قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن۔َ(الانعام: ۱۶۲)
ترجمہ: کہو، میری نماز، میری تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرناسب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی عید کے دو ہی دن پسند فرمائے ہیں:
ایک ’’عید الفطر‘‘ جو رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے جب لوگ ایک مہینے کے روزے رکھ کر فارغ ہوتے ہیں
دوسری ’’عید االاضحی‘‘ جو حج کے اگلے دن منائی جاتی ہے جب سارے حاجی منیٰ میں قربانی کرتے ہیں، اور اس سے ایک دن پہلے عرفات کے میدان میں جمع ہوکر اپنے حج کو مکمل کرتے ہیں۔
تہوار اور عید کسی قوم کے لیے جشن اور خوشی کا دن اس لیے ہوتا ہے کہ اس دن ان کی زندگی یا قوم کی تاریخ میں کوئی ایسا دن آیا ہوتا ہے جس کے ساتھ ان کی قوم کا، تاریخ کا، اللہ کے احسانات کا رشتہ بندھا ہوا ہوتا ہے۔ مثلاً عیسائی لوگ کرسمس عید کے طور پر مناتے ہیں وہ اس لیے کہ حضرت عیسیؑ ٰ کی پیدائش کا دن تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس دن حضرت عیسیؑ ٰ نے صلیب پر چڑھ کر اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کیا، حضرت عیسیؑ ٰ پر ایمان لانے سے ان کی بخشش اور نجات ہوگی۔
اسی طرح یہودی اُن کے عقیدے کے مطابق اس دن عید مناتے ہیں جس دن اللہ نے ان کو فرعون سے نجات دی، دریائے نیل کو پھاڑدیا، ان کی قومی زندگی میں یہ دن اللہ کی بشارت اور اللہ کے انعامات اور اللہ کے احسان کا یادگار دن ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عید کے دونوں دنوں کو قرآن مجید اور ہدایت کی نعمت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔
شَہْرُ رَمْضَانَ الَّذِیَ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن۔ُ (البقرہ: ۱۸۵)
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔
جس میں روشنی بھی ہے، رہنمائی بھی، اور سارے انسانوں کے لیے ہدایت بھی ہے۔ عید الفطر کا دن نزول قرآن کی سالگرہ کا جشن ہے۔اور عید الاضحی سے ایک دن پہلے عرفہ کے روز اللہ تعالیٰ نے اپنا فرمان نازل کیا۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا۔ (مائدہ: ۵۳)
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے، تمہارے دین کو مکمل کردیا، تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند فرمایا۔
اس عید کے دن اللہ تعالیٰ کے احسان پر شکر کی ادائیگی بھی شامل ہے کہ اس نے ہمارے اوپر دین کو مکمل فرمایا، ہدایت کی نعمت، اپنی سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا فرمائی اور ہمارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایا۔
دونوں عیدوں کا خدا کی نعمتوں سے گہرا تعلق ہے۔ رمضان سے تقویٰ، صبر، ہمدردی، ڈسپلن، ضبط نفس پیدا ہوتا ہے اور عید قرباں اپنے آپ کو منانے، اپنے دین پر مکمل عمل کرنے، اور قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتی ہے۔
ہر سال ہمارے درمیان عید قرباں کے تاریخی ایام آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے آج بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ اس کی حقیقت کو جانیں اور سمجھیں کہ اس میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں کہ اس دن کو قیامت تک کے لیے یادگار قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی وہ ایثار و قربانی اور حصولِ رضائے الٰہی کا وہ جذبہ ہی تھا جس کی بنیاد پر ابراہیم ؑ نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب وگیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لختِ جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔ اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے جس کی مثال آج تک کوئی قوم پیش نہیں کرسکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندۂ مومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہیے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں ہمارے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے بھی یہی اقرار کیا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے، اور اس کے حکم کے سامنے نہ اپنے دل کی بات مانیں گے اور نہ کسی دوسرے کی خواہش کی پرواہ کریں گے۔
ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردیں گے، تاکہ اختلاف، انتشار بغض و حسد، کبر و غرور، عناد و دشمنی، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بنیں بلکہ عظمت و بلندی کا جو معیار قرآن مجید نے بتایا ہے، اسے ہم اپنی زندگی میں سجا بسا لیں۔ ذات برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خدا کی عبادت و بندگی کی فضا قائم کریں۔
اس عید کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی انسان محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس روح سے خالی رہتا ہے جو قربانی میں مطلوب ہے، تو وہ ایک ناحق جاندار کا خون بہاتا ہے۔
دور جاہلیت میں لوگ قربانی کرکے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لاکر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ خدا کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں،
’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
خدا کو گوشت اور خون کی کوئی حاجت نہیں وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو انسان کلمہ لا اِلٰہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندہ حق بن کر رہے۔ کوئی ذاتی دلچسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی ذاتی دباؤ، کوئی لالچ، خوف اور نقصان غرض کوئی اندر کی کمزوری یا باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہر تعلق کو قربا ن کردینا آسان ہو، مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے۔
عید الاضحی پر جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے جانوروں کو جب ہم اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں تو اپنے اس ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں کہ ہماری جان اور ہمارا مال سب کچھ اللہ کا ہے، اور وقت آنے پر ہم اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
’’عید الاضحی‘‘ اللہ تعالیٰ کے دین کے مکمل ہونے کا جشن بھی ہے، اور اسوۂ ابراہیمی کی یادگار بھی، یعنی اللہ کی راہ میں نکلنا، اس کی راہ میں کوشش کرنا، اس کی راہ میں مال دینا، مال کی قربانی، جان کی قربانی، وغیرہ۔ جس طرح روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے، اللہ کی بندگی کراتا ہے، راتوں کو کھڑا رکھتا ہے، خدا کے قریب کرتا ہے اسی طرح قربانی اس بات کی تربیت دیتی ہے کہ گھر سے نکلو، اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو کہ اس کے بغیر ایمان کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
اسوۂ ابراہیمی توحید کی علامت ہے، گناہ تو ہر آدمی سے ہوتے ہیں، کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں لیکن زندگی کا رخ بس ایک ہی ہے، ہماری پوری زندگی کا رخ اسی کی طرف ہونا چاہیے جو بیت الحرام کا رب اور مالک ہے۔ زندگی کا ایک رُخ، ایک قبلہ، ایک مقصد، ایک منزل ہو۔ اس فرمان کے مطابق جس کا اقرار ہم ہر دن کرتے ہیں۔ وہ اقرار ہمارا عملی نمونہ بن جائے کہ
إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (انعام:۷۹)
’’میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
آج بھی ہوجو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا