افسانچہ________محنت

افسانچہ________محنت
ہلال بخاری
  اس دنیا میں ایک انسان کو سمجھنا کتنا کٹھن کام ہے۔ تبسم بخاری میری شریک حیات ہے۔ ہم اب تقریبا دس سال سے ایک ساتھ جی رہے ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ میں آج بھی اس کے دل میں چھپے نئے نئے گوشوں کو دریافت کررہا ہوں۔ شاید بہت سے ایسے اہم راز ہیں جو ابھی بھی افشاں ہونے باقی ہیں۔
وہ ابتدا سے ہی محنت کی شوقین رہی ہے۔ مجھے اکثر اسکا وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے محنت کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ میرے خیال میں وہ اکثر دس روپے کی چیزوں کے لئے بھی ہزار روپے کی محنت کرتی ہے۔
ایک دن ہم کسی کام سے باغ میں گئے تھے۔ دراصل اس عورت کی صحبت کی وجہ سے میں بھی باغوں میں کام کرنے لگا تھا۔ پہلے پہلے میں ایسے کاموں سے بہت چڑ جایا کرتا تھا۔ مجھے کبھی کبھی یہ بھی لگتا تھا کہ وہ لالچی ہے۔ مگر اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ میں ہی غلط تھا۔
وہاں مٹی میں ایک چھوٹے سے پودے کو  ضائع ہونے سے بچانے کے لئے وہ دیر تک کوشش کرتی رہی۔ یہ دیکھ کر میں نے حیرت سے پوچھا،
” اس چھوٹے سے پودے پر اتنی محنت کی کیا ضرورت ہے ؟ اسکی اتنی بھی کیا قیمت ہوگی ؟ "
یہ سن کر اس نے مسکرا کر کہا،
"اس کی قیمت زندگی ہے۔ "
میں نے پورا سمجھنے کے بغیر ہی کہا،
” اس کی عمر ہی کیا ہے ؟”
” میں سمجھتی ہوں کہ زندگی کا ہر لمحہ بے قیمت ہے، چاہے وہ ہماری زندگی ہو یا کسی بھی جاندار کی۔”
اس نے متفکر ہونے کے انداز میں کہا۔ میں اسکی بات کو غور سے سمجھنے کی کوشش‌ کرنے لگا۔ اس میں مجھے ایک پر کشش سچائی کا اثر محسوس ہوا۔ اس کو لگا کہ مجھ پر اسکی باتوں کا اثر ہوا ہے۔ اس لئے اس نے جاری رکھنے کے انداز میں کہا،
  "ہر زندگی کی ایک جیسی قیمت ہے، جتنی چھوٹی ہوگی ہے اتنا ہی ہر لحمے کی قیمت بھی زیادہ ہوگی۔ اور شاید ان جانوروں اور پیڑ پودوں کو بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے اسی لئے وہ ہر حال میں جینے کے لئے لڑتے رہتے ہیں۔”
میں نے ان باتوں پر غور کرنے کے بعد سمجھ لیا کہ تبسم کے دل سے کچھ اور قیمتی اسرار حاصل کئے جاسکتے ہیں، اس لئے میں نے پوچھا،
” مگر تم بے جان چیزوں پر بھی انتھک محنت کرتی ہو ! "
یہ سن کر اس نے مسکرا کر جواب دیا،
"محنت اس دنیا کی سب سے خوبصورت اور اٹل  سچائی ہے۔ میں محنت کو کسی اور نتیجے کے لئے ایک سعی سے ذیادہ خود ایک بہترین نعمت مان کر کرتی ہوں۔”
اسکی یہ بات سن کر مجھے وہ برسوں پرانی اور بھولی بسری بات یاد آگئی جو اس وقت کے ایک دانا نے مجھ سے کہی تھی،
” بیٹا حضرت آدم نے خود ہی عیش و آرام کو ترک کرکے محنت کو اپنایا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں محنت ہی زندگی کا اصل مقصود ہے عیش و عشرت نہیں۔”
اس شام جب میں تبسم کے ساتھ واپس کو گھر کو لوٹ رہا تھا تو مجھے اس بات کا اندازہ ہونے لگا کہ اکثر دانائی کے ماخذ ہمارے آس پاس ہی ہوتے ہیں مگر ہم اکثر  اس سچائی سے بے خبر رہتے ہیں۔
نوٹ:اس مضمون کا ادارہ ایشین میل کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.