بدھ, دسمبر ۴, ۲۰۲۴
2.9 C
Srinagar

حج کے بعد ذمہ داریاں

مفتی ناصرالدین مظاہری

اسلام کا اہم ترین رکن حج بلاشبہ ان تمام مسلمانوں پر فرض ہے جو اسے مکمل اوراحسن طورپر اداکرنے کی طاقت اوروسعت رکھتے ہوں، اس اہم ترین فرض کی ادائیگی ہرصاحب وسعت پر عمر میںکم از کم ایک بار فرض ہے اورجس نے قدرت اوروسعت کے باوجود حج نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ یہودی ہوکرمر ے یا نصرانی اوریہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ
وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً۔اوراللہ ہی کیلئے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو ۔
حج ایک عاشقانہ عبادت ہے جس کے لئے اللہ کی عبادت کاعاشق دنیا کی ہر چیز کو خیر باد کہہ کرمستانہ وار نکل کھڑا ہوتا ہے اورتکالیف ومصائب کی پرواہ نہیں کرتا اس لئے محض اللہ کی خوشنودی اوراداء فرض وتعمیل ارشاد کی نیت سے حج کریں ،نام ونمود یا سیر وتفریح ،تبدیلیٔ آب وہوا اورحاجی کا لقب حاصل کرنے کیلئے ہرگز سفر نہ کیا جائے اس سے اگرچہ حج کافریضہ ادا ہوجائے گامگر ثواب کی محرومی ہوگی ۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی اس فرض کی ادائیگی اورحرم محترم کی حاضری کے لئے ہر ملک ،ہر شہر اورعلاقہ سے بندگانِ الٰہی جو ق در جوق پہنچے اورحج کے ارکان کو حتی الامکان خوبی وخوش اسلوبی سے اداکرنے کی کوشش کی ۔
ہم میں سے اکثریت ایسے افراد واشخاص پر مشتمل ہے جو حج کرنے کی طاقت اوروسعت رکھنے کے باوجود اس کی ادائیگی میںتساہلی اورکوتا ہی کرکے عذاب جہنم کے مستحق بن رہے ہیں ۔(اعاذنااللہ)
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حاجی حج کے بعد خود کو مافوق الفطرت ہستی تصور کرنے لگتا ہے ،اسے دوسروں پر اپنی افضلیت اوراہمیت کااحساس ہونے لگتا ہے ، حج کے باعث غیر حاجی کو حقیر وکمترتصور کیا جاتا ہے ،حج کے بعد اپنے آپ کو ’’حاجی ‘‘کہلوانے کا شوق اورخبط سوار ہوجاتا ہے ،دوسرے بھی’’حاجی صاحب‘‘کہہ کر پکارتے ہیںاور’’حاجی ‘‘اس نئے لقب کو سن کر پھولے نہیں سماتا حالانکہ یہ بھی شیطانی چال ہے ،اپنی عبادتوں کو مشتہر کرناریا ہے ،دکھا وا اورنفاق ہے ، اسلامی تعلیمات کے قطعاً خلاف ہے ۔
غورکریں! حج کوئی سند اورڈگری نہیں ہے کہ اس کو کرنے سے آدمی سند یافتہ ہوجائیگا ،بلکہ حج بھی اسلام کاایک اہم رکن ہے ،ایک فرض ہے ،جس فرض کی ادائیگی بلندی ٔ درجات کاباعث اورعند اللہ مسئولیت سے بچنے کا ذریعہ ہے ۔
آج کے دورمیں حج کے نام پر طرح طرح کی بدعات وخرافات جنم لے رہی ہیں ،حج بیت اللہ کے لئے روانگی سے پہلے اپنے عزیزو ں ،دوستوں اورحلقۂ یاراں کوباقاعدہ دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں ،انہیں دعوت ناموں کے ذریعہ بلایا جاتا ہے، طرح طرح کی تیاریاںکی جاتی ہیں ،شامیانے ،ٹینٹ اورکھانے پینے کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے ،مستورات بھی بے پردہ گھومتی نظر آتی ہیںاورپھر بے پردہ مستورات پر مشتمل کارواں قریبی ہوائی اڈہ ، ریلوے اسٹیشن اوربس اسٹینڈ تک ساتھ جاتا ہے ،فوٹو گرافری ہوتی ہے،محرم اورنامحرم کے فوٹو کھینچے جاتے ہیںویڈیو کیسٹیںتیار کی جاتی ہیں جنہیںاپنے اورپرائے اسکرین پر دیکھتے ہیں ،جن لوگوں کو ایسے مواقع پر حاجی کے ساتھ بطور مشایعت ایسی جگہوںپر جانے کاموقع ملاہے ان سے اس بے پردگی کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔
