بھارت کا منصوبہ : کشمیر سے اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور کادفاتر خالی کرانے کا امکان

 

 

 

 

آر سی گنجو

جموں و کشمیر( یونین ٹیریٹری )میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (یو این ایم او جی آئی پی) کے دفتر کو بند کرنے پر قیاس آرائیاں کی جاری ہیں۔تکنیکی طور پر جموں و کشمیر1947 سے ہندوستان کا اٹوٹ انگ تھا جیسا کہ جموں و کشمیر کے آئین میں ذکر کیا گیا ہے’ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی یونین کا اٹوٹ حصہ ہے اور رہے گی۔‘ دفعہ370 اور35 اے کی منسوخی کے ساتھ اب جموں و کشمیر کے ریاستی آئین کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کو دی گئی یونین ٹیریٹری کی موجودہ حیثیت نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔

5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے اور اسے یونین ٹیریٹری کا درجہ دینے کے بعدعالمی برادری کی طرف سے شاید ہی کوئی ناراضگی ظاہر ہوئی ہو۔ بیشتر ممالک نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔عالمی سطح پر بدلتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ ہندوستان نے بھی اپنی منزل ومقام کو بہت بلند کر لیا ہے۔ بی جے پی کی قیادت میں’ این ڈی اے‘ کی مرکزی حکومت نے کشمیر کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کے بعد ہندوستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفاتر کو خالی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جو بنیادی طور پر جموں و کشمیر میں تعینات ہے۔1971کی بھارت۔پاکستان جنگ کے بعد، دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی وضاحت کے لیے 1972 میں شملہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

بھارت اور پاکستان کشمیر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (یو این ایم او جی آئی پی) کے مینڈیٹ پر متفق نہیں ہیں کیونکہ بھارت نے دلیل دی کہ شملہ معاہدے کے بعد (یو این ایم او جی آئی پی) کا مینڈیٹ ختم ہو گیا ہے، کیونکہ یہ خاص طور پر کراچی معاہدے کے مطابق جنگ بندی کی پابندی یا پاسداری کے لیے قائم کیا گیا تھا۔1947 میں اپنے وجود کے بعد سے (یو این ایم او جی آئی پی) بتدریج مبصر کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کا اختیار کھو چکا ہے جس کے لیے انہیں کشمیر کے دونوں حصوں میں متعارف کرایا گیا تھا۔

اگست 1947 میں ہندوستان اور پاکستان آزاد ہوئے۔ ہندوستانی آزادی ایکٹ 1947 کے ذریعہ فراہم کردہ تقسیم کی اسکیم کے تحت، کشمیر ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے آزاد تھا۔ اس کا ہندوستان سے الحاق دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کا معاملہ بن گیا اور اسی سال کے آخر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ جنوری 1948 میں سلامتی کونسل نے تنازعہ کی تحقیقات اور ثالثی کے لیے اقوام متحدہ کا کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان (یو این سی آئی پی) قائم کیا۔ اپریل 1948 میں کونسل نے ( یو این سی آئی پی) کی رکنیت کو بڑھانے اور لڑائی کو روکنے کے لیے مبصرین کے استعمال سمیت مختلف اقدامات کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا۔ جولائی 1949 میں ہندوستان اور پاکستان نے کراچی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت فوجی مبصرین کی نگرانی میں جنگ بندی لائن قائم کی گئی۔30 مارچ1951 کو ملٹری ایڈوائزر کی کمان میں( یو این سی آئی پی ) کے خاتمے کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (یو این ایم او جی آئی پی)کا مرکز بنایا۔ (یو این ایم او جی آئی پی) کا کام مشاہدہ کرنا اور رپورٹ کرنا، جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی چھان بین کرنا اور اس کے نتائج ہر فریق اور سیکرٹری جنرل کو پیش کرنا تھا۔

مرکزی وزارت داخلہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔2021 میں670 خلاف ورزیوں کے واقعات پیش آئے،2020 میں5ہزار133 اور2019 میں3ہزار479 جنگ بندی خلاف ورزیوں کے واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ 2020 میں5ہزار100 خلاف ورزیاں، اس سال جموں و کشمیر میں سرحد پر ہونے والی خلاف ورزیوں اور ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں سب سے کم تھی۔

