یہی راے فارسی کی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ اسم جنس مفرد ہے، اسی وجہ سے یہ لازم ہے۔ یہ راے سیبویہ کی ہے۔ یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ جمع ہے۔ یہ [ابوالعباس محمد، المعروف] مبرَّد کا مذہب ہے۔ بعض اوقات اس کے لیے مؤنث کی ضمیر بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر۳۹: ۱۷)، [بخلاف اس کے  جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوش خبری ہے] یا یہ اعتباری تانیث ہے۔ یہ لفظ طَغٰی یَطغٰی یا طَغٰی  یَطغُوا سے نکلا ہے۔ پہلے کا مصدر طُغْیَانْ اور دوسرے طغوان ہے۔ پہلی صورت میں اس لفظ کی اصل شکل طغیوت ہوگی اور دوسری صورت میں طغووت۔ لام کلمہ کو مقدم اور عین کلمہ کو مؤخر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حرف علت متحرک ہوگیا ہے۔ اور اس سے پہلے جو زَبر تھا وہ الف میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کا وزن پہلے فعلووت تھا اور اب فلعوت ہے۔]
مزید اَوْلِیَآءُ ھُمُ الطَّاغُوْت کے ذیل میں لکھا ہے:
اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ (ایضاً، ص۱۴) [ یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں]۔
مزید لکھتے ہیں:
صَارَ  اِسْمًا لِّمَا یُعْبَدُ مِن دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی  (ایضاً) [یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے]۔
روح المعانی میں دوسری جگہ: وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَـابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الزمر ۳۹:۱۷) کی تفسیر میں علامہ آلوسیؒ تحریر فرماتے ہیں:
وَالطَّاغُوْتُ فَعْلُوْتٌ مِنَ الطُّغْیَانِ کَمَا قَالُوْا لَا فَاعُوْلٌ کَمَا قِیْلَ بِتَقْدِیْمِ اللَّامِ عَلَی الْعَیْنِ نَحْوَ صَاعِقَۃٌ وَصَاقِعَۃٌ وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ الْاِشْتِقَاقِ وَاِنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ وَاَصْلُہٗ طَغْیُوْتٌ اَوْ طَغْوُوْتٌ مِنَ الْیَاءِ اَوِ الْوَاوِ لِاَنَّ طَغٰی یَطْغٰی وَیَطْغُوْ کِلَاھُمَا ثَابِتَانِ فِی الْعَرَبِیَّۃِ نَقَلَہُ الْجَوْھَرِیُّ وَنُقِلَ اَنَّ الطُّغْیَانَ وَالطُّغْوَانِ بِمَعْنًی وَکَذَا الرَّاغِبُ وَجَمْعُہٗ عَلَی الطَّواغِیْتِ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ الْجَمْعَ بُنِیَ عَلَی الْوَاوِ   وَقَوْلُھُمْ  مِنَ الطُّغْیَانِ لَا یَرُدُّوْنَ بِہٖ خُصُوْصَ الْیَاءِ بَلْ اَرَادُوْا الْمَعْنَی وَھُوَ عَلٰی مَا فِی الصِّحَاحِ الْکَاھِنُ وَالشَّیْطَانُ وَکُلُّ رَأْسٍ فِی الضَّلَالِ وَقَالَ الرَّاغِبُ ھُوَ عِبَارَۃٌ عَنْ مُتَعَدٍّ وَکُلِّ مَعْبُوْدٍ مِن دُوْنِ اللہِ  تَعَالٰی وَسَمّٰی بِہِ السَّاحِرَ وَالْکَاھِنَ وَالْمَارِدَ مِنَ الْجِنِّ وَالصَّارِفَ عَنِ الْخَیْرِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْوَاحِدِ وَالْجَمْعِ وَقَالَ الزَّمَخْشَرِیُّ فِی ھٰذِہِ السُّوْرَۃِ  لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ الشَّیْطَانِ وَذُکِرَ اَنَّ فِیْہِ مُبَالَغَاتٌ مِنْ حَیْثُ الْبِنَاءِ فَاِنَّ صِیْغَۃَ فَعْلُوْت لِلْمُبَالَغَۃِ وَلِذَا قَالُوْا الرَّحْمُوْتُ الرَّحْمَۃُ الْوَاسِعَۃُ وَمِنْ حَیْثُ التَّسْمِیَۃِ  بِالْمَصْدَرِ وَقَدْ  اَطْلَقَہٗ  فِیْ سُوْرَۃِ النِّسَاءِ عَلٰی کَعْبِ بْنِ الْاَشْرَفِ وَقَالَ سَمَّی طَاغُوْتًا لِاِفْرَاطِہٖ فِی الطُّغْیَانِ وَعَدَاوَۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوْ عَلٰی التَّشْبِیْہِ بِالشَّیْطَانِ فَلَعَلَّہٗ اَرَادَ  لَا یُطْلَقُ عَلٰی غَیْرِ  الشَّیْطَانِ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ   وَجَعَلَ کَعْبًا عَلَی الْاَوَّلِ مِنَ الْوَجْھَیْنِ مِنْ شَیَاطِیْنِ الْاِنْسِ وَفِی الْکَشْفِ کَاَنَّہٗ لَمَّا رَاٰہُ مَصْدَرًا فِی الْاَصْلِ مَنْقُوْلًا اِلَی الْعَیْنِ کَثِیْرَ الْاِسْتِعْمَالِ فِی الشَّیَاطِیْنِ حَکَمَ بِاَنَّہٗ حَقِیْقَۃٌ فِیْہِ بَعْدَ النَّقْلِ مَجَازٌ فِی الْبَاقِیْ لِظُھُوْرِ الْعَلَاقَۃِ  اِمَّا اِسْتِعَارَۃً  وَاِمَّا نَظَرًا اِلٰی تَنَاسُبِ الْمَعْنَی وَالَّذِیْ یَغْلِبُ عَلَی الظَّنِّ اَنَّ الطَّاغُوْتَ فِی الْاَصْلِ مَصْدَرٌ نُقِلَ اِلَی الْبَالِغ الْغَایَۃَ فِی الطُّغْیَانِ وَتَجَاوُزِ الْحَدِّ وَ اِسْتِعْمَالُہٗ فِیْ فَرْدٍ مِنْ ھٰذَا الْمَفْھُوْمِ الْعَامِّ شَیْطَانًـا کَانَ اَوْ غَیْرُہٗ یَکُوْنُ حَقِیْقَۃً وَیَکُوْنُ مَجَازًا عَلٰی مَا قَدَّرُوْا فِی اِسْتِعْمَالِ الْعَامِّ فِیْ فَرْدٍ  مِنْ اَفْرَادِہٖ کَاسْتِعْمَالِ الْاِنْسَانِ فِیْ زَیْدٍ وَشُیُوْعُہٗ فِی الشَّیْطَانِ لَیْسَ اِلَّا لِکَوْنِہٖ رَأْسَ الطَّاغِیْنَ وَفَسَّرَہٗ ھُنَا مُجَاہِدٌ وَیَجُوْزُ تَفْسِیْرُہٗ بِالشَّیَاطِیْنِ جَمْعًا عَلٰی مَا سَمِعْتُ مِنَ الرَّاغِبِ وَیُؤَیِّدُہٗ
قِرَاءۃُ الْحَسَنِ اِجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اِنْتَھٰی (روح المعانی، پ۲۳، سورئہ زمر، ص۲۲۸)
[طاغوت بوزنِ فعلوت طغیان سے نکلا ہے، جیسا کہ ماہرین لغت کہتے ہیں۔ یہ فاعول کے وزن پر نہیں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ لام کلمہ عین کلمے پر مقدم ہوگیا ہے، جیسے: صَاعِقَۃٌ اور صَاقِعَۃٌ۔ اسی بات پر یہ اشتقاق دلالت کرتا ہے کہ وَاَنْ طَوَّغَ وَطِیْغَ یَھْدِیْنِ۔ اس کی اصل طَغْیُوْتُ یا طَغْوُوْت ہے، یعنی یاء یا واو کے ساتھ۔اس لیے کہ طغی یطغٰی  اور طغٰی یطغوا دونوں عربی میں ثابت ہیں۔ اس کو علامہ جوہری نے نقل کیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ طُغْیَان   اور طُغْوَان دونوں ایک ہی معنی میں ہیں۔ اسی طرح امام راغب نے بھی نقل کیا ہے۔اس کی جمع طواغیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی جمع واو پر مبنی ہے۔ اور ماہرین لغت کا یہ کہنا کہ یہ طغیان سے ہے، اس سے ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس میں یاء کی خصوصیت ہے، بلکہ ان کی مراد معنی ہے اور وہ جیسا کہ الصحاح میں آیا ہے کاہن یا شیطان ہے، یا وہ ہرشخص جو گمراہی کا سرغنہ ہو۔ راغب کہتے ہیں کہ یہ لفظ ہر سرکشی کرنے والے پر بولا جاسکتا ہے۔ نیز ہر اس معبود پر جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔ چنانچہ جادوگر، کاہن، سرکش شیطان اور بھلائی سے پھیرنے والے پر اس کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا استعمال واحد اور جمع دونوں کے لیے ہوتا ہے۔ زمخشری کہتے ہیں کہ اس سورت میں اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اس نے ذکر کیا ہے کہ بناوٹ کے لحاظ سے اس میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ فَعْلُوْت  کا لفظ مبالغہ کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے کہاجاتا ہے کہ اَلرَّحْمُوْت  سے مراد وسیع رحمت ہے۔ مصدر کے تسمیہ کی حیثیت سے سورۃ النساء میں اس لفظ کا اطلاق کعب بن اشرف (یہودی) پر کیا گیا ہے۔ کہا کہ اس کو طاغوت اس بنا پر کہا گیا ہے کہ طغیان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی میں حد سے بڑھا ہوا تھا، یا اس وجہ سے کہ اس کو شیطان سے تشبیہ دی گئی ہے۔شاید (زمخشری) کی مراد یہ ہو کہ حقیقت کے لحاظ سے اس کا اطلاق شیطان کے علاوہ کسی پر نہیں ہوگا۔ اور کعب کو پہلی وجہ کے لحاظ سے شیاطین الانس میں شامل کرلیا ہے۔ اور کشف میں یہ بھی ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ اصل میں تو یہ لفظ مصدر ہے اور پھر اس کو متعین اشیا کی طرف نقل کیا گیا ہے اور یہ شیاطین میں کثیر الاستعمال ہے، تو انھوں نے اس پر یہ حکم لگادیا کہ یہ اسی معنی میں حقیقت ہے اور باقی معانی میں مجاز ہے۔ اس لیے کہ دونوں کے درمیان تعلق ظاہر ہے، کہ یا تو یہ استعارہ ہے اور یا یہ کہ دونوں معانی میں مناسبت پائی جاتی ہے۔
غالب گمان یہ ہے کہ ’طاغوت‘ اصل میں مصدر ہے مگر مصدریت سے منتقل ہوکر یہ اس ذات کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو سرکشی میں مبالغے کی حدتک پہنچی ہوئی ہو اور اس نے سارے حدود کو پار کیا ہو۔اب اس مفہوم کے کسی فرد میں اس کا استعمال حقیقت ہی ہوگا، چاہے وہ فرد شیطان ہو یا اس کے علاوہ کوئی ہو۔یہ مجاز اس صورت میں ہوگا جب لفظ عام کو اس کے کسی فرد کے بارے میں استعمال کیا جائے گا، جیسے لفظ انسان کا استعمال زید کے بارے میں۔ اس لفظ کا شیطان کے معنی میں شہرت پانا اس وجہ سے ہے کہ وہ سرکشوں کا سردار ہے۔یہاں مجاہد نے اس کی تفسیر اسی مفہوم میں کی ہے۔ اس کی تفسیر شیاطین کے لفظ جمع کے مطابق بھی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ میں نے راغب سے سنا ہے۔اس کی تائید حسن کی قراء ت سے بھی ہوتی ہے جو یہ ہے کہ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ۔ (روح المعانی، پارہ ۲۳، سورہ زمر، ص۲۲۸)]
روح المعانی میں اس طرح ہے:
اَیِ الشَّیَاطِیْنُ اَوِ الْاَصْنَامُ اَوْ سَائِرُ الْمُضِلِّیْنَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ… وَصَحَّ جَمْعُہٗ عَلَی الْقَوْلِ بِاَنَّہٗ مَصْدَرٌ لِاَنَّہٗ صَارَ اِسْمًا لِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ تَعَالٰی (ج۳، ص۱۴) [یعنی شیطان یا بت یا وہ سارے لوگ جو حق کے راستے سے گمراہ کرنے والے ہیں۔ یہ نام بن گیا ہر اس چیز کا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے۔]
گویا طاغوت سے مراد مَنْ یَّطَاعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ ہے۔ آپ تفسیر روح المعانی کی    یہ عبارات ان مولوی صاحبان کو دکھا دیجیے اورخاص طور سے خط کشیدہ الفاظ کی طرف متوجہ کیجیے اور کعب بن الاشرف کو تو تمام مفسرین نے بالاتفاق سورئہ نساء کی آیت میں طاغوت کا مصداق قرار دیا ہے۔ دراصل طاغوت کے معنی تو کثیر الطغیان ہے، یعنی ایسا شخص جو اللہ کا باغی ہو، سرکش ہو اور   اللہ کے نظام و قانون کے مقابلے میں اللہ کے بندوں پر اپنا نظام اور خود ساختہ قانون چلانا چاہتا ہو۔ لہٰذا اس معنی کے اعتبار سے لینن، اسٹالن، چرچل اور جانسن کو اگر مولانا مودودی نے طاغوت کہا ہے، تو کون سی غلطی کی یا قرآنِ مجید کے الفاظ کی کون سی غلط تاویل و توجیہ کی؟ کچھ تو ہمارے اِن مولوی صاحبان کو بلاوجہ مولانا مودودی کی مخالفت کا شوق ہوتا ہے اور کچھ اُن میں سے بعض کا علم بالکل محدود ہوتا ہے۔ جلالین شریف کے سوا کسی اور تفسیر کا وہ مطالعہ ہی نہیں کرتے۔ کم علمی اور مخالفت کا جذبہ دونوں مل کر ایسے گُل کھلاتے رہتے ہیں۔
تفسیر کبیر میں امام فخرالدین رازیؒ [۱۰۴۹ء، رے – ۱۱۰۹ء، ہرات]نے سورئہ نساء کی آیت (۷۶): وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِکی تفسیر میں لکھا ہے:
وَهٰذِهِ الْآيَةُ كَالدَّلَالَةِ عَلٰى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ غَرَضُهُ فِي فِعْلِهِ رِضَا غَيْرِ اللَّه فَهُوَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ، لِأَنَّهُ تَعَالَى لَمَّا ذَكَرَ هَذِهِ الْقِسْمَةَ وَهِيَ أَنَّ الْقِتَالَ إِمَّا أَنْ يَكُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ : أَوْ فِي سَبِيْلِ  الطَّاغُوتِ وَجَبَ أَنْ يَكُونَ مَا سِوَى اللهِ طَاغُوتًا…(تفسیر کبیر، ج۳،ص ۲۶۴) [یہ آیت گویا دلالت کرتی ہے اس بات پر، کہ ہر وہ شخص جس کا اپنے کسی فعل سے مقصود اللہ کے سوا کسی اور کی رضا ہو تو وہ ’طاغوت‘ کے راستے میں ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ تقسیم بیان کی (اور وہ یہ کہ جنگ یا تو اللہ کے راستے میں ہوگی اور یا پھر ’طاغوت‘ کے راستے میں ) تو یہ بات لازمی ہوگئی کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہوگا، وہ ’طاغوت‘ ہوگا۔ ]