دہلی ،بمبئی ،پٹنہ ،لکھنؤوغیرہ کے انٹر نیشنل ہوائی اڈے ایسے موقعوں پر بے پردہ خواتین اورنوجوان لڑکیوں کااڈہ محسوس ہوتے ہیں ،کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایک فرض کی ادائیگی کے لئے اللہ اوراس کے رسول کی کتنی نافرمانیاں اورلعنتیں ہمارے گلے پڑگئی ہیں ،حاجی کے گلے میں پھو لوںاور روپیوں کے ہاربھی ڈالے جاتے ہیں انہیں بند لفافے پیش کئے جاتے ہیں ، اوراس منظر کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی حاجی نہیں ہے بلکہ کسی بارات کا دولہاہے ؟ فیاأسفا۔
حضرت مفتی شبیراحمد صاحب لکھتے ہیں
آج کل کے زمانے میں ایک بیجااسراف اورنئی چیز کادروازہ کھل گیا ہے کہ عورتوں اورمردوں کا بسوں اورگاڑیوں کے ذریعہ ایک حاجی کو لینے کیلئے کافی تعداد میںبارات کی شکل میںائرپورٹ پر پہنچتے ہیں اورجب حاجی صاحب ہوائی اڈے سے باہر آتے ہیںتو حاجی صاحب کے گلے میں سہرہ ڈالاجاتا ہے اورجو عورتیںپہنچتی ہیں ان کوشرم وحیا کاپاس ولحاظ بھی نہیں ہوتا ،اجنبی مردوں کے ہجوم میںاپنی شرم وحیاکوبالائے طاق رکھ دیتی ہیں نیزاگرجہاز لیٹ ہوجائے توایرپورٹ پر اتنی تعداد میں لوگ پڑے رہتے ہیںکہ چلنا پھرنا دشوار ہوجاتا ہے ، اسی طرح ریلو ے اسٹیشنوں کا حال ہے اس کے بعد ’’حاجی صاحب‘‘کودُلہابناکر لایاجاتا ہے اورپھر ’’حاجی صاحب ‘‘اپنے گھر آکر اپنے حج کی دعوت ولیمہ کرتا ہے یہ سب کا سب بیجا اسراف ہے ‘‘۔
اسی طرح پڑھے لکھے طبقہ میں یہ وباپھیلتی جارہی ہے کہ حاجی یا کسی سرکردہ شخصیت کے فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے بعدباقاعدہ جلسہ منعقد کرکے’’ سپاس نامے ‘‘ پڑھے جارہے ہیں۔
عید الاضحیٰ سے پہلے ایک دوست عالم دین نے بتایا کہ ان کے علاقہ میں کچھ لوگوں کے درمیان اس عنوان پر بات بڑھ گئی کہ ایک ’’عالم دین ‘‘کا مرتبہ بڑھا ہوا ہوتا ہے یا ایک ’’حاجی ‘‘کا،وہاں پر موجود اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ ’’حاجی ‘‘کامرتبہ بڑھا ہوا ہوتا ہے اس لئے کہ وہ لاکھوں روپئے خرچ کرکے حاجی بنتا ہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ ملت اسلامیہ کے درمیان کیسی لغو بحثوں نے جنم لے لیا ہے ۔اندلس پر جس وقت عیسائیوں نے قبضہ کیا اوروہاں کی مسلم حکومتوں کو نیست ونابو د کردیا گیا اس وقت بھی مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ ان کے درمیان یہ بحث ومباحثے ہورہے تھے کہ داڑھی کے ایک بال میں کتنے فرشتے جھول سکتے ہیںاور ایک سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟اس عنوان پر باقاعدہ مناظرے بھی ہورہے تھے اورعیسائی مشن اپنا کام کررہاتھا ،نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان مغلوب ہوگئے اورعیسائی غالب ۔
بہرحال حج ایک فرض کی ادائیگی کا نام ہے ،کوئی سند اورڈگر ی نہیں ہے اورعلم دین کا اس قدرسیکھنا کہ حلال وحرام کی تمیزہوجائے ،ہر مسلما ن پر فرض ہے ،ہر عبادت چاہے نماز ہو یا روزہ، زکوۃ ہو یا حج سب میںاخلاص وللہیت، خوف وخشیت ، تقویٰ واحساس بندگی ضروری ہے ،علم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ،حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ فرمان آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ’’لیس العلم بکثرۃ الروایۃ ولکن العلم الخشیۃ (حلیۃ الاولیائ)‘‘
