ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کی ایک پارلیمانی نشست پر بھی چوتھے مرحلے کے تحت کل ووٹ ڈالے جائیں گے۔اس اہم پارلیمانی حلقے کے لئے جہاں لگ بھگ دو درجن کے قریب اُمید وار انتخابی میدان میں اپنی سیاسی قسمت آزمارہے ہیں ،وہیں تین اہم پارٹیوں سے وابستہ اُمید وار بھی ایک دوسرے کے خلاف برابری میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔نیشنل کانفرنس کے سید آغا روح اللہ مہدی،پی ڈی پی کے وحید الرحمان پرہ اور اپنی پاٹی کے اُمیدوار محمد اشرف میر کے درمیان تکونی مقابلہ ہے ۔
اس اہم انتخابی حلقے سے متعلق جہاں بہت سارے سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی پیش گوئیاں کی ہیں لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کس اُمیدوار کا پلڑا بھاری ہے اور کس کا نہیں کیونکہ اس کا دارمداراس بات پر بھی ہے کہ اس حلقہ انتخاب میں کتنے فیصد لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور کتنے نہیں۔جہاں تک انتخابی ر یلیوں اور جلسوں کا تعلق ہوتا ہے، ان میں وہ لوگ بھی کسی مجبوری کی وجہ سے شامل ہوتے ہیں، جو اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔وادی کے شہر سرینگر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران رائے دہندگان کی ایک اچھی خاصی تعداد خاموش تماشائی بن کر سیاست دانوں کے طریقہ کار اور اُن کے کام کاج پر نظر رکھتے تھے لیکن کیا یہ لوگ آج ووٹ ڈالنے کےلئے پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کے لئے نکلیںگے یا نہیں ؟یہ انتہائی اہم سوال ہے۔
اگر یہ خاموش ووٹر اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے کے لئے باہر نکلتے ہیں تو فیصلہ کچھ مختلف سامنے آئے گا جو سب سیاستدانوں اور اُمید واروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا۔بہرحال کس کی ہو گئی جیت اورکس کی ہو گی ہار؟ یہ موضوع بحث نہیں ہے کیونکہ دو درجن اُمید واروں میں سے صرف ایک ہی اُمید وار کو ملک کے سب سے بڑے جمہوری ایوان میں پہنچنا ہے ،جو عوام کی ترجمانی کرسکتا ہے۔اصل کامیابی ان انتخابات میں یہ ثابت ہوگئی، جب وہ لوگ گھروں سے باہر آکر پولنگ بوتھ میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے جو آج تک خاموش ہیں یا بائیکاٹ کی کال دیتے تھے۔جمہوری نظام میں لوگوں کی ووٹنگ میں شمولیت انتہائی لازمی ہوتی ہے۔وادی کشمیر میں تین دہائیوں کے دوران آج تک جو انتخابات 1987 کے بعدسے ہوئے، اُن کی شرح فیصد بہت کم تھی۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وادی میں اب کی بار ووٹنگ کی شرح فیصد کچھ بڑے گی یانہیں ؟تاہم ہمارایہی مشورہ ہے کہ اپنے قیمتی ووٹ کو ضائع نہ کریں بلکہ بڑھ چڑھ کر ووٹنگ میں حصہ لیں۔





