جمعہ, دسمبر ۶, ۲۰۲۴
1.6 C
Srinagar

جموں وکشمیر کے تشخص پر قانونی یلغار۔۔۔۔ شیخ جاوید ایوب

یہ ایک واضح اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اکتوبر 1947ءمیں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے حکمرانوں نے صرف تین بنیادی اصولوں پر ہی ہندوستان کی حکومت سے عارضی اور مشروط الحاق کیا تھا ،جموں و کشمیر دوسری ریاستوں کی طرح یونین آف انڈیا میں ضم نہیں ہواہے۔ الحاق کے دفعہ سات میں واضح طور لکھا ہواہے کہ’’اس الحاق کی کوئی بھی شق کسی بھی طرح سے جموں وکشمیر پر ہندوستان کا آئین لاگو نہیں کرا سکتا اور نہ ہی کشمیر کی حکومت کے ہندوستان سے آئندہ کوئی معاہدہ کرنے کے اختیارات پر ضرب لگا سکتا ہے“۔ لیکن یونین آف انڈیا کے ساتھ ریاست کے تعلقات کو واضح کرنے کیلئے ہندوستان کے آئین میں دفعہ 370 درج کیا گیاہے۔ ایسا اس لئے کیا گیا کیونکہ الحاق کی رو سے ریاست ِ جموں و کشمیر پر ہندوستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تھا۔اس لئے ضرورت کے مطابق ریاست اور دلی سرکارنے جموں و کشمیر اور یونین کے تعلقات کو واضح کرنے کے لئے دفعہ 370 کو ہندوستان کے آئین میں شامل کر دیا۔ دفعہ 370 دراصل ریاست اور دلی کے آئینی تعلقات سے بحث کرتا ہے۔ دفعہ 370 کی شق 1(a)میں اعلاناَ کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے آئین کا دفعہ 238 جموں و کشمیر پر لاگو نہیں ہوسکتا۔یہ اس بات کا کھلا اعلان اور اعتراف ہے کہ جموں و کشمیر دیگر ریاستوں کی طرح ہندوستان میںضم نہیں ہوا بلکہ ریاستی حکمرانوں نے ہندوستان سے الحاق اپنے شرائط پر کیا ہے ۔ شق1 (b)ہندوستان کی ریاستوں پر پارلیمنٹ کے قانون سازی اختیارات سے بحث کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ: (الف ):ریاست کے لئے ہندوستان کی پارلیمنٹ کو، حکومتِ ریاست کی تائید کے ساتھ ،صرف ان معاملات پرقانون سازی کے اختیارات ہوں گے جو ریاست کے الحاق میں یونین لسٹ اور کنکرنٹ لسٹ میں شامل کر دئے گئے ہیں اس کے علاوہ پارلیمنٹ کاکوئی قانون ریاست جموں و کشمیر پر نافذ العمل نہیں ہوگا۔(ب): دوسرے ایسے معاملات جو ریاستی حکومت کے اتفاق سے اور صدرِ ہندکے حکم نامے سے واضح کئے جائیں۔اسی طرح اس قانون کی شق 1 (c)میں واضح طور کہا گیا ہے کہ کہ دفعہ 370 کے ہی ذریعے ہندوستان کے آئین کی پہلی دفعہ کا اطلاق کشمیر پر ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر دفعہ 370نہیں رہتا تو کشمیر قانونی طور ہندوستان سے الگ ہو جاتا ہے۔

26 جنوری 1950ءکو ہی صدرِ ہند نے 1 (b)میں بیان کردہ اختیار کا استعمال کر کے اپنا پہلا حکم نامہ جاری کر دیا جس کی رو سے آئین ہند کے بیشتر دفعات کوریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا گیا۔ دفعہ 370 کی1 (b)کی شق دوم ہی دراصل وہ شق ہے جو ایک طرف تو ریاست کو ایک خصوصی حیثیت بخشتی ہے دوسری جانب ہندوستان نے اسی شق کا استعمال کر کے دفعہ 370 کو کھوکھلا کر دیا ہے اور آئین ہند کو رفتہ رفتہ کشمیر پر لاگو کیا ہے۔صدر ِ ہند نے اس شق کا غیر قانونی استعمال کر کے 47 بار آئین ہند کو لاگو کرنے کے حکم نامے جاری کرکے دفعہ 370 کی حرمت کو پامال کر دیا۔اس دفعہ کے کھوکھلے پن کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ہندوستانی آئین کے کل 395 دفعات میں سے 260 دفعات کی توسیع جموں کشمیر تک کی گئی ہے۔ اسی طرح97 یونین لسٹ کے انداراجات میں سے 94 اندراجات کا اطلاق جموں و کشمیر پر کیا گیا ہے۔ کنکرنٹ لسٹ کے 47 انداراجات میں سے 26 انداراجات کی زد میں کشمیر کو لایا جاچکا ہے۔

