پنچایت گھر میں پنچایت ممبران کے لئے جگہ نہیں

پنچایت گھر میں پنچایت ممبران کے لئے جگہ نہیں

شازیہ اختر شاہ

 منڈی،پونچھ جموں

جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی یعنی پانچ اگست 2019 کے بعد پہلی مرتبہ مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر میں پنچایتی راج اداروں کو مستحکم بنانے کے لیے انتخابات منعقد کیے۔ جموں کشمیر میں پہلی مرتبہ پنچایتی انتخابات منعقد کیے گئے اور حکومت نے اُس وقت اعلان کیا تھا کہ پنچایتی راج اداروں کو مستحکم بنانے کے حوالہ سے مرکزی سرکار کافی سنجیدہ ہے۔ پنچایتی اداروں کے نمائندوں کی جانب سے آئے روز احتجاج اور شکایتیں کی جا رہی ہیں کہ انہیں اختیارات نہیں دئے جا رہے وہیں پنچایت گھروں، دفاتر کے لئے منتخب یا تعمیر شدہ عمارتیں بھی اپنی خستہ حالی خود بیاں کر رہی ہیں۔ جموں و کشمیر کے تقریباً سبھی اضلاع میں بیشتر پنچایت گھر غیر فعال اور ویران پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت نے ان پنچایت گھروں کو تعمیر کرنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں تاہم جموں و کشمیر میں بعض پنچایت گھر نذر آتش کیے گئے وہیں اکثر خستہ حالی کے شکار ہو چکے ہیں۔جموں وکشمیر کے طول و ارض سے پنچایت گھروں کی خستہ حالی کے خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں، تاہم انتظامیہ کی جانب سے پنچایتی اداروں کو مستحکم کرنے کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود خستہ حال پنچایت گھروں کی شان رفتہ بحال کرنے کے حوالہ سے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہیں۔ وہیں منتخب پنچایت ممبران یا تو سرکاری اسکولوں میں یا پھر کسی ممبر یا رضا کے گھر میں میٹنگ کا انعقاد کرتے ہیں۔


ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک لورن کی سب سے دور دراز اور پچھڑی ہوئی پنچائیت چکھڑی بن کے پنچائیت گھر کو تعمیر ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ 2004 میں پنچائیت گھر تعمیر ہواتھا مگر ابھی تک اس پر تالا لگا ہوا ہے۔ ایک کمرہ براے نام پنچائیت کے پاس ہے۔ باقی کمروں میں مالک زمین نے اپناگھریلو سازو سامان رکھ کر تالا لگایاہواہے۔مقامی ممبران پنچائیت کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئی بھی پنچائیت میٹنگ یا گرام سبھا کسی کے گھر یا کھلے اسمان تلے کرنی پڑتی ہے۔ زمیں مالکان نے پنچائیت گھر کو تالا لگا کے رکھا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کئی بار یہ مدعاانتظامیہ  تک پہونچایا مگر آج تک کوئی بھی حل نہیں نکلا۔ اس حوالے سے محمد حسین پنچ وارڑ نمبر 4 عمر 55 سال، ان کا کہنا ہے کہ پنچائیت گھر بند ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب بھی کوئی پنچائیت میٹینگ ہو تی ہے تو پنچائیت گھر بند ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے ہمیں کسی کے گھر یا کسی اسکول میں میٹینگ کرنی پڑتی ہے کیونکہ اس پر زمین مالکان نے اپناتالا لگا رکھا ہے۔ زمین مالک کا کہنا ہے کے میری زمین پر پنچائت گھر بنانے کے لئے مجھے جو رقم دینی طے ہوئی تھی۔ابھی آدھی رقم ہی وصول ہوئی ہے اور آدھی بقایہ ہے۔ جب میری پوری رقم وصول ہو جائے گی تو میں پنچائیت گھر کا تالا کھول دو گا۔ اسلئے گزارش ہے کے ان کے ساتھ کئے گے وعدہ کوپورا کیا جائے تاکہ ہمارے پنچائیت گھر کا تالا کھل سکے۔ وہیں چکھڑی بن کی نائب سرپنچ نیبات فاطمہ بی کا کہنا ہے کے ہماری پنچائیت 9 وارڑوں پر مشتمل ہے بہت بڑی پنچائیت ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کے پنچائیت گھر کو تعمیرکئے ہوئے سال ہوگئے لیکن ابھی تک اسے تالا لگا ُہوا ہے۔ کئی سالوں سے یہ بند پڑا ہے۔ پنچائیت گھر بند ہونے کی وجہ سے ہمیں بہت سی دشواریاں دیکھنی پڑتی ہیں۔ جب بھی کوئی میٹینگ ہوتو ہمیں کسی کے گھر میں یاکسی اسکول میں کرنی پڑتی ہے۔ کسی کے گھر جاتے ہیں تو وہا جگہ بھی کم پڑ جاتی ہے۔بیک ٹو ویلیج پروگرام جب ہوتا ہے تب زیادہ ہی پریشانی دیکھنی پڑتی ہے۔