کثرت معلومات کانام علم نہیں ہے ،علم تو خوف خدا کانام ہے
اسی طرح حج ہے جس کے ارکان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے باوجود اللہ سے یہ امید اورتوقع رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے قبول فرمالے تو بڑی بات ہے ورنہ خدا معلوم ہر سال کتنے لوگ حج کرتے ہیں اوران میں سے اکثر کے حج کو قبولیت نصیب نہیں ہوتی ۔
اس دورکا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ کسی بھی فرض کی ادائیگی کے لئے خشوع وخضوع ،انابت الی اللہ ، تقویٰ وبندگی اوررجوعِ الٰہی کی صفات حسنہ سے دور رَہ کر محض ارکان کی ادائیگی پر ہمار ازیادہ ترانحصار اورمدار رہ گیا ہے ،ریانے خلوص کی جگہ پر قبضہ کرلیا ،نفاق جڑ پکڑگیا ،خوف وخشیت کو ہم نے سلام کرلیا ،نتیجہ یہ ہو اکہ اپنی عبادات پر عُجب ،غرور ، تکبراوردکھاوا جیسی بری صفات پیدا ہوگئیں،ایک آدمی زندگی بھرنماز پڑھتا رہے پھر بھی اس کو ’’نماز ی ‘‘کہہ کر نہیں پکار ا جاتا ،ایک آدمی تاحیات روزہ رکھتا رہے پھر بھی اس کو’’ روزہ دار‘‘ نہیں کہاجاتا ، ایک شخص ہمیشہ زکوۃ اداکرتے رہے مگر اسے بھی ’’زکوتی‘‘ نہیں کہاجاتا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک بارحج کرلے تو اسے’’ الحاج ‘‘’’زائر حرم‘‘ اور’’حاجی ‘‘جیسے القاب دے دئے جاتے ہیں حالانکہ شریعت میںحج سے زیادہ نماز کی تاکید اوراس کو ادا نہ کرنے پر سخت ترین وعیدیں سنائی گئی ہیں ،لیکن لوگوں نے اپنے قول وعمل سے حج ہی کو اشرف العبادات بنادیا ہے ؟ فیا للعجب ۔
تلاوت قرآن سے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا فرمان ہے
’’اقرأ وا القرآن وحرکوابہ القلوب لایکون ہم احدکم آخرالسورۃ
قرآن پڑھو اوراپنے دلوں میں حرکت پیداکرو،تمہارا مقصدسورۃ ختم کرنا نہ ہو‘‘
ایک بار ارشاد فرمایا کہ
انزل القرآن لیعمل بہ فاتخذالناس تلاوتہ عملاً
قرآن کریم عمل کے واسطے اتا را گیا ہے لیکن لوگوں نے اس کے پڑھنے کو عمل سمجھ لیا ہے
یہی حال ہماری سب عبادتوں کا ہوگیا ہے ،نماز ہو یا روزہ ،زکوۃ ہو یا حج ،تلاوت ہویا صدقہ وخیرات ،نفاق کے جراثیم ہر جگہ پائے جانے لگے ہیں اورجب تک ہم اپنی عبادات کو ایسی آلائشوں سے پاک نہیں کرتے ، ہماری عبادتیںقبول نہیں ہوسکتیں ۔
حضرت جنید بغدادی ؒ کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے ،آپ نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ عرض کیا’’حج سے واپس آرہا ہوں ‘‘پوچھا حج کرچکے ؟عرض کیا’’کرچکا‘‘فرمایاجس وقت گھر سے روانہ ہوئے اورعزیزوںسے جدا ہوئے تھے ،اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی ؟