عبادت کا جامع تصور
دوسرا سوال آپ نے یہ کیا ہے کہ مولانا مودودی صاحب احکام و قوانین کی اطاعت کو عبادت کہتے ہیں اور یہ لفظ عبادت کی غلط تفسیر ہے۔
اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ عبادت کے معنی تو ہیں بندگی اور غلامی۔ اس صورت میں اگر کسی آقا کے احکام و قوانین کی اطاعت و فرماں برداری اگر بندگی اور غلامی نہیں ہے، تو بندگی اور غلامی اور کیا ہوتی ہے؟ یہ بات صحیح ہے کہ کبھی کسی قانون کی اطاعت خوش دلی کے ساتھ نہیں ہوتی۔ عقیدتاً کسی کو آقا اور قانون چلانے کا حق دار تسلیم نہیں کرتا، مگر کچھ ایسی مجبوریاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں کہ بادلِ نخواستہ وہ حکم مان لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ کسی حقیقی حاکم و قانون ساز کا حکم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تو اطاعت ِ قانون کو عبادت نہیں کہا جائے گا، لیکن اگر کسی کو قانون سازی کا  حق دار مان لیا جائے اور خوش دلی کے ساتھ اس کے حکم کی تعمیل و اطاعت کی جاتی ہو اور عقیدہ یہ ہو کہ یہ حکم برحق اور آقا کی طرف سے ہے تو وہ یقینا عبادت ہے۔ (دیکھیے قرآنِ مجید میں جہاں ذکر ہے):
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدہ ۵:۴۴) [جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں] ۔ اور دوسری جگہ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ  میں عام طور سے مفسرین یہی فرق کرتے ہیں کہ مَا اَنْزَلَ اللہ کے خلاف فیصلہ اگر اس نظریے کے ساتھ کوئی کر رہا ہے کہ مَا اَنْزَلَ اللہ   کے خلاف حکم کو عقیدتاً برحق سمجھ کر فیصلہ دے رہا ہے تو یہ کفر ہے اور وہ شخص کافر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر مَا اَنْزَلَ اللہ  کے خلاف کو عقیدتاً غلط سمجھ رہا ہے، اللہ کے سوا کسی دوسرے کو قانون سازی کا حق نہیں دیتا، مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، تو یہ فسق ہے اور ایسا فیصلہ کرنے والا فاسق ہے۔
حضرات علماے دیوبند کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں بھی یہ ذکر ملتا ہے کہ انھوں نے احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلقاً عبادت کہا ہے اور لکھا ہے کہ عبادت درحقیقت آقا کے احکام کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے، یعنی جیسے آقا حکم دے ویسے عمل کرنا یہ آقا کی عبادت ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنا عبادت ہے، کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو حقیقی حاکم اور آقا ہے، اس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور جب شوال کا چاند نظر آجائے تو یکم شوال کو روزہ رکھنا اللہ کی نافرمانی ہے اور روزہ نہ رکھنا اور کھانا پینا عبادت ہے، کیوں کہ عید کے دن کے لیے آقا کا حکم یہی ہے۔
میں یہاں بھی امام فخرالدین رازی ؒ کی چند عبارتیں نقل کر رہا ہوں، جن سے یہ معلوم ہوگا کہ انھوں نے قرآنِ مجید کے الفاظ عَابِدُوْن کی تفسیر مُطِیْعُوْنَ سے کی ہے:
وَقَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ [المومنون ۲۳:۳] اَیْ خَادِمُوْنَ مُنْقَادُوْنَ لَنَا کَالْعَبِیْدِ [ابو السعود، ج۷، ص ۱۶۰] وَفِی التَّفْسِیْرِ الْکَبِیْرِ أَنَّ قَوْمَ مُوسٰى وَهَارُوْنَ كَانُوا كَالْخَدَمِ وَالْعَبِيدِ لَهُمْ قَالَ اَبُو عُبَيْدَةَ الْعَرَبُ تُسَمِّي كُلَّ مَنْ دَانَ لِمَلِكٍ عَابِدًا لَهُ وَيُحْتَمَلُ اَنْ يُقَالَ اَنَّهُ كَانَ يَدَّعِي الْإِلٰهِيَّةَ فَادَّعَى اَنَّ النَّاسَ عِبَادُهُ وَأَنَّ طَاعَتَهُمْ لَهُ عِبَادَةٌ عَلَى الْحَقِيقَةِ (تفسیر کبیر،ج۶، ص ۱۹۷) اور ان کی قوم ہماری عبادت گزار ہوگی (المومنون ۲۳:۳)، [یعنی ہماری خدمت گزار اور ہمارے آگے جھکنے والی، جیسا کہ غلام ہوتے ہیں (ابو السعود، ج۷، ص۱۶۰)۔ اور تفسیرکبیر میں ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی قوم فرعونیوں کے لیے نوکروں اور غلاموں کی طرح تھی۔ ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ عرب ہر اس شخص کو ’عبادت گزار‘ کہتے ہیں جو کسی بادشاہ کے آگے جھک جائے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا، اس لیے اس نے دعویٰ کیا کہ انسان اس کے بندے ہیں اور میری پیروی ان کے لیے عبادت ہے۔ (تفسیر کبیر، ج۶، ص۱۹۷)]
قوله تعالٰى: وَعَبدَ الطَّاغُوتَ قِیْلَ الطَّاغُوتُ الْعِـجْلُ وَقِيلَ الطَّاغُوتُ الْأَحْبَارُ ، وَكُلُّ مَنْ اَطَاعَ اَحَدًا فِي مَعْصِيَةِ اللهِ فَقَدْ عَبَدَهٗ (تفسیر کبیر، ج۳، ص۴۲۵) [رہا اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ وعبد الطاغوت   تو اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’طاغوت‘ سے مراد بچھڑا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ یہاں ’طاغوت‘ سے مراد اُن کے علما ہیں۔ اس لیے کہ جو بھی کسی کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے تو در اصل اس نے اس کی عبادت کی۔ ]
چار عملی ارکانِ اسلام کو فقہا نے جو عبادت کہا ہے تو وہ محض ایک علمی اصطلاح کے طور پر کہا ہے کہ یہ عبادات ہیں اور یہ معاملات۔ اس کا مقصد حصر[بخل] نہیں تھا کہ ان ارکانِ اربعہ کے سوا اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے حکم کی اطاعت عبادت نہیں ہے۔ اگر اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ  اللہ تعالیٰ کا  حکم ہے اور اس کی تعمیل اور اس فرمانِ الٰہی کی اطاعت اگر عبادت ہے، تو اسی طرح قرآنِ مجید میں وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ  بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ (الرحمٰن ۵۵:۹)،بھی اللہ تعالیٰ کا ایک واجب التعمیل فرمان ہے۔ اگر ایک تاجر دکان میں بیٹھ کر خریدار کو سودا تولتے وقت پورا تول کر دینے اور ڈنڈی نہ مارنے کو حکمِ خداوندی سمجھ کر اس کی اطاعت کر رہا ہے تو یہ عبادت کیوں نہیں؟ اور اگر کسی نے اس کو عبادت کہا تو کون سا جرم کیا؟
اس پر تمام ان احکام کی اطاعت کو قیاس کیجیے جو معاملات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دیے ہیں۔ فقہاے کرام نے تو نکاح کو بھی عبادات میں شمار کیا ہے۔ اگرچہ نکاح غیرمسلم بھی کرتے ہیں، لیکن چوں کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم فَانْکِحُوا کی تعمیل میں عفت و عصمت کی خاطر کرتے ہیں اور اس طریقے پر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، اس لیے یہ عبادت ہے۔ اور اگر یہ نظریہ پیش نظر نہ ہو، غیرمسلموں کی طرح محض خواہشِ نفس کی بنا پر ہو، یا اللہ کے رسولؐ کے طریقوں کے خلاف ہو تو پھر وہ عبادت نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے یہ مولوی صاحبان تو جب سوتے ہیں تو اس کے لیے بھی کہتے ہیں کہ نَومُ الْعَالِمِ عِبَادَۃٌ ،یعنی عالم کا سونا بھی عبادت ہے اور کھانا پینا بھی کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں عبادت ہے، لیکن مولانا مودودی نے تمام احکامِ الٰہی کی اطاعت و فرماں برداری کو عبادت کہا تو اس پر کیا اعتراض کرنا ضروری ہے؟ اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا لازمی ہے؟