دفعہ 135ے کو 14 مئی 1954۱ ءکے اس وقت کے صدرِ ہند کے حکم نامے(The Constitution Application to Jammu and Kashmir Order 1954) کے تحت کشمیر پر لاگو کیا گیا۔ اس دفعہ سے جسے تحفظِ قانون برائے مستقل باشندگانِ جموں و کشمیر کے عنوان کے تحت رکھا گیا ہے، جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے مخصوص حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔ دفعہ-A35میں کہا گیا ہے کہ آئین ِ ہند میں موجود ہونے کے باوجود، کوئی بھی قانون جو ریاست میںنافذ شدہ ہو، اور آج کے بعد ریاستی اسمبلی کا کوئی بھی نافذ شدہ قانون جو:(۱)۔ کسی طبقہ یا فرد کے مستقل باشندہ ہونے کی وضاحت کرتا ہو،یا(۲)۔ کسی بھی فرد کو حسب ذیل معاملات میں ایسے حقوق اور ایسے استحقاق عطا کرتا ہو یا کسی فرد کے اوپر قدغنیں اور پابندیاں عائد کرتا ہو:(الف) سرکاری نوکری کے معاملے میں،(ب)غیر منقولہ ملکیت(immoviable property)کے حصول کیلئے،(ج)ریاست میں رہائش کیلئے، (د) حقوق ،وظیفہ اور دیگر ایسی سرکاری امداد ومراعات کو اس بنیاد پر باطل اور کالعدم قرار دیا جائے گا کہ یہ مستقل باشندوں کے حقوق کے متضاد ہے یا اس بنیاد پر کہ یہ ان کے کسی حق کو چھین لیتا ہے یا نقصان پہنچاتا ہے۔اگر دفعہ ۰۷۳ کشمیر اور دلی کے آئینی تعلقات سے بحث کرتا ہے تو دفعہ-A35ریاست کے باشندگان کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ اس قانون کو قانون ساز اسمبلی کی سیاست سے محفوظ رکھنے کیلئے دفعہ-A35کو سرکشا کوچ کے طور پر آئین ہند میں درج کیا گیا۔ اور اگر یہ سرکشا کوچ،یعنی یہ حصار توڑ دیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ ریاست کی سرزمین ، یہ سبزہ زار اسی طرح فروخت ہو جائیں گے جس طرح 1846ءمیں اسے فروخت کیا گیا تھا۔ دفعہ 35۔ اے اور دفعہ 370 دراصل ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بھی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست بھی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دفعہ 35۔ اے دفعہ 370 کا ہی ایک جز ہے۔ اگر اس دفعہ کوکالعدم کیا جاتا ہے تو نہ صرف غیر ریاستی باشندوں کو ریاست کی شہریت مل جا ئے گی بلکہ انہیں اس سر زمین پربسنے کا پورا پورا حق دیا جائے گا۔

ہندوستان روز اول سے ہی جموںو کشمیر کواپنے ساتھ ضم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ حکومتِ ہندنے اس خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ،قانونی یا غیر قانونی، تمام منصوبوں کا سہارا لیا۔ غرض کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ہر لحاظ سے جوڑنے کے لیے جب جب جو جو حربہ کامیاب رہا ، آزمایا گیا۔کشمیر کااپناالگ آئین، اپنا الگ ریاستی جھنڈا، اپنا الگ قومی ترانہ ، اپنے الگ شہری حقوق و قوانین روز اول سے ہی ہندتوا آئیڈیالوجی رکھنے والی پارٹیز کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبتے تھے۔ ہندومہاسبھا نے 1952 میں ہی کشمیر کو دئے جانے والے خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلائی۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مکمل انضمام ہو جائے۔ جواہر لال نہرو اور ان کی جماعت کانگریس کا بھی یہی مقصد تھا مگر کانگریس نے Revolutionary طریقے کے بجائے تدریجی( Gradualism ) کے طریقہ کار کو اپنایا اور دھیرے دھیرے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ضم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔بی جے پی نے بھی اب یہی طریقہ اپنانا شروع کر دیا ہے۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ ہو یا سرفاسی ایکٹ(SARFAESI ACT )، جی ایس ٹی ہو یا ان جیسے دوسرے ایکٹس، غرض کشمیر کی الگ پہچان پر شدید درجے کے حملے ہیں۔ سرفاسی ایکٹ دلی حکومت کا ایسا قانون ہے جسے ہندوستانی پارلیمنٹ نے 2002 میں وضع کیا۔ جی ایس ٹی کو قانون کا درجہ ملنے پر ارن جیٹلی نے بے باک انداز میں کہہ دیا کہ ’ریاست کا ملک کے ساتھ اقتصادی انضمام مکمل ہوگیا‘۔ جی ایس ٹی کے قانون سے دفعہ 370 کی عصمت تار تار ہو گئی ۔ یہ قانون ریاست کی مالی خود مختاری پر شدید ترین ضرب ہے۔

ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ کسی ایک خطے سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا مسئلہ نہیں ہے، کسی ایک مذہب کے لوگوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ یہ جموں و کشمیر کے عوام کا مسئلہ ہے چاہے وہ جموں میں مقیم ڈوگرہ ہوں ، لہہ لداخ کے بودھ ہوں یا کہ کشمیر اور چناب خطے کے مسلمان۔ چاہے وہ مین ہند نواز سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں یا حریت کیمپ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں ۔ چاہے وہ سول محکمات میں نوکری پیشہ ہوں یا فوج اور پولیس میں کام کرتے ہوں۔ اگر یہ دفعہ نہ رہی تو ہماری زمینیں ہماری نہیں رہیں گی، ہماری یہاں کی نوکریوں کے دروازے پوری ہندوستان کی آبادی کے کھل جائیں گے ، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل جائے گا، یہاں کی تہذیب بدل جائے گی ، تمدن بدل جائے گا، الغرض ہماری شناخت بدل جائے گی۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی تمام عصبیتوں کو چھوڑ کر ایک قوم کی طرح اس یلغار کا مقابلہ کیا جائے۔آج جموں و کشمیر کے عوام کے مستقبل کا سوال ہے دیکھنا ہو گا کہ عوام کیا رول ادا کرتی ہے۔یوں تو -A35کو بچانے کی باتیںزور و شور سے کی جارہی ہیں مگر یہ تو وہی بات لگتی ہے کہ بغل میں چھری منہ میںرام رام۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر -A35کو ختم کیا گیا تو ریاست میں ترنگے کو لہرانے والا کوئی نہیں ہو گا تو کوئی کہتا ہے کہ اگر اس دفعہ سے کوئی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تو 2008 جیسی عوامی تحریک برپا کر دی جائے گی ۔ایسے تلخ الفاظ ان سیاسی پارٹیوں سے سننے کو ملتے ہیں جنہوں نے کشمیر کی شناخت کا سودا کب کا کر ڈالا ہے، جو اقتدار کی حوس میں اندھے ، بہرے ، گھونگے بن جاتے ہیں۔ عوام جانتے ہے کہ ایسے بیانات ان کے ماتھے پر لگے کالے دھبوں کو دھونے کے لیے ناکافی ہیں کیونکہ ان کی زبان اور نیت میںیک رنگی کا فقدان ہے۔

۵اور6اگست کو ریاستی لوگوں نے جس یکجہتی اور کشمیر کے تشخص کے خلاف ہونے والی سازش کے خلاف ایک ساتھ اُٹھ کھڑا ہونے کا جس طرح سے مظاہرہ کیا ہے اُس سے یہ اُمید بندھ جاتی ہے کہ اپنے حقوق اور ریاستی تشخص کے حوالے سے یہاں کے عوام بیدار ہیں اور وہ کسی بھی ایسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس سے ریاست میں آبادی کا تناسب تبدیل ہونے یا جغرافیائی وحدت پر کوئی آنچ آجانے کا احتمال ہو۔ دفعہ370 اور-A35ریاستی تشخص کو اُس وقت تک بحال رکھنے کے لیے ایک دفاعی حصار کی حیثیت رکھتے ہےں جب تک نہ مسئلہ کشمیر مستقل بنیادوں پر حل ہوجائے ، اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مزاحمتی جماعتوں نے-A35پر ہڑتال کرکے یا ایجی ٹیشن چلا کر دراصل آئین ہند کے اندر مسئلہ کشمیر کے حل کو تسلیم کیا ہے وہ اندھوں کی دنیا کے ہی باسی کہلائے جاسکتے ہیں۔ اُن کے عقل اور سوچ و دانش پر صرف ماتم کیا جاسکتا ہے۔اگر چہ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 27اگست تک -A35کے خلاف دائر ہونے والی پٹیشن پر سماعت کو روک دی ہے تاہم فرقہ پرست طاقتیں اور سیاسی چال باز سکون سے بیٹھنے والے نہیں ہیں، اس لیے کشمیری عوام کو اس قومی دفاعی لائن پر کسی بھی طرح کی یلغار کو روکنے کے لیے یک جٹ رہنے کی ضرورت ہے۔

”مضمون نگار محکمہ ہائر ایجوکیشن میں شعبہ سیاسیات میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کام کرتے ہیں۔“

٭٭٭

Popular Categories

spot_imgspot_img