کہا ’’نہیں یہ تو نہیںکیاتھا ‘‘ فرمایابس پھرتم سفر حج پر روانہ ہی نہیں ہوئے پھرفرمایاکہ راہ ِ حق میںجوں جوں تمہاراجسم منزلیں طے کررہا تھاتمہارا قلب بھی قرب حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟جواب دیا کہ ’’یہ تو نہیں ہوا ‘‘ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سفر حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں،پھرپوچھا کہ جس وقت احرام کے لئے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتاراتھا ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںہواتھا‘‘ارشاد ہوا پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا ،پھر پوچھا عرفات میں وقوف کیا تو کچھ معرفت بھی حاصل ہوئی ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںہوا‘‘ارشاد ہوا پھر عرفات میں وقوف ہی نہیں کیا پھرپوچھا کہ جب مزدلفہ میں اپنی مرا د کو پہنچ چکے تو اپنی ہر مراد نفسانی کے ترک کا بھی عہدکیاتھا؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںکیاتھا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر طواف ہی نہیں ہو ا ،پھر جب پوچھا کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو مقام صفا اوردرجۂ مروہ کا بھی کچھ ادراک ہوا تھا ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںہوا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر تم نے سعی بھی نہ کی، پھر پوچھا کہ جب منیٰ آئے تو اپنی ساری آرزؤں کو تم نے فنا کیا؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںکیاتھا‘‘ارشاد ہو ا کہ پھر تمہارا منیٰ جانا لا حاصل رہا ،پھر پوچھا کہ قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پربھی چھری چلائی تھی ؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںکیاتھا‘‘ارشاد ہوا کہ پھر تم نے قربانی ہی نہیں کی ،پھر پوچھا کہ جب کنکریاں ماری تھیں تو اپنے جہل ونفسانیت پربھی ماری تھیں؟کہا ’’نہیں ! یہ تو نہیںکیاتھا‘‘ارشاد ہو اکہ پھر تم نے رمی بھی نہ کی اوراس ساری گفتگو کے بعد آخر میں فرمایا کہ تمہارا حج کرنا نہ کرنا برابر رہا اب پھر جاؤ ،صحیح طریقہ پر حج کرو‘‘۔
مندرجہ بالا واقعہ کو ملاحظہ فرماکر غور کیاجائے کہ حج کے سلسلہ میں ہم سے کس قدر کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں نہ صحیح طورپر حج کے ارکان ہم سے ادا ہوتے ہیں نہ سفرحج کو مبارک ومسعود بنانے کی ہم کوشش کرتے ہیں نہ تو حقوق العباد کا خیال ہوتا ہے اورنہ ہی حقوق اللہ کی کوئی فکردامن گیرہوتی ہے ،نہ مشتبہ مال سے اجتناب ہوتا ہے، نہ دل کی صفائی اورفکر ی پراگندگی دور کی جاتی ہے نہ خواہشات نفسانی کو دبایا جاتا ہے، نہ عاجزی وانکساری اختیار کی جاتی ہے ،نہ نظروں کو نیچا کیا جاتا ہے ۔ سفر حج کے لئے انواع واقسام کے پرتکلف کھانوں اورناشتوں کا انتظام کیا جاتا ہے کہ اس پر’’ سفر ‘‘کا اطلاق بھی نہ ہوسکے ، حرم محترم میں دنیاوی گفتگو،تجارتی معاملات ،اشیاء خوردو نوش کی تیاری ، ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے بھاگ دوڑ،مکۃ المکرمہ کی مارکیٹوں اورمدینہ منورہ کے بازاروں میں ایسے لوگوں کا اژدحام جو صرف اورصرف عبادت اورایک فرض کی تکمیل کے لئے ہزاروں میل کی صعوبتیں برداشت کرکے وہاں پہنچے ہیں یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عبادات کے بجائے تجارتی معاملات طے کئے جانے لگے ، کمال تو یہ ہے کہ اس مبارک سفرسے واپسی پرریڈیو،ویڈیو،گیم ،کیمرے اورٹی وی وغیرہ بھی حجاج کرام اپنے ساتھ لارہے ہیں پھر ایسے ’’سفر ‘‘کوکس طرح مبارک اورمسعود قرار دیاجاسکتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ارشاد ہے فی آخر الزمان یکثرالحاج بالبیت یہون علیہم السفرویبسط علیہم الرزق ویر جعون محرومین مسلوبین۔ آخر زمانہ میں بیت اللہ کے حا جیوں کی کثرت ہوجائے گی ،ان کے لئے سفر کرنا آسان ہوجائے گا اور روزی بافراط ملے گی مگر وہ محروم اور چھنے ہوئے واپس ہوں گے۔