اِلٰـہ کے معنی
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ وہ اِلٰہ کے معنی حاکم کرتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنی تصانیف میں اِلٰہ کے معنی صرف حاکم نہیں کیے، بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ اِلٰہ جامع لفظ ہے۔ اس کے بہت سے معانی میں سے ایک معنی یہ بھی ہے کہ الٰہ سے مراد حاکم و قانون ساز ہو، اور جس طرح  دوسرے معانی کے اعتبار سے اللہ کے سوا اس کائنات میں کوئی اِلٰہ نہیں،اسی طرح اس کائنات میں ایک اللہ کے سوا دوسرا کوئی حاکم نہیں۔ نہ تکوینی حکم دینے والا، نہ تشریعی حکم دینے والا، اور یہ معنی  قرآنِ مجید کی آیت: اَلَالَہُ الْحُکْمُ [الانعام ۶:۶۲] اور اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ [الانعام ۶:۵۷]، اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ [اعراف ۷:۵۴] اور اسی مضمون کی دوسری بے شمار آیتوں سے ثابت ہے۔
اُمید ہے کہ ہمارے یہ مولوی صاحبان ،امام فخرالدین رازیؒ کو تو بہرحال مانتے ہوں گے اور اُن کی تفسیر تو ان کے ہاں قابلِ اعتماد ہوگی۔ اِلٰہ کے بارے میں امام رازیؒ کی چند عبارتیں نقل کرتا ہوں:
فِیْ تَفْسِیْرِ قَوْلِہٖ تَعَالٰی : مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ  (القصص) فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَيْسَ الْمُرَادُ مِنْهُ أَنَّـهُ كَانَ يَدَّعِيْ كَوْنَهٗ خَالِقًا لِلسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْبِحَارِ وَالْجِبَالِ وَخَالِقًا لِذَوَاتِ النَّاسِ وَصِفَاتِهِمْ، فَإِنَّ الْعِلْمَ بِامْتِنَاعِ ذٰلِكَ مِنْ أَوَائِلِ الْعُقُولِ فَالشَّكُّ فِيهِ يَقْتَضِي زَوَالَ الْعَقْلِ، بَلِ الْإِلَهُ هُوَ الْمَعْبُودُ فَالرَّجُلُ كَانَ يُنْفِي الصَّانِعَ وَيَقُولُ لَا تَكْلِيفَ عَلَى النَّاسِ إِلَّا أَنْ يُطِيعُوا مَلِكَهُمْ وَيَنْقَادُوا لِأَمْرِهِ، فَهٰذَا هُوَ الْمُرَادُ مِنْ ادِّعَائِهِ الْإِلٰهِيَّةَ لَا مَا ظَنَّهُ الْجُمْهُورُ مِنْ ادِّعَائِهِ كَوْنَهُ خَالِقًا لِلسَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا سِيَّمَا وَقَدْ دَلَّلْنَا فِي سُورَةِ طٰهٰ [۲۰:۴۹] فِي تَفْسِيرِ قوله: فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی عَلٰى أَنَّهُ كَانَ عَارِفًا بِاللهِ تَعَالٰى وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ ذٰلِكَ تَرْوِيجًا عَلَى الْاِغْمَارِ مِنَ النَّاسِ (تفسیر کبیر، ج۲، ص۴۴۲) [اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں کہ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ (القصص ۲۸:۳۸)، جان لو کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، سمندروں اور پہاڑوں کا خالق ہے اور وہ لوگوں کی ذات اور صفات کا خالق ہے۔ ان چیزوں کا غلط ہونا تو عقل کا ابتدائی درجہ ہے۔ ان چیزوں میں شک کرنا عقل کے زائل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں اِلٰـہ سے مراد معبود ہی ہے۔ اس لیے کہ کوئی شخص اس بات کی نفی کرسکتا تھا کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور وہ کسی قاعدے اور قانون کے پابند بھی نہیں ہیں، سواے اس کے کہ وہ اپنے بادشاہ کی بات مانیں اور اسی کے حکم کی پیروی کریں۔یہ ہے مطلب فرعون کے دعواے الوہیت کا، نہ کہ وہ جس کا گمان جمہور مفسرین کو ہوا ہے کہ فرعون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ خصوصاً، جب کہ ہم نے سورۂ طٰہٰ میں فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی کی تفسیر میں اس بات پر دلائل دیے ہیں کہ فرعون اللہ تعالیٰ کے بارے میں جانتا تھا۔]
گویا فرعون کے ہاں اپنے آپ کو اِلٰہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جس کے حکم کی اطاعت کی جائے اور جس کے قانون کو تسلیم کر کے اس کی پابندی کی جائے۔ اس معنی میں صرف مَیں اِلٰہ  ہوں، دوسرا کوئی اِلٰہ  نہیں ہے کیوں کہ میں مُلکِ مصر کا بادشاہ اور حکمران ہوں۔
اور سورئہ طٰہٰ کی آیت فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوسٰی کی تفسیر میں لکھا ہے:
اِنَّ فِرْعَوْنَ کَانَ عَارِفًا بِاللّٰہِ ،فرعون، اللہ کے بارے میں جانتا تھا۔
اور امام رازیؒ نے اس کی چھے دلیلیں دی ہیں (ملاحظہ فرمائیں:  تفسیر کبیر، ج۶، ص۴۱)  نیز فرماتے ہیں:
وَأَمَّا ادِّعَاؤُهُ الرُّبُوبِيَّةَ لِنَفْسِهِ فَبِمَعْنَى أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ وَالِانْقِيَادُ لَهُ وَعَدَمُ الِاشْتِغَالِ بِطَاعَةِ غَيْرِهِ ، [رہا اس (یعنی فرعون)کا اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرنا تو اس کے معنی یہ تھے کہ لوگوں پر اس کی اطاعت اور اس کے آگے جھکنا واجب ہے۔ کسی اور کی اطاعت میں مشغول ہونا جائز نہیں۔]
ان عبارات کا مطلب تو واضح ہے کہ اِلٰہ کے معنی واجب الطاعۃ حاکم کے ہیں، مگر شاید یہ کہا جائے گا کہ اس میں تو یہ کوئی تصریح نہیں کہ اِلٰہ   کا ترجمہ حاکم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے میں  آپ کو توجہ دلاتا ہوں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ کے ترجمۂ قرآن کی طرف ۔ آپ حضرت شیخ الہند کا اُردو ترجمۂ قرآن نکال کر بیسویں پارے کا آغاز ان معترض صاحبان کےسامنے رکھیے۔ ایک ہی رکوع میں پانچ دفعہ آیا ہے: اَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔اور پانچوں جگہ اس کا ترجمہ لکھا ہے: ’’اب کوئی اور حاکم ہے اللہ کے ساتھ‘‘۔
پھر نکالیے سورئہ قصص کی آیت ۳۸: مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ۔اس کا ترجمہ انھوں نے کیا ہے: ’’مجھ کو تو معلوم نہیں تمھارا اِلٰہ حاکم ہو میرے سوا‘‘۔
پھر نکال کر دکھایئے پارہ ۱۹ میں سورئہ شعراء کی آیت ۲۹: لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـہًا غَیْرِی لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ  o اس کا حضرتؒ نے ترجمہ کیا ہے کہ: ’’اگر تو نے ٹھیرایا کوئی اور حاکم میرے سوا تو ضرور ڈالوں گا تجھ کو قید میں‘‘۔
درحقیقت اِلٰہ کا ترجمہ ان مقامات پر ’’حاکم‘‘ حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے اور موقع محل کے اعتبار سے یہاں اِلٰہ کا یہی ترجمہ مناسب تھا۔ اسی لیے حضرت شیخ الہندؒنے اُسی کو باقی رکھا۔
اعتراض کرنے والے علماے کرام کو یہ حوالہ جات دکھانے کے بعد پوچھیے کہ ان دونوں بزرگوں کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے اور اب ان پر آپ کون سا فتویٰ لگائیں گے ؟ ان ترجموں کے بارے میں وہ جو کچھ کہیں یا کوئی تاویل کریں وہ مجھے آپ بتا دیجیے، تاکہ ان لوگوں کی دیانت و انصاف اور حق پسندی کا اندازہ ہوجائے! (تفہیم الاحکام، اوّل، ص ۴۱-۵۲)
[مضمون میں شامل عربی اقتباسات کا ترجمہ جناب گل زادہ شیرپائو نے کیا ہے۔ ادارہ]

ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟

0

خبار اُمت

شیخ جاوید ایوب

نوعِ انسانی کی خاطر برپا ہونے والی امت کے احوال دیکھ کر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ آخر ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟ اُمتِ مسلمہ آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں کر ہوئی ہے اور اس زبوں حالی سے نکلنے کا کیاکوئی راستہ بھی ہے؟ اس نوعیت کے سوالات ہمیں جوابات تلاش کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ جسے ’خیر اُمت‘ کا لقب حاصل ہے اور جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی امین بھی ہے اور جانشین بھی ۔ یہ ایک ایسی امت جسے بجا طور پر سیادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہیے تھا، اپنے آپ کو مظلوم و محکوم پاتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ  مشرقِ وسطیٰ سے لے کر کشمیر، برما ، فلسطین، بھارت میں اس امت کی بد حالی، مظلومیت اور مفلوجیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ایک ایسی امت جو عددی اعتبار سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی پر مشتمل ہو، جو جغرافیائی اعتبار سے اسٹرے ٹیجک علاقوں میں سکونت پذیر ہو اور جس کی سرزمین قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہو، آخر ایسا کیوں ہے کہ آج اُمتِ مسلمہ کی حیثیت ایک ایسے بے حس جان دار کی سی ہو گئی ہے، جس پر جو چاہے اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے۔انسانیت کو اندھیروں سے نور کی طرف لے آنے والی امت آج خود پستی کی دلدل میں دھنسی نظر آتی ہے۔

عالمی سطح پر ۵۶سے زیادہ اسلامی ممالک کا وزن پانی پر جھاگ کے ماند بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں مسلم ممالک خود کو بے وزن محسوس کرتے ہیں۔ ان کی راے کی کوئی حیثیت نہیں۔ سارے عالمی معاملات جی سیون، جی ففٹین وغیرہ سے منسوب ممالک طے کرتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حواری اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی آڑ میںبین الاقوامی مسائل کو اپنی اغراض کے مطابق طے کرتے ہیں۔ الغرض اُمتِ مسلمہ پر ذلت اور مسکنت کا دور جاری و ساری ہے اور عذابِ الٰہی کے کوڑے بڑی شدت کے ساتھ اس اُمت پر برس رہے ہیں۔ ایسی حالتِ زار میں اگر یہ وعدہ پیش نظر رکھا جائے: اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ [اٰلِ عمرٰن ۳:۱۳۹]،   ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘، اگر قرآن میں اہلِ ایمان کے لیے غلبے کی بشارتیں ہیں تو اُمت کیوں کر پستی اور جمود کا شکار ہو کے رہ جائے؟آخر اس پستی کے اسباب کیا ہوئے اور اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے؟

اگر غور سے اس مسئلے پر سوچا جائے تو ہمیں اس بات کے اعتراف میں کوئی باک نہیں رہتا کہ یہ امت خیر اُمت کی تاویل میں غلطی کر گئی ہے ۔ اہل یہود کی طرح شاید ہم مسلمان بھی مدت سے کچھ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اپنی تمام کج فکریوں کے باوجود بھی ہم ہی تا قیامت دنیا کی سیادت پر مامور کر دیے گئے ہیں۔ چوں کہ خیر اُمت ہم ہیں، لہٰذا اقوامِ عالم کی سیادت پر فائز بھی ہمیں ہی کیا گیا ہے۔ اب چاہے کوئی ہماری اقتدا کرے یا نہ کرے ۔ کوئی کہتا ہے کہ غلبے سے مراد سیاسی، تہذیبی یا معاشی غلبہ نہیں بلکہ روحانی غلبہ ہے۔دراصل ’خیر‘ کا لفظ ان تمام کاموں پر محیط ہے، جس سے نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود وابستہ ہے۔ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہماری ساری توانائی ان باتوں میں خرچ ہوتی ہے کہ لائوڈاسپیکر پر اذان دی جائے یا نہیں، قرآن کی تلاوت جائز قرار دی جائے یا نہیں، موبائل پر بنا وضو قرآن پڑھا جائے یا نہیں، گھڑی دائیں ہاتھ میں پہننی جائز ہے یا بائیں ہاتھ میں، ہوائی جہاز میں کس سمت ہو کر نماز پڑھی جائے؟ ہم نئی ٹکنا لوجی کے خریدار ضرور ہیں، مگر اس کی پیداوار میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ جہاں دوسری قوموں نے دیانت یا محنت کے نتیجے میں اپنا قائدانہ تفوق برقرار رکھا اور اس سمت میں اپنی پیش رفت جاری رکھی، وہیں ہم خیر کے ان کاموں سے یکسر کٹ کر رہ گئے۔ اس سے بڑی کرب ناک اور اذیت دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے سرکردہ علما کسی سائنسی تحقیق [جسے غیر اقوام نے انجام دیا ہو] کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے قرآن میں ساڑھے چودہ سو سال پہلے اشارات میں واضح کیا جا چکا ہے‘‘۔ اس بات سے انکار نہ کرنے کے باوجود لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو وہ اشارے اور ارشادات تب تک نظر کیوں نہیں آتے جب تک کہ غیر اقوام کسی سائنسی تحقیق کو سامنے نہیں لے آتیں۔

