بِسْم اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ کےنام سے جو رحمان و رحیم ہے.
اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتاہے اس کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام کی ابتداء خدا کے نام سے کرے۔اس قاعدے کی پابندی اگر شعور کے ساتھ کی جائے تو اس سے لازماً تین فائدے حاصل ہونگے ۔ایک یہ کہ آدمی بہت سے برے کاموں سے بچ جائے گا، کیونکہ خدا کا نام لینے کی عادت اسے ہر کام شروع کرتے وقت یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا واقعی میں اس کام پر خداکا نام لینے میں حق بجانب ہوں؟ دوسرے یہ کہ جائز اور صحیح اور نیک کاموں کی ابتداکرتے ہوئے خدا کا نام لینے سے آدمی کی ذہنیت بالکل ٹھیک سَمت اختیار کر لے گی اور وہ ہمیشہ صحیح ترین نقطہ سے اپنی حرکت کا آغاز کرے گا ۔تیسر ا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب وہ خدا کے نام سے اپنا کام شروع کرے گا تو خدا کی تائید اور توفیق اس کے شاملِ حال ہوگی، اس کی سعی میں برکت ڈالی جائے گی اور شیطان کی فساد انگیزیوں سے اُس کو بچایا جائے گا ۔خدا کا طریقہ یہ ہے کہ جب بندہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے تو وہ بھی بندے کی طرف توجہ فرماتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے
سورہ فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے ، لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جارہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں ۔یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کر دیا ۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو ، پہلے اس کی خوبی کا ،اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔
تعریف ہم جس کی بھی کرتے ہیں ، دو وجوہ سے کیا کرتے ہیں۔ایک یہ کہ وہ بجائے خود حسن و خوبی اور کمال رکھتا ہو ، قطع نظر اس سے کہ ہم پر اس کے ان فضائل کا کیا اثر ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہمارا محسن ہو اور ہم اعترافِ نعمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس کی خوبیاں بیان کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ان دونوں حیثیتوں سے ہے۔ یہ ہماری قدر شناسی کا تقاضہ بھی ہے اور احسان شناسی کا بھی کہ ہم اس کے تعریف میں رَطبُ اللّسان ہوں۔
اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تعریف اللہ کے لیےہے ، بلکہ صحیح یہ ہے کہ‘‘ تعریف اللہ ہی’’ کے لیے ہے۔ یہ بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت پر سے پردہ اٹھا یا گیا ہے ، اور وہ حقیقت ایسی ہے جس کی پہلی ہی ضرب سے مخلوق پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ دنیا میں جہاں ، جس چیز اور جس شکل میں بھی کوئی حسن ، کوئی خوبی ،کوئی کمال ہے، اس کا سر چشمہ اللہ ہی کی ذات ہے ۔ کسی انسان ،کسی فرشتے ،کسی سیارے،غرض کسی مخلوق کا کمال بھی ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ کاعطیّہ ہے۔ پس اگر کوئی اس کا مستحق ہے کہ ہم اس کے گرویدہ اور پرستار،احسان مند اور شکر گذار ، نیاز مند اور خدمت گار بنیں تو وہ خالقِ کمال ہے نہ کہ صاحبِ کمال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