پنچائیت کی عوام پنچ،سرپنچ افیسران،ملازمین اور پوری پنچائیت ہوتی ہے۔ اس گاؤں کی غریب عوام کے پاس کہا اتنی جگہ ہے کہ وہ اتنے لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کر سکے ؟ انتظامہ کو چاہئے کہ وہ زمین مالک کے ساتھ انصاف کرے اور ان کی بقایا رقم بھی ادا کر دی جائے تاکہ پنچائت گھر کا تالا کھل سکے۔دوسری طرف جب زمین مالک برکت شاہ جن کی عمر 60 سال ہے،سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ پنچائیت گھر تعمیر کرتے وقت ان سے زمین کے بدلے معاوضہ یا ایک شخص کو نوکری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ نوکری تو نہیں ملی وہیں پوری رقم کا بھی آدھاحصہ ہی مل سکا۔ اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی وعدہ کے مطابق پوری رقم نہیں مل پائی ہے۔ جس کی وجہ سے پنچائیت گھر بندکیاگیاہے۔ جب تک رقم نہیں مل جائے گی تالا کھلنامحال ہے۔اس سلسلے میں سماجی کارکن محمد یاسین شاہ نے کہاکہ پنچائیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ مل بیٹھ کر مشاورت سے کام کیاجائے۔ لیکن یہاں سرکار کی جانب سے لاکھوں کی رقم لگاکر پنچائیت گھر تعمیر ہونے کے باوجود بھی گزشتہ بیس سالوں سے کھل نہیں پایاہے۔سرپنچ حلقہ یاسمین اختر نے کہاکہ  پنچائیت گھر کی تعمیر 2004 میں مکمل ہوئی لیکن ابھی تک پنچائیت گھر مکمل طور پر پنچائیت کو نہیں ملاہے۔  تاحال اس پنچائیت گھر کو پنچائیت کی پوری طرح سپرد نہیں کیاگیاہے۔ صرف ایک کمرہ جس میں چار یا پانچ افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کمروں میں زمین مالک کا سازو سامان ہے اور اس نے اپنے تالے لگارکھے ہیں۔جس کی وجہ سے پنچائیت کے اراکین پریشانیوں سے جہونج رہے ہیں۔ اس دوران تین سرپنچوں میں دور گزر چکے ہیں۔لیکن گرام سبھاء کے لئے پنچائیت گھر کو مالک زمین سے وصول نہیں کیاجاسکاہے۔ اس معاملہ میں انتظامیہ بھی کہیں بے خبر تو کہیں بے بس رہی ہے۔اس سے پہلے بھی اس عمارت کی تعمیر کے لئے رقومات واگزار ہوئی اور اب بھی پانچ لاکھ روپیہ اس پنچائیت گھر کی مرمت اور چاردیوری وغیرہ کے لئے چاہئے۔ جبکہ مالک زمین ٹھیکدار کو کام ہی نہیں لگانے دیتاہے۔


اس حوالے سے بلاک ڈولپمنٹ آفیسر لورن سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھاکہ زمین مالک نے پنچائیت گھر کو تالا لگایاہواہے۔ وہ کچھ اپنی بقایارقم طلب کررہاہے۔ جس کے لئے پنچائیت سیکرٹری کو بول دیا گیا ہے کہ وہ مالک زمین سے بات کریں اور اگر اس کے پاس کچھ کاغزات وغیرہ موجود ہیں۔وہ ہمارے دفتر میں لائے ہم ان کو اعلی افیسران تک پہنچائیں گے تاکہ اس معاملہ کو حل کیاجاسکے۔جبکہ پنچائیت سیکرٹری نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہے کہاکہ مالک زمین رقم طلب کررہاہے۔ جبکہ محکمہ اس کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔ جہاں چند افراد کی انفرادی مفاد پرستی پورے علاقع کی عوام کی ترقی اورخوشحالی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ دیہی علاقوں میں ترقی کسیے ممکن ہوگی؟ انتظامیہ کس طرح ان دوردراز علاقوں کی خوشحالی کیلئے کام کرپاے گی؟ جہاں ایک پنچائیت گھر بیس سالوں سے کھل نہیں پایا وہی دیگر شعبوں کی ترقی کا کیا حال ہوگا؟ کب دیہی عوام میں اپنے علاقع کی ترقی کا شعور بیدار ہوگا؟ دیہی علاقوں کی ترقی تب تک ممکن ہی نہیں جب تک کہ عوام میں تعلیمی بیداری نہ ہو۔ اپنے زاتی حقوق پر اجتماعی حقوق کو ترجیح نہ دی جاے۔ انتظامیہ کو بیدار کرنے کے لئے عوام کا متحد ہونا از حد ضروری ہے۔ اگر آج بھی ہم زات پات قوم اور زاتی مفاد پرستی میں بٹے رہے تو سیاسی لوگ یونہی استحصال کرتے رہیں گے۔اور انتظامیہ بھی اپناوقت گزار کر ہاں میں ہاں ملاکر چلتی رہے گی۔ یوں دیہی عوام کے مسائیل میں اضافہ ہوتاچلاجایگا۔ مقامی چند مفاد پرست افراد کو بھی علاقع کی ترقی میں رکاوٹ بننے سے پہلے سوچ لیناچاہئے کہ دور ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔بلکہ تمام تر انفرادی مفاد کو بالاے تاک رکھ کر اجتماعی مفاد میں حصہ بنناچاہے۔ انتظامیہ چکھڑی بن کے علاوہ دیگر علاقوں میں سرکاری عمارتوں کو اپنی میراث کے بجاے عوامی میراث تصور کریں۔ تبھی ترقی اور خوشحالی ممکن ہوگی کیوں کہ دیہی علاقوں اکثر سرکاری عمارتوں پر زمین وقف کرنے والوں کا ہی قبضہ ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.