آج اُمتِ مسلمہ کے ذہن مفلوج ہو گئے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ صلاحیت سے عاری ہیں، بلکہ شاید اس لیے کہ امت نے ان سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ اُمت ’ توکل‘ میں اس حد تک غلو کی مرتکب ہوئی کہ عقل کو طاقِ نسیاں میں رکھ دیا۔ ’محرک اور نتیجے‘ کے اصول کا سرے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس اصول سے آیاتِ آفاق وانفس کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ امت مسلمہ ’فکرودانش کی خودکشی‘ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی۔ امت اب اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر ’توکل‘ کا فریضہ انجام دیتی ہے۔

نیال فرگوسن نے اپنی کتاب Civilization: The West and the Rest  (۲۰۱۲ء) میں مغربی طاقت کے چھے بنیادی محرکات کو واضح کیا ہے، جو اسے تمام دنیا کی اقوام پر غلبہ اور سیادت بخشتے ہیں۔ان چھے محرکات میں فرگوسن پہلے نمبر پر مقابلے اور مسابقت کو جگہ دیتا اور کہتا ہے کہ یورپ میں مقابلے و مسابقت کی سوچ کے پیدا ہوتے ہی مادی اور فوجی طاقتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا جو یورپی طاقتوں کے غلبے کا سبب بنا۔اس مسابقت سے نہ صرف معیار میں اضافہ ہوا بلکہ مقدار میں بھی حد درجہ اضافہ ہوا۔ پھر پیداوار اور اس کی کھپت میں انقلابی سطح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔فرگوسن کی اس بات کو ہمارا طرزِفکر یہ کہہ کر خارج کر دیتا ہے کہ: ’’اسلام مقابلے کا نہیں بلکہ تعاون کا خواہاں ہے‘‘۔ لیکن فرگوسن کے باقی کے پانچ وجوہ(طب، ملکیت، سائنس، محنت اور کھپت) تو ایسی ہیں، جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ ان میں وہ سائنسی میدان میں یورپ کی ترقی کو دوسری بنیادی وجہ سمجھتا ہے۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ جب یورپ پر تہذیبی زبوں حالی کے گھٹاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اُمتِ مسلمہ علوم و فنون کے میدان میں اپنے عروج پر تھی۔ لیکن جب یورپی قومیں اپنی شکست خوردگی سے بیدار ہونی شروع ہوئیں، انھی ایام میں اُمتِ مسلمہ پر ایسی گہری نیند چھائی کہ اب تک بیدار ہونے کانا م نہیں لیتی۔ دورِ رسالت اوردور خلافت وہ   شان دار اَدوار تھے، جب اُمتِ مسلمہ ایک تعمیری اُمت ہوا کرتی تھی۔علوم و فنون کی افزایش و ترقی میں اس امت کا ایک کلیدی کردار تھا۔ لیکن جوں جوں مسلم ذہنوں پر سُستی اور کاہلی چھاتی گئی، اس بنیادی کام میں ہمارا حصہ گھٹتا گیا اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نہ صرف علمی ترقی میں ہمارا کوئی خاص حصہ نہیں ہے، بلکہ علم کے جذب و اجتہاد میں بھی یہ امت بخل سے کام لیتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پرمُسلم ہے کہ اس سائنسی ترقی کا ایک اور رخ بھی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جہاں علم کی ترقی نے انسان کو ایٹمی طاقت پر دسترس عطا کی، وہیں وحی سے کٹ کر انسان نے ایٹمی بم بنا کر انسانیت کو ایک دہکتے ہوئے آتش فشاں پر دھکیل دیا ہے۔ انسانیت کی فوز وفلاح کے لیے صرف نت نئی ٹکنالوجی کافی نہیں بلکہ مشفق اور محسن اور آخرت کی جواب دہی سے سرشار انسانوں کی ضرورت ہے، جو اس ٹکنا لوجی کو انسانیت کی بقا کے خاطر استعمال کرسکیں ۔ انسانیت کو اس فساد سے نکال کر امن کی شاہراہ پر صرف اُمتِ مسلمہ ہی ڈال سکتی ہے۔

اُمتِ مسلمہ ایک بانجھ امت نہیں ہے اور نہ کبھی بانجھ رہی ہے۔ اس امت نے علوم و فنون کے ہر شعبے میں اعلیٰ صلاحیت اور امتیازی حیثیت رکھنے والے افراد کو جنم دیا ہے۔ حسن بصریؒ،   امام بخاریؒ، امام مسلم ؒ ،امام ابو حنیفہؒ، امام غزالیؒ ، امام ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ، علّامہ محمداقبالؒ، سیّدقطب شہیدؒ اور مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ، اس اُمت کے وہ موتی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اس امت کے احیا کے لیے کام کیا، بلکہ تمام انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے دل ہمیشہ تڑپتے رہے۔ آج ضرورت ایسے ہی ذہنوں کی ہے، جو اسلامی علوم کی تشکیل جدیدکا بیڑا اٹھائیں اور اس سمت میں اپنی خدمات انجام دیں۔ عشروں کی محنت سے ہم صرف جامعۃ الازہر ،دارالعلوم دیوبند جیسے گنتی کے چند اعلیٰ اداروں کا قیام عمل میں لاسکے ہیں، جب کہ غیر مسلم قومیں علم اور تحقیق کے ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئیں، جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ایسے ہی تحقیقی اداروں سے ایسے کافرانہ نظریات بھی جنم لیتے ہیں جو نہ صرف اسلام دشمن ہوتے ہیں بلکہ انسانیت کے دشمن بھی۔ غرض مغربی ممالک علم وتحقیق کو غلبے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس غلبے سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس تحقیقی کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے جو سابقون الاولون میں دیکھنے کو  ملا تھا۔ اس ناکامی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کو دو بڑے خانوں میں تبدیل کر دیا: دُنیوی تعلیم اور دینی تعلیم۔ دنیاوی تعلیم کو ہم نے سرے سے ہی وحی سے کاٹ دیا اور دینی تعلیم کو دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے [دینی یا دنیوی] صرف اور صرف ’یک رُخا انسان‘ تیار اور فراہم کرتے ہیں، جن میں بنیادی طور پر منقسم شخصیت ہی پیدا ہوسکتی ہے، اسلام کے انسانِ مطلوب کا تصور محال ہے۔

دین کی بنیادیں اور تقاضے

0

میاں طفیل محمد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کچھ قوتیں، قابلیتیں اور صلاحیتیں دے کر ایک متعین مدت اور ایک متعین وقت کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اور اس غرض کے لیے بھیجا ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ وہ ان قوتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں کو اور اُن وسائل کو جن سے اس کو مسلح کیا گیا ہے، وہ کن مقاصد کے لیے اور کن کاموں میں صرف کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک تو انسان کے اندر نیکی اور بدی کی امتیازی صلاحیت خود ہی رکھ دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انبیا علیہم السلام اور وحی کے ذریعے سے اس کو یہ بھی بتادیا ہے کہ تمھارے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اور جس نے تمھیں یہ سب کچھ عطا کیا ہے اور جس کی تم مخلوق ہو، جس نے تمھیں پیدا کیا ہے، جو تمھاری پرورش کر رہا ہے اور جس کے پاس پھر تمھیں لوٹ کر جانا ہے، وہ تمھارے لیے کس قسم کی زندگی اس دنیا میں پسند فرماتا ہے اور کن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا انتظام کرکے اس نے انسان کو ایک متعین مدت اور وقت کے لیے اس دنیا میں بطورِ امتحان بھیجا ہے۔

دنیا ، ایک امتحان گاہ
اسی بات کو مولانا مودودی نے اس طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جیسے آپ ایک طالب علم ہیں۔ جس طرح طالب علم کمرئہ امتحان میں ہفتہ دس دن یا پندرہ دن مختلف امتحانوں میں سے گزرتے ہیں، اسی طرح آپ کو مختلف پرچے دیے جاتے ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک متعین وقت دیا جاتا ہے کہ ان کو تم حل کرو اور آپ کو جتنا وقت دیا جاتا ہے، اس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا۔ آپ کا جس طرح سے جی چاہے پرچہ حل کریں یا نہ حل کریں۔ آپ جو جی چاہے کریں، آپ کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے ، لیکن جب وقت ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ اسی طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مہلت ِ عمل دی ہے اور آپ کو بھیجا ہے۔
اس سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو بنیادی باتیں قرآنِ مجید میں ہمارے سامنے رکھی ہیں، ان میں سے کچھ آیات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

آخرت کی فکر
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ط وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۵۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مالِ متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدوفروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ عطا کیا ہے___ مال عطا کیا ہے، دولت عطا کی ہے، زمین عطا کی ہے، قوتیں عطا کی ہیں، دل و دماغ عطا کیا ہے، جذبات عطا کیے ہیں، عقل عطا کی ہے، سوجھ بوجھ عطا کی ہے، فہم و فراست عطا کی ہے، سوچنے سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں، نیکی اور بدی کی تمیز کرنے کی قوتیں عطا کی ہیں__ ان ساری کی ساری چیزوں کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ ، ان کو خرچ کرلو اس غرض کے لیے کہ تم اپنے حق میں کوئی چیز کمالو۔ اس وقت کے آنے سے پہلے کہ جب یہ پرچہ تمھارے ہاتھ سے چھین لیا جائے گا اور تمھیں ایک لمحے کے لیے بھی مہلت عطا نہیں کی جائے گی اور کمرئہ امتحان سے تمھیں اُٹھا دیا جائے گا۔ پھر جب اس پرچے کو جانچنے کا وقت آئے گا تو نہ تمھاری کوئی سفارش چلے گی، نہ کوئی چھرا یا پستول دکھا کر تم اپنے نمبروں میں کمی بیشی کروا سکو گے، اور نہ کسی کو کچھ دے دلا کر ہی کسی سے کوئی رعایت حاصل کرسکوگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح سے جو نصاب مقرر کیا ہے، اس طرح سے آپ کو اپنے پرچوں کو حل کرنا چاہیے۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، دوستوں اور ہمسائیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے، زیردستوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے اور اپنے سے اُوپر والوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اپنوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور پرائیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ اسی طرح روپے کا صرف کس طرح کرنا چاہیے، عدالت کس طرح سے    چلنی چاہیے اور اپنے جھگڑے کس طرح سے نبٹانے چاہییں۔ اس طرح سے اگر آپ نے پرچہ حل کیا ہوگا، کسی کی حق تلفی نہ کی ہوگی تو ٹھیک ہوگا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اپنے اُوپر بھی ظلم کیا اور    ان چیزوں پر بھی ظلم کیا، جن کو آپ نے استعمال کیا، کیوں کہ ان کا حق یہ ہے کہ جس مالک کی یہ اشیا ہیں اس مالک کی مرضی کے مطابق انھیں استعمال کیا جائے۔ دل و دماغ، ہاتھ پائوں، عقل اور فہم و فراست، سوچ سمجھ، اولاد، بھائی بند، دوست احباب اور جو چیزیں بھی آپ کو عطا کی گئی ہیں، ان کا حق آپ پر یہ بنتا ہے کہ آپ اس مالک کی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کریں جس کی وہ چیزیں ہیں۔

