اُف یہ امن واماں کی باتیں۔۔۔۔۔۔عاصم رسول کنہ

اُف یہ امن واماں کی باتیں۔۔۔۔۔۔عاصم رسول کنہ

امن و امان،آشتی وترقی اور خوشحالی ان سے ملتے جلتے الفاظ آئے روز اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔سیاست دانوں سے لے کر فوجی اور پولیس سربراہان اپنے اخباری بیغامات کے ذریعے کشمیریوں کو متذکرہ الفاظ کی معنویت باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بات تکرار سے کہی جاتی ہے کہ ترقی اور Developmentکے لیے امن ضروری ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ”امن “اور ”ترقی“کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ان میں ایک کی عدم موجودگی میں دوسرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ ”امن “ اور” ترقی“کس فر د بشر کی خواہش نہیں ہوتی….؟کون نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی امن و آشتی سے گزرے اور وہ مسلسل ترقی کے زینے طے کرتا رہے۔کشمیری عوام اس حوالے سے سب سے زیادہ امن و آشتی کے آرزو مند ہیں۔امن و امان،عزت وآبرو، ترقی و خوشحالی کے حصول کا ہی سبب ہے کہ گزشتہ ۶۳برس کے دوران کشمیری قوم نے ایک لاکھ سے زائد اپنے جگر گوشوں کی اُٹھتی جوانیاں زرم گاہ کی بھینٹ چڑھادیں۔ اس وقت بھی ”امن“ کی آرزو اپنے سینوں میں لیے دس ہزار کے قریب نوجوان گم شدہ ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ ”امن “ کی تلاش کا ہی شاخسانہ ہے کہ کشمیر میں اس وقت ۳۰ ہزار بیوائیں اور ۵۰ ہزار سے زائد یتیم بچے عالمی برادری کے ضمیرکو کچوکے لگا رہے ہیں۔ 2009,2008 2010, اور 2016میں لوگوں کا جم غفیر امن کی تمنا لیے ہی سڑکوں پر اُمڈ آیا لیکن بدلے میں کشمیریوں کی جھولی میں قوم کے نونہالوں کی لٹی پٹی خون سے لت پت لاشیں ہی ڈال دی گئیں۔اس صورتحال کے تناظر میں قلب و ذہن ورطہ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ جب مظلوم سے ہی ”تشدد“ ترک کرنے کی فہمائش کی جارہی ہو۔ امن کے متلاشی کو ہی امن کے وعظ سنائے جارہے ہوں۔”پر امن“ رہنے کی تلقین اُنہیں کی جارہی ہو جو سالہا سال سے فوجی حصار اور کالے قوانین کے ”سائے “میں اپنی حیاتِ مستعار گزار رہے ہوں۔بہر حال یہ طرز عمل جمہوریت کی دعوےدار قوم اور کسی بھی ذی حس فر د کو زیب نہیں دیتا۔

جنوں کا نام خردرکھ دیا ،خرد کا جنوں

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.