دیہی علاقوں میں تعلیم کا ناقص نظام

دیہی علاقوں میں تعلیم کا ناقص نظام

مرلی کماری

بیکانیر، راجستھان

گزشتہ چند سالوں میں ملک کے دیہی علاقوں نے شہری علاقوں کی طرح کئی سطحوں پر ترقی کی ہے۔ خاص طور پر سڑکوں اور روزگار کے معاملات میں ملک کے دیہات پہلے سے زیادہ تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت گاؤں گاؤں میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیہاتوں میں سیلف ہیلپ گروپس اور چھوٹی صنعتوں کے ذریعے روزگار کے بہت سے راستے کھل گئے ہیں۔ اس میں ریاستی حکومتوں کا کردار بھی قابل ستائش ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے شعبے ایسے ہیں جنہیں ترقی کی ضرورت ہے۔ جس کے بغیر ترقی کے دوسرے دروازے کوکھولنا مشکل ہے۔ اس میں تعلیم اہم ہے۔ ملک میں اب بھی کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں دیہی علاقوں میں تعلیمی نظام بہت خراب ہے۔ جہاں اساتذہ، عمارتوں اور دیگر بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم کی سطح انتہائی قابل رحم ہو جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر لڑکیوں کی تعلیم پر پڑتا ہے۔ راجستھان کے بیکانیر میں لنکرنسر بلاک کا بنجروالی گاؤں ایسے ہی ناقص تعلیمی نظام کی ایک بدترین مثال ہے۔ تقریباً 750 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں 1998 میں ایک مڈل اسکول قائم کیا گیا تھا۔ جسے پانچ سال پہلے کلاس 10 ویں اور دو سال پہلے کلاس 12 ویں میں اپ گریڈ کیا گیا تھا۔ اس سکول میں تقریباً 600 طالب علم ہیں۔ اپ گریڈیشن سے گاؤں کی لڑکیوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ جنہیں گاؤں میں ہی رہ کر تعلیمی مواقع ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں طالبات کی بڑی تعداد ہے۔

تاہم، طلباء کو اپ گریڈیشن سے زیادہ فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ اسکول میں تقریباً کئی طرح کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ لڑکیوں کے لیے نہ تو بیت الخلاء کا مناسب انتظام ہے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا انتظام ہے۔ اس حوالے سے ایک ا سکول کی طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسکول میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کا ہے۔ کئی مضامین کے لیے اساتذہ نہیں ہیں۔ یہاں تعینات اساتذہ کبھی بھی وقت پر نہیں آتے۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول کے زیادہ تر اساتذہ دوسرے بلاکس یا شہروں کے رہائشی ہیں۔ جو ہر روز آتے اور جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ کبھی وقت پرتوا سکول نہیں آتے ہیں لیکن وقت سے پہلے ضرورچلے جاتے ہیں۔ایک اور طالبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس اسکول کی صرف عمارت ہی اچھی ہے، اس کے علاوہ کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ہے۔ والدین نے اسکول میں اساتذہ کی کمی اور ان کے دیر سے آنے اور جلدی جانے کی شکایت اعلیٰ حکام سے کی تھی۔ لیکن آج تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں ہیں۔ اس سے تعلیم کے تئیں ان کے جذبے کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن جب لڑکیاں ا سکول آتی ہیں اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے کلاسز نہیں ہوتیں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ کئی بار اساتذہ صرف کھانا پورتی کرنے کے لیے کلاس میں آتے ہیں۔ آرٹس کے اساتذہ سائنس کے مضامین پڑھانے آتے ہیں۔ ایسے میں وہ کیا پڑھائیں گے؟ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ اسکول میں سیکیورٹی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے کئی بار باہر کے لوگ بھی اسکول کے اندر آجاتے ہیں۔ اساتذہ بھی نہ تو انہیں پہچانتے ہیں اور نہ ہی اندر آنے سے روکتے ہیں کیونکہ وہ خودباہر کے ہوتے ہیں۔ اگر اساتذہ مقامی ہوتے تو وہ گاؤں سے باہر کے لوگوں کی نشاندہی کرکے انہیں اسکول آنے سے روک سکتے ہیں۔

دسویں جماعت کی طالبہ کومل نے بتایا کہ اسکول میں لائبریری تک نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ہم طالبات کو اپنے مضامین کی تیاری میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اسکول تمام طلبہ کو مفت کتابیں فراہم کرتا ہے، لیکن بعض اوقات کچھ کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں ہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے لائبریری سے کتابیں حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے۔ لیکن اسکول میں لائبریری نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچوں کو سال بھر کتابوں کے بغیر پڑھنا پڑتا ہے۔ جس سے ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ایک طالبہ کے والد سیورام کا کہنا ہے کہ گاؤں کے زیادہ تر لوگ زراعت یا یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھیج سکیں۔ ایسے میں وہ بچوں کو صرف گاؤں کے سرکاری اسکول میں بھیجتے ہیں۔ جہاں ان کے بچے سہولیات کی شدید کمی کے باعث تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔وہیں ایک طالبہ کی والدہ یشودا کا کہنا ہے کہ میری بیٹی 9ویں کلاس میں پڑھتی ہے۔ وہ روزانہ اساتذہ کی کمی کی شکایت کرتی ہے۔ لیکن ہم غریب ہیں اس لیے اسے پرائیویٹ اسکول نہیں بھیج سکتے۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہے۔ اسی کمی کے درمیان ہی گاؤں کی زیادہ تر لڑکیوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔

اس سلسلے میں گاؤں کے سماجی کارکن آیوشیہ کا کہنا ہے کہ بنجروالی سماجی اور اقتصادی طور پر بہت پسماندہ گاؤں ہے۔ گاؤں میں جہاں روزگار کی کمی ہے وہیں صنفی امتیاز بھی نظر آتا ہے۔ یہاں کے والدین لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کو تعلیم دینے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کی زیادہ تر لڑکیاں سرکاری اسکولوں میں پڑھتی ہیں، مالی طور پر مضبوط والدین اپنے لڑکوں کو اچھی تعلیم دلانے کے لیے نجی اسکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا فضول سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لڑکیوں کی یا تو بارہویں کے بعد شادی ہو جاتی ہے یا وہ تعلیم سے دوررہتی ہیں۔ کورونا کے بعد اس معاملے میں اوربھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درحقیقت اس کی ایک وجہ جہاں والدین میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بیداری کی کمی ہے تو وہیں دوسری جانب اس کے لیے تعلیم کا ناقص نظام بھی ذمہ دار ہے۔ جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.