امانت میں تصرف
ظاہر بات ہے کہ ہرچیز جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے صواب دید اور اختیار (disposal) میں دی ہے، وہ آپ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس لیے آپ کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ اس مالک کی مرضی کے خلاف ان کے اندر آپ تصرف کریں۔ آپ میں سے ہرشخص جو بھی معاملات کی کچھ بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ جوچیز بھی آپ کے پاس کسی نے امانت رکھی ہے، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس امانت میں اس کے مالک کی مرضی کے خلاف تصرف کرے، اور اس کے خلاف تصرف کرنے کا نام خیانت ہے، بے ایمانی ہے، بددیانتی ہے اور غبن  ہے۔ اگر وہ امانت میں خیانت کرتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کو اس کی سزا بھی بھگتنی پڑے گی، خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا اور وہ اپنے اُوپر بھی ظلم کرے گا۔ اگر وہ جیل جائے گا تب بھی، جرمانہ ہوگا اور سزا ملے گی تب بھی۔ جو بھی ایسا کام کرتا ہے وہ خود پر ظلم کرتا ہے اور کوئی اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ، جو لوگ خدا کی نافرمانی کا راستہ اختیار کریں، خدا کے قانون کو توڑیں، خدا کی مرضی کے خلاف ان چیزوں کا استعمال کریں اور اللہ کے حکم کے مطابق انھیں استعمال نہ کریں، وہی حقیقت میں ظالم ہیں۔ وہ دوسروں کے اُوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور ان اشیا پر بھی ظلم کرتے ہیں کہ ان کا حق مارتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ خود کو بھی سزا کا مستحق ٹھیراتے ہیں اور اس طرح خود اپنے اُوپربھی ظلم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

اللہ کی صفات، حاکمیت اور اختیارات
اللہ جس کی اطاعت اور فرماں برداری کی طرف آپ کو بلایا جاتا ہے اور متوجہ کیا جاتا ہے، جس کی مرضی کو ملحوظ رکھنے کی آپ کو دعوت دی جارہی ہے، وہ خدا کون ہے؟ اس کے بارے میں فرمایا:
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ج    اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج     لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط  مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج  وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج  وَ لَا  یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا ج وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo (البقرہ۲:۲۵۵)اللہ وہ  زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ِ ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اُس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
گویا اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ نہ اِس زمین کا خدا ہے، نہ اُس آسمان کا خدا ہے، نہ ان چیزوں کا خدا ہے اور نہ آپ کا خدا ہے۔ اور وہی خدا ہے جس کے سامنے آپ کو جاکر پیش ہونا ہے اور جو ہمیشہ سے زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کو کسی اور نے زندہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی ذات سے خود زندہ ہے۔ وہ زندئہ جاوید ہے۔ یہی نہیں کہ وہ خود زندہ ہے بلکہ تمام کائنات میں جو کچھ ہے سب کا وہی صانع ہے، پیدا کرنے والا ہے۔ اگر اس کا سہارا ہٹ جائے تو سب کچھ اسی وقت دھڑام سے گرپڑے۔ آپ کا وجود بھی اسی کی ذات سے قائم ہے۔ اگر اس کا سہارا ختم ہوجائے تو یہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر انسان پر فالج گرتا ہے تو کس چیز کی کمی واقع ہوجاتی ہے؟ اس خدا نے انسانی وجود کو جو سہارا دے رکھا ہے دراصل سہارا دینے کا وہ وسیلہ معطل ہو جاتا ہے اور انسان مٹی کے ڈھیرکی طرح سے زمین پر جاگرتا ہے۔ نہ اس کی انگلی ہلتی ہے ، نہ اس کا پائوں ہلتا ہے،    نہ اس کا سر حرکت کرتا ہے اور نہ وہ اپنا پہلو بدل سکتا ہے اور اکثر اوقات تو بول بھی نہیں سکتا۔سب کچھ موجود ہوتا ہے، اس کے اندر جان بھی ہوتی ہے لیکن صرف خدا کا وہ سہارا اس سے ہٹ جاتا ہے۔
پھر فرمایا: لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ ط،وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اُونگھ لگتی ہے۔
ایک سیکنڈ تو درکنار، ایک سیکنڈ کا کروڑواں ، ارب واں حصہ بھی اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ وہ ہروقت اور ہر آن alertہے۔ وہ ہروقت باخبر ہے۔ اس کے اُوپر کبھی بے خبری کی حالت طاری نہیں ہوتی۔ نہ وہ سوتا ہے اور ذرا برابر اُونگھ تک بھی اس پر طاری نہیں ہوتی۔ کسی بھی وقت اس پر کسی قسم کی کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی۔ کسی حالت میں بھی وہ آپ سے غافل نہیں ہوتا۔ جہاں بھی آپ ہیں، جس حال میں بھی ہیں، جو کام بھی کر رہے ہیں، دنیا کے جس گوشے میں بھی ہیں، ہروقت وہ آپ سے باخبر ہے، چوکنا ہے اور چوکس ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟
ایک دوسری جگہ فرمایا: کون ہے جو اس کی جناب میں زبان بھی کھول سکے۔ کوئی نبیؑ ، کوئی ولی، کوئی بزرگ، کوئی بڑا یا کوئی چھوٹا، اس کی مرضی کے خلاف اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہاں سفارش کرنا اور شفاعت کرنا کے معنی یہ ہیں کہ جو بھی اس کے سامنے زبان کھولے گا، اس کی اجازت اور مرضی سے کھولے گا، اور اجازت بھی وہ اسی کو دے گا جس کے بارے میں خود اس کا منشا ہوگا۔
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ ج، جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے۔
اس کو خود معلوم ہے کہ آپ کے آگے کیا ہے اور آپ کے پیچھے کیا ہے؟ آپ کے دائیں کیا ہے اور بائیں کیا ہے؟ آپ نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا ہے اور کس نیت سے اور کس ارادے سے کیا ہے؟ کس وجہ یا مجبوری سے کیا ہے؟ بدنیتی سے کیا ہے یا خوش نیتی سے کیا ہے___ وہ سب جانتا ہے، اسے کوئی کیا بتائے گا۔ کسی کے پاس کوئی سفارش اسی بنا پر کرتا ہے کہ حاکم کو بتائے کہ: ’حضور اس نے مجبوری اور لاچاری سے یہ جرم کیا ہے اور آپ کو جو اطلاع ملی ہے اس میں یہ غلطی ہے۔ فلاں شخص نے اس میں یہ غلط بات بیان کی ہے اور فلاں نے اس شخص کی اس طرح سے شکایت کرکے آپ کو بدظن کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کو بدظن کون کرے گا؟ اسے غلط اطلاع کون دینے کی ہمت کرے گا؟ اور اسے دھوکے میں کون ڈالے گا؟ وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔ جو دنیا کو نہیں معلوم وہ سب کچھ اس کو معلوم ہے۔
وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ  ج، اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت اور ادراک میں نہیں آسکتی، اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔
کوئی دوسرا اس کو جو کچھ بتانا چاہتا ہے وہ علم تو اسی کا دیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کو وہ کیا بتائے گا؟ جو پیغمبرؑ ، یا ولی، یا کوئی دوسرا شخص بھی اس کو بتائے گا، وہ تو اللہ ہی کا اسے دیا ہوا علم ہے۔    اگر وہ کسی کی شفاعت یا سفارش سنے گا تو دنیا کو دکھانے کے لیے کہ اس شخص کا میرے دربار میں   یہ مرتبہ ہے۔ اور اس کو میں نے یہ مقام دیا ہے کہ اس کی سفارش پر میں تمھیں معاف کررہا ہوں تاکہ  وہ اس کے احسان مند ہوں کہ یہ ہمارا مقرب بندہ تھا۔ اس کو دنیا میں بھی ہم نے تمھاری رہنمائی کے لیے بھیجا تھا اور تم نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ دیکھو! اس کا ہمارے ہاں کیا مرتبہ ہے۔ جس کو تم نے دنیا میں رد کر دیا تھا، ہمارے نزدیک اس کا کیا مرتبہ ہے۔ اس لیے ہم اس کی بات سن رہے ہیں۔
وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ،اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔
آپ کبھی اس کی حدود سلطنت سے نکل کر باہر نہیں جاسکتے۔ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی اس کائنات کے اندر ہے، سب پر اس کی حکومت ہے۔ ہرجگہ اس کی سلطنت چھائی ہوئی ہے۔ کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ ہرجگہ اس کا حکم چلتا ہے۔ ہرچیز اس کے دائرۂ اختیار کے اندر ہے۔ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔
وَ لَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔
اللہ وہ ہستی ہے جو ہمیشہ سے اس کائنات پر حکمرانی کرر ہی ہے، اس کی نگرانی کر رہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے۔انسان کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہ کام کرنے کے بعد تھک جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کچھ کھاپی لے، کچھ آرام کرلے اور کچھ سستا لے تاکہ مزید کام کے لیے تازہ دم ہوجائے۔ لیکن وہ ذاتِ باری تعالیٰ ایسی ہے اور ایسی زبردست قوت والی ذات ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے، اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کا انتظام کر رہی ہے، اس کی ضروریات کو پورا کررہی ہے، اس کے تمام انتظامات کو چلارہی ہے، تدبیر مملکت کر رہی ہے۔ اس کی حفاظت ،  اس کے انتظامات اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے سے ذرہ برابر بھی اس پر تھکاوٹ طاری نہیں ہوتی۔ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ،لہٰذا وہ سب سے بزرگ و برتر، سب سے اعلیٰ و ارفع اور سب سے بلند ہے۔

طاقت کا سرچشمہ
یہ ہے وہ خدا جس کی طرف آپ کو اور تمام انسانیت کو بلایا جارہا ہے اور یہ ہے وہ اسلام، جس کی طرف انسانوں کو اور آپ کو اور آپ اپنی قوم کے دوسرے لوگوں کو بلارہے ہیں کہ اس کے سامنے سرجھکائو اور اس کی رہنمائی کو قبول کرو۔ اس کے دین کو اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرو۔ دنیا میں بھی سرفراز ہوجائو اور آخرت میں بھی اس کی جنّت میں داخل ہوجائو اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائو۔
یہی ہے دین کی وہ بنیادی دعوت، جس کو لے کر آپ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس خدا کے  تصور کو آپ جتنی مضبوطی کے ساتھ اپنے ذہن میں بٹھالیں گے، اتنا ہی آپ کے اندر بے پناہ ہمت و حوصلہ اور نہ ختم ہونے والا جوش پیدا ہوگا۔ اسی طاقت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،  آپؐ کے خلفاے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ نے دنیوی وسائل کے لحاظ سے تہی دامن ہونے کے باوجود بڑی بڑی سلطنتوں، بڑی بڑی سوپرپاورز کو انھوں نے اُکھاڑ کر پھینک دیا۔
آج ہم سے چند میل کے فاصلے پر افغانوں نے، جن کے پاس نہ دنیا کا مال و دولت ہے، نہ جدید اسلحہ ہے، نہ کوئی ٹینک اور توپ خانے ہیں، نہ ہوائی جہاز ہیں، لیکن دنیا کی دو بڑی سوپرپاورز کو جن کے مقابلے میں دنیا کی ساری سلطنتیں مل کر بھی کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر رہی تھیں، ان کو اسی خدا پر یقین رکھنے والوں نے، جن کو اس بات کا یقین تھا کہ العلی العظیم ہماری پشت پر ہے، انھوں نے اس طاقت کا منہ پھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس لیے آپ کو اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات بابرکات ہے اور صرف اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔

دین میں کوئی جبر نہیں
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔
اس چیز کو منوانے کے لیے کوئی تلوار استعمال نہیں کی جائے گی، کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی، کیوں کہ زبردستی آپ کسی کو منافق تو بنا سکتے ہیں کہ وہ طاقت کے سامنے زیر ہوکر زبانی کلامی آپ کو دھوکا دے ڈالے، لیکن زبردستی آپ اس کو مومن نہیں بناسکتے۔ اس لیے کہ مومن آدمی اپنی مرضی سے  بنتا ہے۔ اگر اس کے دل کے اندر بات اُترے، اُس کا دماغ اس کو قبول کرے ، اس کے دل میںیہ بات بیٹھ جائے، اس کے ذہن میں یہ بات اُتر جائے، تب تو حقیقت میں آدمی مومن بنتا ہے اور صحیح معنوں میں خدا کافرماں بردار بن سکتا ہے۔ اسی صورت میں وہ جنّت کا اور خدا کے ہاں مقبولیت کا مستحق قرار پائے گا۔ اگر آپ نے اسے ڈنڈا دکھا کر کلمہ پڑھا دیا تو کسی بھی وقت وہ آپ کو بھی دھوکا دے گا اور آپ کی قوت کا بھی ذریعہ نہیں بنے گا۔ آخرت میں بھی اس کو کچھ نہیں ملے گا بلکہ دوزخ کا بدترین ٹھکانا اس کا مقدر ٹھیرے گا۔ جیساکہ قرآن پاک میں منافقوں کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج (النساء ۴:۱۴۵) ’’یقین جانو کہ منافق جہنّم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے‘‘۔ وہ جہنّم کے سب سے نچلے گڑھے میں ڈالے جائیں گے جہاں سے وہ شاید کروڑہا برس کی مسافت طے کر کے جہنّم کے کنارے پر پہنچ سکیں گے۔ وہ اتنا گہرا گڑھا ہوگا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ،یعنی یہ بات ہم زبردستی کسی سے نہیں منوا سکتے۔ یہ ہم نے بتا دیا کہ وہ خدا کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کی قوت کیا ہے؟ لیکن اس بات کو ہم زبردستی نہیں منوا سکتے، اس لیے کہ دین میں جبر نہیں ہوسکتا۔
قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
صحیح بات کو جو عقل اور معقولیت کے مطابق بات ہے اس کو بالکل منزہ کر کے، واضح کرکے اور صاف کرکے تمام آلایشوں سے پاک کر کے ہم نے سامنے رکھ دیا ہے اور غلط بات کو الگ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کرلے اور جس کا جی چاہے اس کو رد کردے۔

