بدھ, دسمبر ۴, ۲۰۲۴
2.9 C
Srinagar

عمران خان کی احتجاج کی کال:’ مظاہرین کے خلاف شبانہ گرینڈ آپریشن ، پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ کرنے کا اعلان ،متعدد کارکنان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

مانیٹرنگ ڈیسک

اسلام آباد: پولیس نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف ’شبانہ گرینڈ آپریشن ‘ کرکے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا جبکہجناح ایونیو، سیونتھ ایونیو سے مظاہرین درجنوں گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہوئے ہیں۔ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں پ±رامن مظاہرین کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، دعویٰ کیا کہ ہلاککیے گئے8 کارکنوں کے کوائف آچکے ہیں۔

 

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی چوک پر جمع ہونے والے کارکنوں کے خلاف گرینڈ آپریشن منگل کی رات پاکستانی وقت کے مطابق11 بجے منصوبہ بندی کے تحت شروع ہوا جس کی ابتدا میں سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو چاروں اطراف سے گھیرا اور قریب واقع تمام علاقوں کی مارکیٹوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ لائٹس کو بھی بند کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کے مطابق بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا میں موجود ہیں اور آج پریس کانفرنس کریں گے۔

’بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا میں ہیں اور آج پریس کانفرنس کریں گے‘

پی ٹی آئی پشاور ریجن کے صدر ارباب نسیم کے مطابق بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اس وقت خیبرپختونخوا میں ہیں۔بی بی سی کی ثنا آصف ڈار سے گفتگو میں ارباب نسیم نے بتایا کہ رات کو دس ساڑھے دس بجے کے درمیان جب حکومت کی جانب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا تو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور ’وہاں سے نکل گئے۔‘

ارباب نسیم کے مطابق بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور آج دن گیارہ بجے پریس کانفرنس بھی کریں گے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ بشریٰ بی بی کے اہلخانہ کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انھیں اغوا کیا گیا ہے تو اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’رات سے فون کے سگنل نہیں تھے، اس لیے رابطے نہیں ہو سکے لیکن بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور خیبرپختونخوا میں ہیں۔‘

منگل کی رات ڈی چوک میں کیا ہوا؟

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے منگل کی رات پاکستان تحریک انصاف کے ڈی چوک پر جمع ہونے والے کارکنان کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ کی تصدیق تو کی گئی ہے تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔وفاقی وزرا نے اس آپریشن کے دوران 500 سے 550 مظاہرین کی گرفتاری کی تصدیق تو کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس دوران مظاہرین میں شامل کتنے افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے آفیشل ’ایکس‘ اکاو¿نٹ اور متعدد رہنماو¿ں کی جانب سے اس آپریشن میں سکیورٹی حکام کی جانب سے ’بے دریغ فائرنگ‘ اور آنسو گیس کے استعمال کے باعث متعدد مظاہرین کی ہلاکت اور زخمی ہونے سے متعلق ناصرف دعوے کیے جا رہے ہیں بلکہ ویڈیوز بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں۔

ان ویڈیوز میں بھاگتے ہوئے مظاہرین کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس موقع پر آنسو گیس کے بادل اور پس منظر میں شدید فائرنگ کی آوازیں بھی س±نی جا سکتی ہے تاہم نہ تو بی بی سی ان ویڈیوز کی آزادانہ تصدیق کر سکا اور نہ ہی حکام نے اس سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔

گذشتہ روز ڈی چوک میں ہوئے آپریشن کی تفصیلات جاننے کے لیے بی بی سی نے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کیا۔اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق یہ آپریشن رات11 بجے کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت شروع کیا گیا تھا جس کی ابتدا میں سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اور اس کے بعد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔آپریشن میں حصہ لینے والے اسلام آباد کے ایک پولیس افسر عثمان احمد کے مطابق آپریشن سے قبل قریب واقع تمام علاقوں کی مارکیٹوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ لائٹس کو بھی بند کیا گیا تھا۔

انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے بتایا کہ دو سے ڈھائی گھنٹوں میں آپریشن مکمل کر لیا گیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد مظاہرین کو ڈی چوک اور اس کے اطراف سے گرفتار کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ مظاہرین کی گاڑیاں بلیو ایریا میں موجود تھیں اور ان میں سے ایک بھی گاڑی واپس نہیں گئی۔ ا±ن کے مطابق مظاہرین کی جانب سے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا گیا اور خاص طور پر اس کنٹینر کو جس پر بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور سوار تھے۔

