مقابلہ دلچسپ ۔۔۔۔

مقابلہ دلچسپ ۔۔۔۔

ملک کے نصف حصے میں اگر چہ لوک سبھا انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے اور ملک کی نصف آبادی نے ملک میں نئی حکومت کے قیام کے لئے اپنے اپنے من پسند اُمیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے اور اس طرح اُن کی سیاسی تقدیر کو ووٹنگ مشینوں میں قید کیا ۔تاہم وادی کشمیر میں سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ؟یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ الیکشن کا بگل بجتے ہی تمام سیا سی جماعتوں نے اپنی انتخابی مُہم کچھ اس طرح چلائی ہے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ کو ن سی سیاسی جماعت ان انتخابات میں بازی مارے گی۔سرینگر پارلیمانی نشست میں جہاں تین اہم جماعتوں این سی،پی ڈی پی اور اپنی پارٹی کے اُمیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے جارہا ہے، وہیں اننت ناگ اور بارہمولہ کے انتخابی حلقوں میں دو طرفہ مقابلہ نظر آرہا ہے۔

سیاسی پنڈتوں کی اگر مانی جائے تو بارہمولہ انتخابی حلقے میں این سی اور پی سی کے درمیان دو طرفہ مقابلہ ہو رہا ہے۔ اگر چہ اس حلقے میں عوامی اتحاد کے انجینئر رشید نے بھی کاغذات ِ نامزدگی داخل کئے ہیں، لیکن عام ووٹر یہ باتیں بھی کر رہے ہیں جو بندہ گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل قید میں ہیں، وہ بھلا اپنے ووٹروں کی کیا مدد کرسکتا ہے ۔جہاں تک اننت ناگ پارلیمانی حلقے کا تعلق ہے، یہاں پی ڈی پی اور این سی کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے جبکہ اپنی پارٹی کا اُمیدوار زیادہ تر نقصان این سی کا ہی کرسکتا ہے کیونکہ اُن کے پاس زیادہ تر پہاڑی ووٹ بینک فی الحال موجود ہے۔ تاہم مقابلہ کافی زیادہ دلچسپ ہو گا اور جو بھی اُمید وار کامیاب ہو گا، وہ کافی کم ووٹوں سے اپنی جیت درج کر سکتا ہے۔جہاں تک سرینگر کی نشست کا تعلق ہے یہاں تکونی مقابلہ نظر آرہا ہے، گاندربل میں شیخ اشفاق جبار کی نو زائد پارٹی جموں کشمیر یونائٹیڈمومنٹ نے اپنی پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی ۔اس وجہ سے اشفاق جبار کی پارٹی، این سی کو کسی حد تک نقصان پہنچائے گی جبکہ حکیم محمد یاسین کا ذاتی ووٹ بھی اسی پارٹی یعنی این سی کو نقصان سے دو چار کرے گا کیونکہ انہوں نے پی ڈی پی کے اُمید وار کی حمایت کر کے سیاسی پنڈتوں کو پھر ایک بار سوچنے پر مجبور کیا، کہ پلڑا بھا ری کس کا رہے گا؟۔بہر حال سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر زبر دست زور آزمائی کر رہی ہیں کیونکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات کے دوران موجودہ انتخابات کا ہی اثر رہے گا۔ کامیاب پارٹیوں کے اُمیدواروں اور اُنکے ووٹروں اور ورکروں کے حوصلے بلند ہوں گے اور وہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اچھی خاصی دلچسپی لیں گے ۔ دل و جان سے اپنے اُمید واروں کی کامیابی کے لئے محنت کریں گے ۔لوک سبھا کے ان انتخابات میں کس کی جیت ہوگی اور کس کی ہا ر؟ ، تاہم ایک بات صاف نظر آرہی ہے کہ جس وادی میں گزشتہ تین دہائیوں سے لوگ جمہوری عمل سے دور تھے، آج وہ کھل کر سامنے آرہے ہیں اور بنا کسی خوف و ڈر کے اس جمہوری عمل کے لئے دن رات مہم چلا رہے ہیں جو واقعی ایک قابل قدر قدم ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.