مضبوط سہارا
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَا انْفِصَامَ لَھَا ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo  (البقرہ۲:۲۵۶) اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
پھر جس نے ’طاغوت‘ کو رد کر دیا اور اللہ کو تسلیم کرلیا اور اللہ کے سامنے سر جھکا دیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا پکڑ لیا ہے جو کبھی دھوکا دینے والا نہیں، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ جس میں کوئی کمزوری نہیں ہے، جو ہروقت سہارا دینے والا ہے۔ اس کو پکڑ لینے کے بعد کبھی آپ کے پائوں میں لغزش نہیں آئے گی، جو آپ میں کبھی کمزوری نہیں پیدا ہونے دے گا۔ اس لیے آپ اس سہارے کو تھامیں۔ پھر اگر آپ کسی وقت اس کو پکارنے کی ضرورت محسوس کریں تو جہاں آپ نے زبان سے بات نکالی تو فوراً اس تک پہنچ جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں پھینکنے کا انتظام کیا اور اس کے لیے آگ کا ایک بڑا خوف ناک الائو تیار کیا اور آگ میں پھینکنے کے لیے حضرت ابراہیم ؑ کو منجنیق میں ڈالا کہ اُس کی قوت کے جھٹکے سے انھیں دہکتی آگ میں پھینکے۔ اس وقت حضرت جبریل امین ؑ ان کے پاس آئے اور عرض کیا: یاخلیل اللہ! آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپؑ کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اگر آپ مدد کے لیے آئے ہیں تو آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت جبریلؑ نے کہا کہ خدا سے مدد مانگیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ یہ سب کچھ تو میرے رب کے سامنے ہو رہا ہے۔
گویا خدا تو وہ ہے جسے پکارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، جس کے علم میں سب کچھ ہے، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے، وہ سمیع ہے، وہ علیم و بصیر اور خبیر ہے۔ اس کو خبر بھی ہے اور علم بھی۔
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط  وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ لا یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o ( ۲:۲۵۷) جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انھیں روشنیوں سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ ان لوگوں کا سرپرست، ساتھی اور ولی اور دوست ہے جو اس کو مان لیں، اس پر ایمان لے آئیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے۔ اور جو لوگ اس کا انکار کریں، اس سے سرکشی کا راستہ اختیار کریں وہ ان کو طاغوت کے سپرد کردیتا ہے۔ یعنی جو خدا کے سرکش ہیں،  خدا کے منکر ہیں اور خدا کے نافرمان ہیں، اور یہ کہ وہ نہ صرف خود خدا کے نافرمان ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر اپنے تابع فرمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ،اور وہ ان کو روشنی سے نکال کر، عقل اور فراست کے راستے سے نکال کر اندھیروں اور تاریکیوںکے راستے میں بھٹکنے پر ڈال دیتے ہیں۔ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہیں گے۔

اہلِ ایمان کی مدد
اس کے بعد ایک مثال بیان فرمائی کہ کس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اُوپر بھروسا کرنے والوں اور اپنے اُوپر ایمان لانے والوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کو تاریکی میں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ ط اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ م اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ لا قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ ط قَالَ اِبْرٰھٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o  (البقرہ۲: ۲۵۸) کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم ؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم ؑ کا رب کون ہے، اور اس بناپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم ؑ نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اس نے جواب دیا: ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘۔ ابراہیم ؑ نے کہا: ’’اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تُو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا‘‘۔ یہ سن کر وہ منکرِحق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو   راہِ راست نہیں دکھایا کرتا۔
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کس کس اسلوب میں اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے، ایسے دلائل اور باتیں سجھاتا ہے کہ وہ اپنے بالمقابل لوگوں کو خاموش کرا دیتے ہیں اور ان کو کوئی بات سوجھتی نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اس آگ کے الائو سے زند ہ نکلنے کے بعد نمرود کے پاس گئے، تو اس نے آپؑ سے کہا کہ:’ تُو کس کو ربّ مانتا ہے؟‘ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ:’ میرا ربّ وہ ہے، جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے اور جو موت دیتا ہے‘۔ اس نے کہا کہ:’ زندگی اور موت تو میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں قتل کروا دوں، پھانسی دے دوں اور اس کی زندگی ختم کر دوں‘۔ جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے حکم سے روز مشرق سے سورج نکلتا ہے تُو اگر خدا ہے تو ذرا مغرب سے اسے نکال کر دکھا دے؟‘ ظاہر بات ہے کہ اس کا کوئی جواب نمرود کے پاس نہیں تھا۔

اللہ کی بندگی کی طرف دعوت
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo(  ٰال عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ  (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالاں کہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچاراللہ ہی کی تابع فرمان (مُسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
یہ فرمایا جارہا ہے کہ کیا یہ لوگ اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے سامنے گردن جھکائیں، اس کی اطاعت کو قبول کریں، اس کے دیے ہوئے طریقِ زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس کے قانون کو تسلیم کریں، اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کریں۔ اس کے حلال کو قبول کریں اور اس کے حرام سے اجتناب کریں۔ اس کی پسندیدہ چیزوں کو اختیار کریں اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب کریں، اور جو راستہ اس نے بتایا ہے اسے اختیار کریں۔ مگر یہ لوگ اس کو اختیار کرنے کے بجاے کسی اور راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، یا یہ کوئی اور راستہ خود بنانا چاہتے ہیں یا لوگوں کا بنایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھ رہے ہیں کہ زمین و آسمان میں ہرچیز اللہ کے مقرر کردہ راستے پر چلی جارہی ہے۔ سورج، چاند، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، دریا، زمین و آسمان کی تمام قوتوں کو دیکھیں ، بارشوں کو دیکھیں،فصلوں کو اُگتا ہوا دیکھیں، زندگی اور موت کو دیکھیں، اپنے حجم کو دیکھیں، اپنے سانس کی آمدورفت کو دیکھیں،دنیا کا جتنا بھی نظم و نسق ہے اس کو کون چلا رہا ہے؟ دنیا کے اندر جو قوانین فطرت (Laws of Nature) رائج ہیں، یہ کس کے بنائے ہوئے ہیں؟ کیا کسی بادشاہ کے بنائے ہوئے ہیں یا کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ تمام دنیا کا نظام اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت چل رہا ہے، اللہ کے بنائے ہوئے قوانینِ فطرت کے تحت چل رہا ہے اور پوری دنیا کا نظام خدا کے بنائے ہوئے ایک راستے پر چل رہا ہے، تو کیا تم اس راستے سے ہٹ کر کسی اور راستے پر چلنا چاہتے ہو؟ دراصل ہمیں دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پرخدا کے قوانینِ زندگی کے مطابق چلنے کا اہتمام کرو۔ کل مرنے کے بعد تمھیں اسی کے سامنے جاکر پیش ہونا ہے اور تمھاری جانچ پڑتال ہوگی کہ تم اپنی زندگی کے معاملات کو کس قانون کے مطابق چلارہے تھے؟ کیا اسی قانون کے مطابق جس کے مطابق دنیا کا نظام چل رہا تھا اور خود تمھارا جسم پل بڑھ رہا تھا، بیمار ہوتا اور تندرست و توانا ہوتا تھا، تمھاری سانس چل رہی تھی، دماغ کام کر رہا تھا اور تمھارے اعضا حرکت کررہے تھے؟ تم نے اسی قانون کے مطابق اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اپنے معاملات کو چلایا، یا تم نے کسی من گھڑت قانون کے تحت اپنی زندگی بسر کی؟

راہِ نجات
قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ ص  لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۴) اے نبیؐ، کہو کہ ’’ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوب ؑ پر نازل ہوئی تھیں، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسٰی اور عیسیٰؑ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مُسلم) ہیں‘‘۔
اس کے بعد راہِ نجات کو واضح کیا گیا ہے کہ اے نبیؐ، آپؐ یہ فرما دیں کہ ہم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کرلیا اور تسلیم کرلیا ہے اور اس دین کو مان لیا ہے جو ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے۔ وہ دین جو اس نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ ، موسٰی ، عیسٰیؑ اور ان کے بعد جتنے بھی انبیاؑ آئے ان سب کو بتایا تھا۔ ہم ان سب کے دین کو قبول کرتے ہیں اور   ان سب انبیاؑ کے پاس ہمیشہ ایک ہی دین آتا رہا ہے اور ہم نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا ہے۔ وہ دین پوری دنیا کا دین ہے اور اس میں نافذ ہے۔ سورج سے لے کر ذرّے تک، اور آسمان سے لے کر تحت الثریٰ تک، اور پہاڑوں سے لے کر دریائوں تک، گویا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز، اور ہرچیز کا وہی دین ہے اور ہم نے بھی اسی دین کو اختیار کرلیا ہے۔

باطل نظام کی حقیقت
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج   وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o  ( ۳:۸۵) اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگزقبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
کہا جارہا ہے خدا کے سامنے سرجھکا کر اس کے قانون کے سامنے سرتسلیم خم کردو۔ جو کوئی زندگی بسر کرنے کے اس طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ اس کو اس دنیا میں پنپنےدے گا اور نہ آخر ت میں پنپنے دے گا۔
اب ہم اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں تک خدا کے دین کا تعلق ہے، خدا کے قانون کا تعلق ہے، یہ آدم ؑ سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک ہی دین رہا ہے کہ اس خدا کے سامنے سرجھکا کر، اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو پسند کیا ہے ا ن کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں کو خدا نے ممنوع قرار دے دیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے، اور جن کو اس نے جائز رکھا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن کو اس نے ناجائز رکھا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔
اسلام ، دینِ حق کے مقابلے میں جو باطل نظامِ زندگی اختیار کیے جاتے رہے ہیں، آدم ؑ سے لے کر آج تک ہزاروں نظام اختیار کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک بھی آزمائے جانے کے بعد پھر دوبارہ اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ کہیں سرمایہ داری ہے، جاگیرداری اور قبائلی نظام ہے، برادری ہے، کہیں بادشاہی ہے، کہیں ڈکٹیٹرشپ ہے، کہیں جمہوریت ہے۔ جمہوریت کی بھی آج بیسیوں قسمیں ہیں۔ ہرملک کی جمہوریت الگ ہے۔
اسی چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا، اس کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے گھاٹے کا سودا کیا۔ اس دنیا میں بھی حقیقت میں جو بھی نظام کوئی اختیار کرتا ہے، وہ وقتی طورپر کچھ دیر کے لیے چلتا ہے اور اس کے بعد وہ مٹ جاتا ہے۔ ہرحکمران آکر اس کے اندر مداخلت کرکے اپنے حسب ِ منشا اس کو ڈھالنے کی کوشش کرتاہے، لیکن صرف ایک اسلام کا نظام ہے جو ایک خدا کے قانون کے تحت چلتا ہے۔