پاکستان کے مقامی میڈیا اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی چند ویڈیوز میں آپریشن کے بعد کے ڈی چوک کے مناظر دکھائے گئے ہیں جن میں درجنوں گاڑیوں کو اسلام آباد کے جناح ایوینیو پر دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے متعدد گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق اس آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے سینکڑوں افراد کو اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں رکھنے کے ساتھ ساتھ سی آئی اے میں منتقل کیا گیا ہے اور سی آئی اے کی عمارت کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔مقامی پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے مظاہرین کو مرحلہ وار عدالتوں میں پیش کر کے عدالتوں سے ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کی استدعا کی جائے گی۔

پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ کرنے کا اعلان، چیف جسٹس آف پاکستان سے ازخود نوٹس لینے کی اپیل

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں جمع ہونے والے مظاہرین کے خلاف آپریشن کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فی الحال اپنے احتجاج کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔پی ٹی آئی کی جانب سے منگل کو رات گئے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد میں پ±رامن احتجاج کے شرکا کے خلاف وحشت و بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔‘بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’سرکاری مشینری کی گولیوں سے درجنوں نہتے بے گناہ کارکنوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا، جن میں سے آٹھ کے کوائف اب تک ہمارے پاس آ چکے ہیں۔‘ تاہم یاد رہے کہ حکومت نے اب تک لگ بھگ 500 مظاہرین کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے تاہم زخمیوں یا ہلاکتوں کی کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔

پی ٹی آئی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہوئے وزیراعظم، وزیر داخلہ اور اسلام آباد اور پنجاب کے انسپیکٹرز جنرل کے خلاف کارروائی کے احکامات دینے کی اپیل بھی کی ہے۔واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بھی حکومت کی جانب سے ممکنہ آپریشن کے حوالے سے اپنے خدشات کا ذکر کیا تھا۔منگل کے روز بیرسٹر سیف نے کہا تھا کہ ’میڈیا پر ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت آج رات پی ٹی آئی مظاہرین پر کریک ڈاو¿ن کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو مزید جانیں جائیں گی۔‘انھوں نے کہا تھا کہ ’تشدد، ضد اور ہٹ دھرمی حل نہیں، بیٹھ کر مذاکرات سے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔

حکومت کی رات گئے پی ٹی آئی کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ کی تصدیق: ’ہمیں صرف ٹھیک وقت کا انتظار تھا‘

تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے ڈی چوک پر دھرنا دیے جانے کے اعلان کے بعد منگل کی رات مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی خبریں سامنے آنے لگیں جس کے بعد متعدد حکومتی وزار نے بھی اِس کی تصدیق کی۔وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اطلاعات تھیں، اسی لیے رینجرز اور پولیس نے مظاہرین میں شامل سنگین مجرموں کے خلاف آپریشن کیا۔

رانا ثنا اللہ نے یہ بھی کہا کہ رینجرز اور پولیس کے آپریشن کے دوران بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔دوسری طرف پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے ڈی چوک پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بشری بی بی اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ابھی تک مفرور ہیں۔‘ تاہم بلیو ایریا کو مظاہرین سے کیسے خالی کرایا گیا، وزیرِداخلہ نے اس بارے میں کسی قسم کی وضاحت نہیں کی لیکن انھوں نے کہا کہ امید ہے ’بدھ (آج) سے حالات معمول پر آ جائیں گے۔‘

محسن نقوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امید ہے کل نیا دن، نئی سوچ کے ساتھ طلوع ہو گا۔وزیرِ داخلہ کی طرح وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی اس بارے میں کسی قسم کی وضاحت نہیں کی تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ ہماری کامیابی ہے کہ امن لوٹ آیا اور راستے کھل گئے ہیں۔‘ڈی چوک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’لوگ کہتے تھے آپ سختی نہیں کرتے مگر ہم ان کو لاشیں نہیں دینا چاہتے تھے، ہمیں صرف ٹھیک وقت کا انتظار تھا۔ وزیرِ داخلہ مسلسل مانیٹرینگ کر رہے تھے اور ٹھیک وقت کا انتظار کر رہے تھے۔‘

منگل کے روز اسلام آباد میں کیا ہوا؟

عمران خان کی رہائی کا مطالبہ لیے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی قیادت میں منگل کے روز اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے تھے۔اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مطالبات کی منظوری تک ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کیا تھا۔

منگل کی سہ پہر اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے والا تحریک انصاف کا یہ قافلہ اتوار کے روز پشاور سے روانہ ہوا تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاجی قافلے میں شامل کارکنان کی قانون نافد کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے جھڑپوں کا سلسلہ منگل کو دن بھر جاری رہا تھا۔جہاں ایک جانب پولیس کی جانب سے آنسو گیس استعمال کی گئی تو مظاہرین نے ا±ن پر پتھراو¿ کیا۔پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منگل کے دن خاصی کشیدگی رہی تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے دھرنے کے اعلان کے بعد تمام گہما گہمی کا مرکز صرف ڈی چوک بن گیا تھا۔

Popular Categories

spot_imgspot_img