جمہوری عمل پر اعتماد۔۔۔۔

جمہوری عمل پر اعتماد۔۔۔۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں کشمیر میں بھی انتخابی گہماگہمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈران اپنے اپنے اُمید واروں کے حق میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ووٹران کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔1987کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب وادی میں اس طرح کی انتخابی گہماگہمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور سبھی اُمیدوار شہر و دیہات میں بنا کسی خوف و ڈر کے گھر گھر جا کر مُہم چلا رہے ہیں۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جب بھی وادی میں انتخابات ہوئے ،خواہ وہ پارلیمنٹ کے تھے یا اسمبلی کے ہو یا پھر بلدیاتی۔ اس طرح کی گہماگہمی آج تک کھبی بھی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ اُن دنوں عام لوگ انتخابی عمل کو شجر ممنوعہ سمجھتے تھے اور ووٹ ڈالنے کو گناہ ِ عظیم تصور کرتے تھے۔اس کے برعکس آج کل مین اسٹریم کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی انتخابی عمل میں براہ راست اور درپردہ طور پر شامل ہو چکے ہیں ،جو ہمیشہ بائیکاٹ کے ساتھ رہتے تھے۔جموں کشمیر میں موجودہ پارلیمانی انتخابا ت کون جیتتا ہے اور کس اُمید وار کے حق میں عام لوگ اپنا فیصلہ سُناتے ہیں، یہ ایک الگ سوال ہے لیکن جہاں تک موجودہ انتخابی گہما گہمی کا تعلق ہے ،وہ ملک کی خوشحالی اور یہاں کے عوام کی تیز تر ترقی کی نوید لیکر آئے گی اور آنے والے اسمبلی انتخابات کے لئے یہ ایک اہم قدم تصور کیا جارہا ہے ۔

یہ پہلا موقع ہے، جب تین دہائیوںکے بعد شہر خاص کے مختلف علاقوں میں نوجوان دن دھاڑے اپنے اپنے اُمیدوارں کے پوسٹر،بینر اور پارٹیوں کے جھنڈے بنا کسی خوف و ڈر کے لگا رہے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کی اس گہما گہمی سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ وادی کے لوگ اب جمہوری عمل پر یقین کرنے لگے ہیں اور انہیں ان باتوں کابخوبی علم ہو چکا ہے کہ خون خرابے اور تشدد سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ہے، بلکہ وہ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ کوئی بھی لڑائی جمہوری سانچے میں ہی لڑی جاسکتی ہے۔ جہاں تک جموں کشمیر میں موجود علحیدگی پسند سوچ کا تعلق ہے، اُن کی سوچ بھی بدلی بدلی سی نظر آرہی ہے۔

آنے والے وقت میں شاید وہ بھی انتخابی سیاست میں کو د جائیں گے اور لوگوں کے مسائل و مشکلات اور اُن کے حقوق کی بحالی کے لئے جمہوری طرز پر لڑائی لڑیں گے جو کہ ایک مثبت سوچ کی عکاسی ہے ۔جہاں تک نوجوان نسل کا تعلق ہے ،وہ بھی اب اس مثبت سوچ کو ہی اپنا کر سیاسی میدان میں آرہے ہیں، اس کا عندیہ یہاں سے بخوبی ملتا ہے کہ موجودہ پارلیمانی انتخابات میں درجنوںاُمید وار اپنی سیاسی قسمت آزمانے کے لئے میدان میں آچکے ہیں جبکہ پہلے ایام میں چند ایک پارٹیوں کے علاوہ کوئی بھی انتخابی عمل میں آنے سے پرہیز کرتاتھا۔مرکز میں بیٹھے پالیسی سازوں کو ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اُن لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہیے، جو عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے جمہوری عمل میں سرگرم عمل ہیں یا ہونے کی چاہت رکھتے ہیںتاکہ نئی نسل کے لئے راستہ ہموار ہو سکے اور روایتی سیاسست سے نجات مل سکے ،جو بنیادی لڑائی تصور کی جاتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.