ممکن ہے یہ سطور پڑھ کرقارئین کرام یہ خیال فرمائیں کہ ہر شخص تو ایسا نہیں کرتا تاہم اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیاجاسکتا کہ تالاب کی سبھی مچھلیاں خراب نہیں ہوتیں ،پھر بھی بدنام سبھی ہوتی ہیں، ا س لئے شرعی اورقانونی طورپرممنو ع چیزوں کاساتھ لیجانا اورلانا دونوں غلط ہیں۔
حج کی ادائیگی ایک فرض سمجھ کر کرنا چاہیے اس کو سیر وتفریح ،تجارت اورریاونمودکاذریعہ بناناناجائز اورحرام ہے ، حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ یاتی علی الناس زمان یحج اغنیاء الناس للنزاہۃ واوساطھم للتجارۃ وقراء ھم للریاء والسمعۃ وفقراء ہم للمسئلۃ۔ایک زمانہ وہ بھی آنے والا ہے کہ مالدار سیر وتفریح کی غرض سے حج کریں گے ،متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے واسطے ،علماء ریاوشہرت کے لئے حج کریں گے اورفقراء بھیک مانگنے کی خاطر حج کریں گے ۔
مؤرخ اسلام حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں کہ
’’احتساب کیجئے کہ آپ کاحج کس قسم کا ہے ،مالداربھی سوچیں کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں حج کیا ہے یا سیر وتفریح کے طورپرروپیہ پیسہ کے بل بوتے پرایک لمبا چوڑا سفر کر ڈالا ہے …متوسط درجہ کے لوگ بھی غور کریں کہ انہوں نے اس مقدس سفر میںخرید وفروخت اورتجارت کاکام دھنداہی کیا ہے یا حج ومناسک کودینی روح کے ساتھ ادا کیا ہے ……لکھے پڑھے اور علماء جماعت کو بھی احتساب کرنا چاہیے کہ اس نے اس مبارک موقع پر اپنی عزت وشہرت کے لئے کیا کیا،کیاہے ؟اوراللہ ورسول کے لئے کیا کیا ہے ؟……وہ مفلس وتنگدست جن کے پاس کھانے تک کا ٹھکانہ نہیں تھا مگر وہ حج کے لئے گئے ان کو بھی جائزہ لینا چاہیے کہ انہوں نے اللہ وحدہٗ لاشریک لہ اوراس کے پاک رسول کے دربار میںآتے جاتے کن کن مقامات پرکیسے کیسے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کیا ہے۔
آج ہر قسم کی سفری آسانیاں موجود ہیں ،آپ جیسے چاہیں حج کرسکتے ہیں مگر دیکھئے کہ حج کے مقدس اجتماع سے آپ کیا لے کر لوٹے ہیں اورآپ نے کیا کھویا اورکیا پایا ہے ؟
اب سے کئی سو سال پہلے علامہ ابن الحاج اندلسیؒ نے اپنے زمانہ سے پہلے کے علماء کا قول نقل کیا ہے کہ جب وہ کھاتے پیتے اورخوش حال لوگوں کو سفر حج میں دیکھتے تھے تو لوگوں سے کہتے تھے کہ’’ لا تقولواخرج فلان حاجاً ولکن قولوا خرج مسافراً۔فلاںمالدارکے بارے میںیہ نہ کہو کہ وہ حج کے لئے نکلا ہے بلکہ یہ کہوکہ مسافر بن کر نکلاہے ‘‘۔ (حج کے بعد،قاضی اطہر مبارکپوریؒ ص۔۲۲)
قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒکا ارشاد ہے کہ’’ حجر اسود کسوٹی ہے ،اس کے چھونے سے انسان کی اصل حالت ظاہر ہوجاتی ہے ،اگر واقعی فطرۃً صالح(اور نیک)ہے تو حج کے بعد اعمال صالحہ کا اس پر غلبہ ہوگا اور اگر فطرۃً (نالائق اور)طالع ہے محض تصنع(اوربناوٹ)سے نیک بنا ہوا ہے تو حج کے بعد اس پر اعمال سیئہ (برے اعمال)کا غلبہ ہوگا‘‘۔ حضرت تھانویؒ نے اس ملفوظ کو نقل کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہی وجہ سے خطرہ کی اور اس خطرہ کا علاج یہ ہے کہ حاجی زمانۂ حج میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اصلاح حال کی خوب دعا کرے۔ دل سے اعمال صالحہ کے شوق کی دعا کرے اور حج کے بعد اعمال صالحہ کا خوب اہتمام کرے‘‘(اصلاح ظاہر ص ۱۶۱۔جلد۲۸)
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفر حسین صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے ان کے پاس مختصر سا سامان اور پانی کی گیلن تھی انہوں نے بتایا کہ حضرت! میں حج سے واپس آرہا ہوں اورآبِ زم زم سے بھری ہوئی یہ گیلن ہوائی اڈہ والوں سے بدل گئی ہے اس لئے یہ پانی میرے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ حضرت فقیہ الاسلام ؒ اس شخص کے تقوی وخشیت پر بہت مسرور ہوئے ،حاضرین بھی اس قدر کم زاد سفر کو دیکھ کرمتعجب اوراس مسئلہ کے استفسار پر متأثر ہوئے ، حضرت فقیہ الاسلامؒ نے فرمایا کہ یہ پانی آپ کے لئے جائز نہیں ہے ،آپ اس گیلن کو وہیں پہنچادیں جہاں سے حاصل ہوئی چنانچہ وہ شخص الٹے پاؤں دہلی کے لئے روانہ ہوگئے اورہوائی اڈہ والوں کووہ گیلن واپس کردی ۔
اس واقعہ سے بتانا یہ مقصود ہے کہ نیک لوگوںسے روئے زمین کبھی خالی نہیں رہی ،اللہ کے مخصوص بندے ہر دور میں موجود رہے ہیں،حج سے پہلے حج کے دوران اوراس کے بعد بھی ہر مومن کو مومنانہ زندگی بسر کرنے کاحکم ہے ، اس لئے کہ حج کے بعد ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں ،حج سے پہلے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے صرف اس شخص کی بدنامی اورذلت ہوتی ہے لیکن حج کے بعدحج سے مبارک نسبت کی بنا پر تمام ممنوعات اور مکروہات سے اجتناب ضروری ہوجاتا ہے۔
حضرت مولاناعبد الماجد دریابادیؒ نے لکھا ہے کہ دل والوں نے جب حج ادا کئے ہیں ،بارہا اس طرح کئے ہیں کہ محض تن والے دنگ رہ گئے ہیں نہ زاد وتوشے کی فکر ہے نہ مرکب وراحلہ کا سامان کیا ہے،نہ کسی رفیق عزیز کوہمراہ لیا ہے ،نہ منزلوں پر پہنچ کر قیام کیا ہے ، نہ پانی کی صراحیاں ساتھ لی ہیں،تن تنہا اٹھ کھڑے ہو ئے ہیں،اور خالی ہا تھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،بادیہ کی چلچلاتی ہوئی ریگ پر ننگے پیراور عرب کی انتہائی کڑی دھوپ میں ننگے سر،ایک دو دن کی نہیں ،ہفتوں اور مہینوں کی مسافتیں طے کی ہیں،روزوں پر روزے رکھے ہیں اورفاقوں پر فاقے کئے ہیں ، کوئی ایک دو مثالیں ہو ں تودرج کی جائیں کس کس کے نام اورکہاں تک گنائے جائیں۔ طاؤس الفقراء الشیخ ابونصر سراج اپنی کتاب اللمع میں اس طرح کی بہت ساری حکایات درج کرکے لکھتے ہیں کہ ان اللہ والوں کے آداب حج یہ ہیں کہ جب یہ میقات پر پہنچ کرغسل کرتے ہیں تو اپنے جسم کو پانی سے دھونے کے ساتھ ہی اپنے قلب کو توبہ میں غسل دیتے ہیں، جب احرام پہننے کے لئے اپنے جسم سے لباس اتارتے ہیں تو قلب سے بھی لباس محبت دنیا اتارڈالتے ہیں ، جب زبان سے لبیک لا شریک لک لبیک کہنا شروع کردیتے ہیں تو حق کو پکار نے کے بعد شیطان ونفس کی پکارپر جواب دینا اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں ، جب خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگتے ہیں تو آیت کریمہ وتری الملئکۃ حافین من حول العرش کو یاد کرکے عرش الٰہی کے گرد طواف کرنے والے فرشتوں کا تصور جماتے ہیں جب حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں گویا اس وقت حق تعالیٰ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہیں اوراس کے بعد اپنے ہاتھ کاکسی خواہش کی طرف بڑھانا گناہ سمجھنے لگتے ہیں ، جب صفا پر چڑھتے ہیں تو اپنے قلب کی کدورت کو بھی صفائی سے بدل لیتے ہیں ،جب سعی کرنے میں تیز دوڑتے ہیں تو گویا شیطان سے بھاگتے ہوتے ہیں ،جب عرفات میں حاضر ہوتے ہیں تو تصورکے سامنے میدان حشر کا نقشہ جماتے ہیں، جب مزدلفہ میں آتے ہیں تو ان کے قلب ہیبت وعظمت حق تعالیٰ سے لبریز ہوتے ہیں ،جب کنکری پھینکتے ہیں تو اپنے اعمال وافعال یاد کرتے جاتے ہیں ،جب سر منڈاتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے نفسوں پر چھری چلاتے رہتے ہیں … جنہوں نے یہ آداب حج اپنی کتابوں میں لکھے اورجو انہیں عمل میں لائے وہ نورکے بنے ہوئے اورآسمانوں پر اڑنے والے فرشتے نہ تھے ہماری آپ کی طرح مٹی کے پتلے اوراسی مادی زمین پر چلنے پھرنے والے انسان ہی تھے‘‘۔(سیاحت ماجدی ص۔۴۲۹۔۴۳۰)
علامہ ابن الحاج اندلسیؒ نے سفر حج سے واپس آنے والوں کے لئے ایک عظم پیغام تحریر فرمایا ہے کہ
’’حج سے واپس ہو کر حاجی نیک کاموں مثلاً علم وعبادت وغیرہ کے حاصل کرنے میں لگ جائے کیو نکہ نیکیوں سے باز رہنا برائیوں کا ارتکاب کر نا ہے اور حاجی اس وقت برائیوں سے پاک ہوچکا ہے اور نیکیوں کے حاصل کرنے کے قابل ہے اس وقت اس کے لئے نیکیاں بہت آسان ہوگئی ہیں اوربرائیاں اس پر بھاری ہوگئی ہیں، اس حالت کو اپنی پوری زندگی تک قائم رکھے کیونکہ یہ اس شخص کی علامت ہے جس کا حج مقبول ہوچکا ہے نیز حاجی باقی زندگی میں نیکیوں کے لئے پوری جدو جہد جاری رکھیں تاکہ اس کاحشرقیامت کے دن اس جماعت میں سے ہو جس کے دامن پر گناہوں کے دھبے نہیں ،کیونکہ اس کے گناہ بخشے جاچکے ہیں اوروہ اس وقت اللہ کے فضل وکرم سے بہت ہی محبوب اورخوش گوار حالت میں ہے ،اس حال میںجس وقت بھی موت آجائے اسے طہارت اورسلامتی کی حالت میں پائے گی ‘‘۔
حضرت قاضی اطہر مبارک پوریؒ اس مقدس طائفہ کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ
’’حجاج کرام !آپ خوب سمجھ لیں کہ اگر حج وزیارت کی برکتوں سے اپنے دامن کو بھر کرآئے ہیں اوریقیناآئے ہیں تو آپ بہت ہی خوش نصیب ہیں ،آپ کا یہ مقدس سفر ہر طرح کامیاب ہے اوروطن کی مراجعت مسعود ومبارک ہے ،اگر آپ کے اندرحج وزیارت نے ایمان کی حرارت بھردی ہے اورآپکی روح ونظر حرمین شریفین کے مصفیٰ اورپاک جلوو ں سے معمورہوگئی ہے تو آپ اپنے گھر رہ کر حرمین شریفین سے قریب ہیں اورآپ کاتعلق ان سے بہت گہرا ہے مگراس کیلئے شرط یہی ہے کہ آپ جس حالت میں آئے ہیں اسی حالت پر اپنی زندگی بسر کریں ۔
ایک صاحب دل عارف باللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ کم من رجل بخراسان اقرب الی ھذا البیت ممن یطوف ،بہت سے خراسان کے رہنے والے اس آدمی کے مقابلہ میںکعبہ سے زیادہ قریب ہیں جو اس کاطواف کررہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حج کو اس کی مکمل صفات کے ساتھ اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img