ایمان لانے کے بعد کفر کی روش
کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ وَ شَھِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ                               وَّ جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ o  ( ٰالِ عمرٰن ۳:۸۶) کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اُن لوگوں کو ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالاں کہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسولؐ حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہی بتائو کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے کہ جنھوں نے ایمان لانے کے بعد نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ وہ ایمان لائے اور انھوں نے تصدیق کی کہ  اللہ کا رسول سچا رسول ہے اور اس کے بعد پھر کفر کا راستہ اختیار کرلیا۔
اس وقت یہی ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کی صورتِ حال ہے کہ وہ شہادت دیتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ۔ شہادت دیتے ہیں کہ قرآن، اللہ کی کتاب ہے۔ شہادت دیتے ہیں کہ اسلام ہمارا دین ہے۔شہادت دیتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا۔ شہادت دیتے ہیں کہ ہم اسلام کے نام پر منتخب ہوکر اسمبلی میں آئے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ    ہم اللہ کی شریعت کو قبول نہیں کریں گے۔ اسی بات پر اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ جولوگ اس بات کو مانتے ہیں کہ اللہ کا رسولؐ سچّا ہے، اسلام سچّا دین ہے اور اس کے بعد پھر وہ کفر کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کیسے ہدایت دے۔

زندگی ایک امتحان
اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ زبردستی ہتھکڑی لگاکر لوگوں کو اسلام کے راستے پر چلائے۔  اللہ کا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان کو یہ بات سمجھا دے اور ان کی زبان سے اس کا اقرار کروا دے کہ  اللہ ایک ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اللہ کی کتاب قرآن ہے اور وہ اسے مان لیں۔ اس کے بعد دین پر چلنا یا نہ چلنا اس نے ان کی آزاد مرضی پر چھوڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر میں پہاڑوں کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہوں، دریائوں، ہوائوں اور ستاروں کو چلا رہا ہوں، زمین و آسمان کی بڑی بڑی قوتوں کو چلا رہا ہوں، تو کیا انسان کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا تھا؟
انسان کو چوںکہ میں نے پیدا اس لیے کیا ہے کہ اس مخلوق کو آزادی دی جائے۔ اگر یہ اپنی مرضی سے میری مرضی پر چلے تو اسے جنّت دی جائے اور اپنی مرضی سے نافرمانی کی راہ پر چلے تو پھر اسے جہنّم میں ڈالا جائے۔ یہی ایک صاحب ِ اختیار مخلوق ہے۔ اسی بنا پر اسے جنّت دی جائے گی اور اس بنا پر اسے سزا دی جائے گی۔ باقی تمام مخلوق کو ہم نے زبردستی اپنی مرضی پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لیے نہ اس کے لیے جنّت ہے اور نہ جہنّم۔ یہ مرے گی تو ختم ہوجائے گی، اور اس کا سلسلۂ حیات ختم ہوجائے گا۔ صرف انسان ایسی مخلوق ہے جس کے لیے جنّت بھی ہے اور جہنّم بھی، جزا بھی ہے اور سزا بھی۔ اس لیے مَیں انسان کو نہ زبردستی نیکی کے راستے پر چلاتا ہوں اور نہ زبردستی بدی کےراستے پر، بلکہ یہ اس کی مرضی پر چھوڑا ہے۔ اسے عقل دے دی ہے، پیغمبروں ؑ کے ذریعے سے نیکی بدی کا راستہ بتا دیا ہے، اور اس کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز دے دی ہے۔
ایک بُرے سے بُرا انسان بھی جانتا ہے کہ جھوٹ اور فریب غلط ہے، چوری بدکاری اور زناکاری غلط ہے، بے حیائی غلط ہے اور لوگوں کا مال کھانا غلط ہے۔دوسری طرف سچائی صحیح ہے، دیانت داری صحیح ہے، لوگوں کا حق ادا کرنا صحیح ہے، والدین کا حق ادا کرنا صحیح ہے۔ جو نیکی ہے اس کو بھی بیان کر دیا ہے اور بُرائی کو بھی بیان کردیا ہے۔ لہٰذا نیکی کو بھی ہرشخص جانتا ہے اور بُرائی کو بھی ہرشخص جانتاہے۔ اب انسان کا اختیار ہے کہ وہ سیدھا راستہ اختیار کرے یا غلط راستہ اختیار کرے۔
دین کی یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو مَیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین! (مرتب: امجد عباسی)

