بیٹیاں سماج کا اہم حصہ۔۔۔۔بنت سلطان خان

بیٹیاں سماج کا اہم حصہ۔۔۔۔بنت سلطان خان

عور ت کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے۔یہ بیٹی کی صورت میں پورے خاندان کی لاڈلی ہوتی ہے ، اپنے بھائیوں کی سب سے مخلص بہی خواہ کہلاتی ہے۔ جب عمر کے آخری پڑاﺅ کو پہنچ جاتی ہے تو ایک پختہ اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ہر دکھ سکھ کی ساتھی بن جاتی ہے ۔ ماں کی صورت میں نہ صرف اِسے اللہ تعالیٰ نے شرف کا مقام عطا کیا ہے بلکہ جنت کو اِسی ماں کے قدموں تلے لا کھڑا کیا ہے۔لیکن آج اس عورت کی آنکھوں سے آنسو کیوں ٹپک رہے ہیں….؟ کیا اسی عورت سے وجود ِ انسانی کا تسلسل قائم و دائم نہیں ہے….؟ آخر معزز ومکرم عورت اتنا مقام اعلیٰ ہونے کے باجود بھی ذلت و پستی کی شکار کیوں ….؟
بیٹی گھر میں پیدا ہوتی ہے تو گھر پر ایک رحمت کی فضا چھاجاتی ہے۔ والدین دن ورات ایک کر کے اپنی اس پیاری بیٹی کو پالتے پوستے ہیں ۔ہوش سنبھالنے کے بعد اِس کی تعلیم و تربیت کے لیے اِسے اسکول میں داخلہ کیا جاتا ہے۔ بچپنے سے نکل کر جب سن بلوغ کو پہنچ جاتی ہے تو والدین اس کی شادی کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور اس کا نیا اور حقیقی گھربسانے کا خواب سجاتے ہیں ۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ اُن کی بیٹی کی شادی کسی خوشحال گھرانے میں ہو ،تاکہ مستقبل میں وہ پُر سکون زندگی گزارے اور سسرال والے اِسے اپنے خاندان وگھر کا نیا فرد تصور کریں نہ کہ ملازمہ ۔اسی بیٹی کی رخصتی کا وقت آتاہے تو والدین کی آنکھوں میں خوشی و غم کے ملے جلے تاثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خوشی اس لئے کہ ہماری بیٹی آباد ہو رہی ہے اور جدائی کے غم میں آنسوں بھی رواں ہوتے ہیں ۔پہلے پہل وہ اپنے سسرال میں وہ انجان دکھتی ہے لیکن اسے اپنے شوہر سے نسبت ہونے کی بنیاد پر کئی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔میاں بیوی کے اس مقدس رشتے کی استواری و مضبوطی سے ہی لڑکی اور لڑکے کے اِن دو خاندانوں کی خوشیاں مشروط ہوتی ہیں۔
یہ عورت دراصل دوچیزوں کی طلب گار ہوتی ہے، ایک عزت اور دوسری محبت، اگر عورت کو یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو وہ اپنے شوہر اور اپنے گھر کے لیے سب کچھ قربان کر دینے میں پیچھے نہیں رہتی،لیکن اگرشوہر اپنی بیوی کو ملازمہ سمجھے اورجب چاہے اُسے ذلیل کرے ،جب چاہے نوکروں جیسا سلوک کرے تو اِس شوہر کے ساتھ بیوی کا ایک منٹ بھی گُزارنا موت کے برابر بن جاتا ہے ۔
میں مرد حضرات سے ادباً ملتمس ہوں کہ خدا را قرآن کے احکام اور نبی مہربان ﷺ کی تعلیمات پر عمل کر کے اپنی بیگمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔ان کے حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھایں تا کہ کسی کی بیٹی کاگھر نہ اُجڑے ،کسی کی زندگی تباہ نہ ہو اور کوئی بیٹی دوبارہ اپنے ماں باپ کے پاس جانے کے لئے مجبور نہ ہو، خواتین کو بھی چاہیے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شوہروں کی قدر کریں اور ان کے حقوق کو بجا لائیں ،تاکہ گھر امن و سکون کا گہوارا بن جائے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.