Soldier, 2 Civilians Martyred In Indian CFV At LoC: ISPR | Regional Telegraph

امریکہ میں مقیم کشمیر گلوبل کونسل (کے جی سی) کے ڈائریکٹر الطاف قادری نے کشمیر سے یو این ایم او جی آئی پی کے دفاتر کو ہٹائے جانے پر، احتراض کرتے ہوئے اس صحافی کو بتایا کہ’ہم سمجھتے ہیں کہ ان دفاتر کو رکھنے یا نہ رکھنے میں کشمیریوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر پاکستان کے لیے ہے کہ وہ ان دفاتر کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور اگر وہ یہ نہیں کر سکتے تو بے بس کشمیری کیسے کر سکتے ہیں؟۔‘امریکہ میں قائم کشمیر گلوبل کونسل (کے جی سی) کی بنیاد ستمبر2016 میں امریکہ میں رکھی گئی تھی اور اس کے سربراہ فاروق صدیقی عرف فاروق پاپا کینیڈا کے اونٹاریو میں تھے۔ اگرچہ( کے جی سی ) جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) سے الگ کیا گیا ہے لیکنجے کے ایل ایف کے نظریہ کو ایک طرف چھوڑ کر ۔ حق خود ارادیت، اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد اور کوئی رائے شماری نہیں،آج (کے جی سی) کا واحد مقصد کشمیر سینیٹ کی تشکیل کو آگے بڑھانا اور ہندوستان، پاکستان اور بین الاقوامی شراکت داروں کو شامل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

الطاف قادری کے مطابق، ’ہم نے جلاوطنی میں جموں کشمیر سینیٹ کی تجویز دی ہے جس میں سابقہ جموں و کشمیر کی پانچ اکائیوں (جموں، کشمیر، لداخ، پی او کے اور جی بی(گلگت بلتستان) کی اہم شخصیات شرکت کریں گی جو کہ ا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے یک گاڑی ہوگی۔ اس سلسلے میں امریکہ اور کینیڈا میں’کشمیر گلوبل کانفرنس‘ کو فعال کر دیا گیا ہے جہاں مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی جائے گی تاکہ جموں و کشمیر کے پانچوں حصوں میں ہندوستان اور پاکستان کی افواج کے انخلاءکے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ ‘

کے جی سی کی منصوبہ بندی پر مزید وضاحت کرتے ہوئے قادری نے کہا کہ ’اسٹیٹس کو(پرانا نظام ) کو توڑنے کے لیے تمام جماعتوں کو لچک دکھانی ہوگی اور ریاست بھر میں” سینیٹ “کی تشکیل کے لیے سیاسی جگہ کو بڑھانا ہوگا اور” سینیٹ “کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ بھارت کشمیر کے اندر سینیٹ الگ سے بات چیت کرے گا اور پاکستان پی او کے سینیٹ کے ساتھ الگ سے مشغول ہو سکتا ہے۔ کچھ مفاہمت کے بعدہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ایک گرینڈمشترکہ میٹنگ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پاکستانی فوج کے پاس یا تو وہ ذہنی اوزار نہیں ہے کہ وہ کسی مسئلے (کشمیر اور افغانستان) کو حل کر سکے یا پھر ملکی سیاسی وجوہات کی بنا پر جان بوجھ کر مسئلے کو زندہ رکھے۔‘

جب قادری سے چند کشمیریوں نے پوچھا کہ انہوں نے اس پر بین الاقوامی سطح پر کچھ کیوں نہیں کیا؟ ان کا جواب تھا کہ ’ہم پاکستان کے لیے پروپیگنڈا کرنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ قراردادوں کے دونوں تعمیر کنندگان نے تاشقند، شملہ، لاہور، آگرہ میں اور ہزاروں بار خفیہ طور پر اپنے وعدوں کو نظر انداز کیا ، بشمول آرٹیکل 370 اور35 اے کی منسوخی سے بھی اپنے وعدوں کا انحراف کیا۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کچھ خفیہ معاہدے” بنکاک، دبئی، قطر یا نیپال میں زیر عمل ہو سکتے ہیں۔ قادری کی تردید اس وقت زیادہ چونکا دینے والی تھی جب انہوں نے ایک مخصوص حلقے کے خلاف جوابی دلیلیں پیش کیں “کیا ہمیں یاد نہیں کہ پاکستانی فوج نے کشمیریوں کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے اور اپنے لڑکوں کو بھارتی گولیوں کا نشانہ بنانے کو کہا تھا؟ چند ماہ بعد ہی پاکستانی فوج نے بھارت کو سو سالہ امن معاہدے کی پیشکش کی جس پر بھارت نے توجہ بھی نہیں دی۔ کوئی ایسا بیوقوف کیسے ہو سکتا ہے جو اسے نہ سمجھے۔ یہ واقعات کشمیریوں کے لیے ایک بیداری کی کال ہیں۔ ان کو نظر انداز کرنا ان کی ایک اور نسل کو مہنگا پڑے گا۔ مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے پیشروو¿ں کی جہالت نے موجودہ نسل کو زبردست مصائب اور تکلیف دی ہے۔ آئیے بدعنوانی کے لیے اسے نہ دہرائیں اور حل کے امکانات کو مزید پیچیدہ نہ کریں۔‘

تحریر:آر سی گنجو
09971500268
نوٹ :ادارہ ایشین میل کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے اور تحقیق ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.