!شاداب رہیں گے رشتے

اسلامی معاشرت

ڈاکٹر محی الدین غازی

گھر کی رونق مکینوں سے ہوتی ہے، اور گھر کا حسن رشتوں کی استواری اور مضبوطی میں ہوتا ہے۔ کرۂ زمین کی ساری رونق انسانوں سے ہے، اور روے زمین کا سارا حسن انسانی تعلقات کی سازگاری اورخوش گواری سے ہے۔ اس بے بہا رونق اور اس بے پناہ حسن کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا زمین کے مکینوں، یعنی سارے انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ پوری زمین کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا جذبہ ہر انسان کے اندرون سے اُبھرنا چاہیے، خواہ اس کے بیرون سے اسے کوئی ترغیب ملے یا نہ ملے۔
قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تعلقات کی خرابی دراصل زمین کی خرابی ہی کی ایک صورت ہے۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، تو نفرتیں اور دشمنیاں جنم لیتی ہیں، اور پھر خون خرابہ ہوتا ہے۔ جس خوب صورت زمین میں محبتوں کی ندیاں رواں رہنی چاہییں، وہاں نفرت کی آگ سب کچھ جلادیتی ہے اور خون کا دریا سب کچھ بہا لے جاتا ہے، رشتے بھی اورقدریں بھی ۔ جو لوگ زمین کو سنوارنے کا شوق اور جذبہ رکھتے ہیں، وہ تعلقات بنانے کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اور جو طاقتیں زمین کو فساد اور خرابی سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، وہ تعلقات بگاڑنے کے درپے رہتی ہیں: فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْo (محمد۴۷: ۲۲) ’’پس اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ تم زمین میں فساد کرو اور آپس کی قرابتوں کو قطع کرو‘‘۔
زمین کو درپیش خطرات کی طویل فہرست ہے۔ ان کے سلسلے میں تشویش اور بے چینی کا اظہار بھی مختلف فورمز میں ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، سمجھنا چاہیے کہ ان خطرات میں سرفہرست، اور ان میں سے بہت سے خطرات کی اصل وجہ انسانوں کے درمیان وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی خود غرضی ، خراب ہوتے تعلقات، اور کم ہوتی محبت ہے۔ انسانوں سے انسانوں کی محبت جس قدر عام ہوگی اسی قدر زمین کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔
انسان دشمن طاقتیں انسانوں کو نقصان پہنچانے کے جو منصوبے بناتی ہیں، ان میں وہ رشتے توڑنا سرفہرست ہوتا ہے، جن کی استواری سے پورے معاشرے کی استواری ہوتی ہے، جیسے شوہر اور بیوی کا رشتہ۔ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہِ  بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ ط البقرہ۲: ۱۰۲) ’’پس یہ لوگ ان سے وہ بات سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں‘‘۔ یہ بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، کہ جب وہ کج روی کے شکار ہوئے تو ان کی سوچ اور پسند بھی نہایت گندی اور حد درجہ تخریبی ہوگئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ یہ بھی سیکھ لینا چاہتے تھے کہ شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال کر کس طرح آباد گھروں کو برباد کریں۔ یہ ماضی کی بات ہے، اب تو انسانیت کے بدخواہ ایسے سماج کا تصور پیش کررہے ہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے رشتے کا سرے سے وجود ہی نہ ہو۔ یہ انسانی سماج کے ساتھ کھلی دشمنی ہے۔ انسانوں کے خالق نے تو انسانوں کی فطرت میں ایسا انتظام رکھا ہے کہ شوہر اور بیوی کے ذریعے صرف اولاد ہی نہ ہو، بلکہ اس رشتے کے بعد ہونے والی اولاد سے مزید نئے رشتوں کی تعمیر وتشکیل ہو، اور زمین کا حسن بڑھتا ہی جائے: وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا ط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا o الفرقان ۲۵: ۵۴) ’’اور وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور پھر اس کو نسبی اور سسرالی (دادھیالی اور نانھیالی)رشتوں کا ذریعہ بنایا‘‘۔
شیطان انسانوں کا دشمن ہے۔ اس کو نہ یہ پسند ہے کہ یہ زمین انسانوں کے رہنے بسنے کے لیے سازگار رہے، اور نہ یہ گوارا ہے کہ اس زمین پر رہنے بسنے والے انسانوں کے آپس کے رشتے اور تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کی کوشش بس یہ ہوتی ہے کہ زمین میں تباہی پھیل جائے، اور رشتوں کی خرابی عام ہوجائے۔ اسے نہ زمین کا کارِ خلافت کے لیے موزوں ہونا منظور ہے، اور نہ  انسانوں کا منصب خلافت ہی کے قابل ہونا۔اس دشمنِ ازلی کی ساری تگ ودو یہ ہوتی ہے کہ انسانوں کو ہر طرح کی برائیوں میں ملوث کیا جائے۔ اس سے اس کا ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ سے دور ہوجائے، اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان برے کاموں میں پڑ کر انسانوں میں دشمنی اور بغض ونفرت عام ہوجائے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ج  (المائدہ ۵:۹۱) ’’شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمھیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روکے‘‘۔
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب بھی اللہ کی ہدایت سے دور ہوگا وہ منصب خلافت کے تقاضے بھول جائے گا، اور بلندیوں کو سر کرنے کے بجاے پستیوں میں جا گرے گا۔ وہ اتنا گرجائے گا کہ جس زمین پر وہ رہتا ہے اسی زمین میں بگاڑ پھیلائے گا، اور آپس میں خون خرابہ کرے گا ۔ فرشتوں نے اللہ کے حضور یہی اندیشہ ظاہر کیا تھا: اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ  (البقرۃ ۲:۳۰) ’’ اے رب کیا تو اس زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے گا؟‘‘
زمین میں فساد پھیلانے اور ایک دوسرے کا خون بہانے میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ گویا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں۔ مفسدوں کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں   نہ انسانی تعلقات کی کوئی قدر وقیمت ہوتی ہے، اور نہ انسانی جان کا کوئی احترام ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ سارے انسان جو قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوں اور اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار اور آمادہ ہوں، دشمنی اور نفرت سے محفوظ رہیں، اور الفت ومحبت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ جب قرآن مجید اہل ایمان کو باہمی اُلفت ومحبت کا درس دیتا ہے، تو اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ سارے انسان اہل ایمان بن جائیں، اور سارے ہی انسان نفرت وعداوت کی آگ میں جلنے اور جھلسنے کے بجاے، اُلفت ومحبت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سکون اور راحت کی زندگی گزاریں۔
قرآن مجید میں تعلقات کی خوش گواری کے موضوع کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عام انسانوں سے اہل ایمان کے تعلقات نفرت، ناانصافی اور زیادتی پر مبنی نہ ہوں، اور اہل ایمان کے آپس کے تعلقات محبت واخوت پر استوار ہوں۔ یہ تعلقات کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ قرآن مجید کی تربیت سے فیض یاب ہونے والا انسان اہل ایمان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اور نفرت کسی سے نہیں کرتا۔ اسے ہر انسان سے ہم دردی ہوتی ہے، خواہ وہ اس سے کتنی ہی دشمنی رکھتا ہو۔
قرآن مجید میں اہل ایمان کو اس کی ترغیب کہیں نہیں دی گئی ہے کہ وہ اپنے دل میں دوسروں سے دشمنی اور نفرت رکھیں، البتہ یہ حقیقت بار بار یاد دلائی گئی ہے کہ کفر کے سرغنہ اہلِ ایمان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان کی دشمنی سے اہل ایمان کو ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ قرآن مجید میں دشمنی کے مقابلے میں دشمنی رکھنے یا اس دشمنی کو بڑھانے کی تعلیم بالکل نہیں ملتی ہے۔ صرف ان کی دشمنی کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے، اور ان کے سلسلے میں حد درجہ محتاط رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی امید دلائی گئی ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے جو دشمنی پیدا ہوگئی ہے وہ ختم بھی ہوسکتی ہے، اور اس کی جگہ دوستی آسکتی ہے، کیونکہ اللہ رحیم ہے، اور اس کی طرف سے تمام بندوں کی ہدایت کے لیے بھرپور انتظامات کیے گئے ہیں۔قرآن مجید کی تربیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اہل حق کی دشمنی میں کتنی ہی دور جاچکا ہو، اگر راہ حق کی طرف لوٹ آئے تو اہل حق کی طرف سے اس کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے، اور وہ اہل حق کا دوست بن جاتا ہے: عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْھُمْ مَّوَدَّۃً ط وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo (الممتحنۃ: ۶۰:۷)’’عین ممکن ہے کہ اللہ تمھارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم نے دشمنی کی، دوستی پیدا کردے۔ اور اللہ قدرت والا اور بخشنے والا، مہربان ہے‘‘۔
قرآن مجید کی رُو سے کسی امت کے اندر محبت اور اخوت کا فروغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، جو امت اللہ کی اس نعمت سے خود کو محروم کرلیتی ہے، وہ تباہی کی طرف بڑھتی ہے۔ اخوت و محبت کی یہ نعمت امت مسلمہ کو زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا امت مسلمہ کے لیے لازم ہے، اور اگر کبھی یہ محسوس ہو کہ امت اس نعمت سے محروم ہورہی ہے، تو امت کے ہر فرد کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا ہوجانا چاہیے، کیوںکہ امت کے اندر نفرت وعداوت کا پایا جانا کینسر جیسے خطرناک اور مہلک مرض کی علامت ہے۔ اس بیماری کے اسباب سے جتنی جلدی ہوسکے واقف ہونا اور اس کے علاج کی فکر کرنا فوری طور پر نہایت ضروری ہوجاتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ج وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳)’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور پراگندا نہ ہو۔ اور اپنے اُوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمھارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تمھیں اس سے بچالیا‘‘۔
محبت واخوت کی اس نعمت سے ماضی میں بہت سی قوموں کو نوازا گیا مگرانھوں نے اس کی قدر نہیں کی اوروہ اس سے محروم ہوگئیں۔ ان کی محرومی کے اسباب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہود ونصاریٰ کی تاریخ کا اس پہلو سے بھی خصوصی مطالعہ ہونا چاہیے کہ ان کے اندر بغض وکینہ اور نفرت وعداوت جیسی بیماریوں نے کیسے جڑ جمائی۔قرآن مجید میں یہودیوں کی آپسی دشمنی کو ان کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اور عذاب الٰہی بتایا گیا ہے: وَ لَیَزِیْدَنَّ  کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا ط وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْ قَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ لا وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (المائدہ ۵:۶۴) ’’ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور ان کے کفر کو وہ چیز بڑھادے گی جو تیرے رب کی طرف سے تیری طرف اتاری گئی ہے۔ اور ہم نے ان کے اندر دشمنی اور کینہ قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے۔جب جب لڑائی کی آگ انھوں نے بھڑکائی اللہ نے اسے بجھادیا۔ یہ زمین میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں اور اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔ نہ صرف یہودی بلکہ عیسائیوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے: وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓی اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ص فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo (المائدہ ۵:۱۴) ’’اور جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ، ہم نے ان سے بھی عہد لیا، تو جس چیز کے ذریعے سے ان کو یاددہانی کی گئی وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے، پس ہم نے قیامت تک کے لیے ان کے درمیان عداوت اور بغض کی آگ بھڑکادی۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں عن قریب اللہ اس سے ان کو آگاہ کرے گا‘‘۔ اوّل الذکر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم دشمنی اور عداوت کی بیماری میں گرفتار ہوتی ہے، وہ زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانے میں بھی بہت سرگرم رہتی ہے، کیونکہ دشمنی اور بُغض ونفرت سے فساد فی الارض کے راستے کھل جاتے ہیں۔
ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، خواہ وہ انفرادی برائیاں ہوں یا سماجی برائیاں۔ سماجی برائیوں کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں ایک قسم وہ ہے جس سے تعلقات میں رخنے پڑ جاتے ہیں اور نہ صرف گھر، خاندان بلکہ پورا سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اس قسم کی برائیوں کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے،اور ان برائیوں کا اصل علاج یہ بتایا گیا ہے کہ جذبۂ اخوت کو مضبوط اور طاقت ور کیا جائے۔ جذبۂ اخوت کمزور ہوتا ہے تبھی یہ برائیاں جنم لیتی ہیں، اور یہ برائیاں جیسے جیسے پھیلتی ہیں، جذبۂ اخوت رخصت ہوتا جاتا ہے۔ جذبۂ اخوت کی حفاظت کے لیے دل میں تقویٰ، یعنی اللہ کا خیال رہنا بہت ضروری ہے۔ تقویٰ سے آدمی نہ صرف اللہ سے قریب ہوتا ہے، بلکہ اللہ کی خاطر اللہ کے بندوں سے بھی بہت قریب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حجرات میں جہاں تعلقات کی حفاظت کی تاکید کی گئی، وہاں دومرتبہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ  مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ o یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ o (الحجرات۴۹: ۱۰-۱۲) ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب وہ ان سے بہتر ہوں۔اور نہ اپنے لوگوں پر طنز کرو اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو اور ایمان کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے، اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں۔ اے ایمان لانے والو، بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔ اور ٹوہ میں نہ لگو۔ اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟سو اس چیز کو توتم نے ناپسند کیا۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا، مہربان ہے‘‘۔
سورۂ حجرات کی مذکورہ آیتوں میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان کیا کہ ’’مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ اور ساتھ ہی ایک اصولی ہدایت دی کہ ’’اس اخوت کی حفاظت تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے‘‘۔ اور اس ہدایت پر احسن طریقے سے عمل درآمد کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے رہنمائی فرمائی ’’کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ ان اصولی اور بنیادی تعلیمات کے بعد پھر کچھ ایسی حرکتوں اور عادتوں کا ذکر کیا جو اخوت کے رشتوں کو خراب کردیتی ہیں، اور ان سے بچنے کی تاکید کی۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے بس ان ہی سے بچنا مطلوب ہے، بلکہ جاننا چاہیے کہ تعلقات کو خراب کردینے والے رویوں کی یہ کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔ایسی اور بھی  بہت سی چیزیں ہوسکتی ہیں، جن سے تعلقات میں دراڑ پڑجائے، اور رشتوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ اب یہ ہر مومن کے غوروفکر کا موضوع ہونا چاہیے کہ وہ کیا امور ہیں، جو رشتۂ اخوت کی حفاظت میں معاون ومددگار ہوسکتے ہیں، اور وہ کیا باتیں ہیں جو رشتوں کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوسکتی ہیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید جب کچھ باتوں کا حکم دیتا ہے، اور کچھ باتوں سے روکتا ہے، تو دراصل وہ سوچنے کا ایک رخ متعین کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس رخ پر بہت دور تک سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، اور سوچنے کی راہیں بھی ہموار کرتا ہے۔
قرآن مجید کا اندازِ تربیت یہ ہے کہ وہ حکمت کا ایک اصول دیتا ہے، اور اس اصول کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہے، اور اس کے بعد قاری کے اوپر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ان مثالوں پر غور کرکے اس اصو ل کے اندر مزید جتنی صورتوں تک رسائی ہوسکے انھیں اخذ کرتا رہے۔ اس طرح قاری کو متعین طور پر کچھ حکمتیں تو بغیر محنت وجستجو کے مل جاتی ہیں، اور پھر مزید حکمتیں تلاش کرنے کی رغبت اور تربیت حاصل ہوتی ہے۔ جو اس جستجو میں جس قدر آگے بڑھتا ہے، اسی قدر اس پر آگاہی کے دروازے کھلتے ہیں، اور وہ قرآن مجید کی منشا سے قریب ہوتا ہے۔
دراصل ایک بندۂ مومن کو یہ معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کے باہمی تعلقات کی بہتری مطلوب ہے، اور خرابی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس منشا کو جان لینے کے بعد یہ شاہراہ پوری طرح روشن ہوجاتی ہے، اور بندۂ مومن اللہ کی منشاکی روشنی میں سامنے آنے والے ہررویے کے خوب وناخوب ہونے کا فیصلہ آسانی سے کرسکتا ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ سورۂ حجرات میں تعلقات کی حفاظت کے ذیل میں جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بات بھی انسانوں کے لیے نئی اور انوکھی نہیں ہے۔    یہ ایسی باتیں بھی نہیں ہیں جن سے کوئی اختلاف کرے۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تب بھی انسانوں کو وہی کرنا چاہیے تھا جس کی اس قدر تاکید اور اہتمام کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے۔ تاہم اہتمام کے ساتھ تذکرہ کردینے سے اللہ کی منشا اچھی طرح واضح ہوگئی، اور وہ یہ کہ تعلقات کی حفاظت کو انسانی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے، اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
سورۂ حجرات میں مذکور تعلیمات کا تقاضا ہے کہ اہل ایمان اپنے باہمی تعلقات کی حفاظت کے سلسلے میں تمام انسانوں سے زیادہ سنجیدہ اور حساس ہوجائیں۔ باہمی تعلقات کی حفاظت لوگوں کے غوروفکر کا خاص موضوع بنے۔ اس موضوع پر بھرپور علمی وفکری سرمایہ تیار کیا جائے، اور اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو علم وعمل کی سطح پر تشنہ نہیں رہنے دیا جائے۔
قرآن مجید میں خاص طور سے سورۂ مجادلہ میں نجویٰ (سرگوشی) کے سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے: اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (المجادلہ ۵۸: ۱۰) ’’یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو رنج پہنچائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ نجویٰ کے ماحول میں دشمنی کے ماحول کو پنپنے کا بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ شرپسند عناصر نجویٰ کو نفرت وعداوت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور بہت سے بھولے بھالے لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں، کیوںکہ بے باکی اور شفافیت کے ماحول میں تو سازشیں آسانی سے   بے نقاب ہوجاتی ہیں، لیکن اگر نفرت وعداوت کا گندا کھیل نجویٰ کے پردے میں کھیلا جارہا ہو، تو بہت سے لوگ غلط باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔وہ اپنی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ نہیں کرپاتے ہیں اور بلاتحقیق دشمنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں نجویٰ کے بجاے شفافیت اور صاف گوئی کو زیادہ سے زیادہ فروغ ملنا چاہیے۔
غیبت تو ایک ہلاکت خیز زہر ہے۔ وہ جس معاشرے میں سرایت کرجاتا ہے، اس معاشرے میں ساری اعلیٰ قدریں مرجھانے لگتی ہیں۔ غیبت دراصل سماج میں نفرت کی کانٹے دار جھاڑیاں ہر طرف بونے کی ایک مکروہ شکل ہے۔ ایک شخص پہلے اپنے دل میں نفرت کا پودہ اُگاتا ہے، اورپھر غیبت کے راستے سے اس کی قلمیں تیار کرکے سب کے دلوں میں اسے اُگانے کی کوشش کرتا ہے۔ غیبت کے سلسلے میں قرآن مجید کا انداز بیان بہت سخت ہے، اور غور کیا جائے تو واقعی غیبت ایسی برائی ہے کہ اس سے جتنی نفرت کی جائے کم ہے، کیوںکہ سماج میں نفرت اگر سب سے زیادہ پھیلتی ہے تو غیبت کے ذریعے ہی سے پھیلتی ہے۔ ان لوگوں کی عقل اور ذوق پر ماتم کرنا چاہیے جو غیبت سے نفرت کرنے کے بجاے غیبت کے جال میں پھنس کر انسانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ بھی بتایا گیا کہ شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے انسانوں کے درمیان دشمنی اور کینہ ڈالنا چاہتا ہے۔ قرآن مجید کی یہ رہنمائی بہت قیمتی اور اہم ہے۔ شراب اور جوئے میں وہ کیا چیزیں ہیں جو انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنادیتی ہیں، اس کا گہرا تجزیہ ہو، اور پھر تلاش کیا جائے کہ وہ اور کون کون سے امور ہیں، جن کے اندر تعلقات کے سلسلے میں شراب اور جوئے جیسی تاثیرِ بد پائی جاتی ہے۔غرض شراب اور جوئے ہی سے نہیں، ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس کے اندر دشمنی اور نفرت کے جراثیم پائے جاتے ہوں۔
سماج میں مثالی تعلقات کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ جذبۂ اخوت کی دل پر حکمرانی ہو۔ اس جذبے کو انانیت اور نفسانیت کے مقابلے میں ہمیشہ ترجیح دی جائے۔ آدمی ایسے رویوں سے دور رہنے کی کوشش کرے جو اخوت کے شیرازے کو کمزور کرتے ہیں۔ فرد اور اجتماعیت کی سطح پر   جذبۂ اخوت کو بہترین اور قوت بخش غذائیں پہنچانے کی تدبیریں اختیار کی جائیں۔ اورکبھی نہیں بھولنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان غذاؤں کا بھرپور انتظام موجود ہے۔