قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۳

قرآن ہم سب کے لیے۔۔۔۔۔۳

مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ

روزِ جزا کا مالک ہے۔

یعنی اُس دن کا مالک جبکہ تمام اگلی پچھلی نسلوں کو جمع کرکے ان کے کارنامہٴ زندگی کا حساب لیا جائیگا اور ہر انسان کواس کے عمل کا پورا صِلہ مل جائےگا۔ اللہ کی تعریف میں رحمان اور رحیم کہنے کے بعد مالک روزِجزاکہنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ وہ نِرا مہربان ہی نہیں ہے بلکہ منصف بھی ہے،  اور منصف بھی ایسا با اختیار منصف کہ آخری فیصلے کے روز وہی پورے اقتدار کا مالک ہوگا، نہ اس کی سزا میں کوئی مزاحم ہوسکے گا اور نہ جزا میں مانع۔ لہٰذا ہم اس کی ربوبیت اور رحمت کی بناء پر اس سے محبت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے انصاف کی بنا پراس سے ڈرتے بھی ہیں اوریہ احساس بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے انجام کی بھلائی اوربُرائی بالکُلّیہ اُسی کے اختیارمیں ہے۔

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ

ہم تیری ہی عبادت ۔کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں 

عبادت کا لفظ بھی عربی زبان میں تین معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ (١)پوجا اور پرستش (۲)اطاعت اور فرمانبرداری (۳)بندگی اور غلامی۔ اس مقام پر تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں۔یعنی ہم تیرے پرستار بھی ہیں ،مطیع فرمان بھی اور بندہ و غلام بھی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ہم تیرے ساتھ یہ تعلق رکھتے ہیں ۔بلکہ واقعی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا تعلق صرف تیرے ہی ساتھ ہے ۔ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے۔

یعنی تیرے ساتھ ہمارا تعلق محض عبادت ہی کا نہیں ہے بلکہ استعانت کا تعلق بھی ہم تیرے ہی ساتھ رکھتے ہیں ۔ہمیں معلوم ہے کہ ساری کائنات کا ربّ تو ہی ہے، اور ساری طاقتیں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ،اور ساری نعمتوں کا تو ہی اکیلا مالک ہے، اس لیے ہم اپنی حاجتوں کی طلب میں تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں ، تیرے ہی آگے ہمارا ہاتھ پھیلتا ہے اور تیری مدد پر ہمارا اعتماد ہے ۔ اسی بناپر ہم اپنی درخواست لے کر تیری خدمت میں حاضر ہورہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.