فاروقی نظام احتساب 

فاروقی نظام احتساب 

٭مولانا محمد یاسین شاد 

ہمارے ہاں احتساب کے لیے قوانین بنتے رہتے ہیں۔ مالی و انتظامی، بددیانتی، کرپشن کرنے والے محفوظ طریقے سے بچ جاتے ہیں معاملہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی کو عامل(حکومتی عہدیدار) مقرر کرتے تو ایک جماعت کو گواہ بناتے جو انصار اور کچھ لوگوں پر مشتمل ہوتی اور اس پرچار شرطیں عائد کرتے:
وہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا۔ باریک کپڑے نہیں پہنے گا۔چھنے ہوئے آٹے کی روٹی یعنی سفید روٹی نہیں کھائے گا۔لوگوں کے کاموں سے بچنے کے لیے اپنا دروازہ بند کرکے نہیں بیٹھے گا اور دربان مقرر نہیں کرے گا۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے بآواز بلند کہا کہ کیا آپ صرف شرطیں عائد کرکے اللہ کے ہاں بچ جائیں گے جب کہ مصر میں آپ کا مقرر کردہ عامل عیاض بن غنم باریک کپڑے پہنتا ہے اور اس نے دربان مقرر کررکھا ہے؟
اس پر آپؓ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا جن کو آپ اعمال کی جانب سفیر بناکر بھیجا کرتے تھے اور ان سے کہا کہ جاو¿ اور عامل مصر عیاض بن غنم جس حال میں بھی ہو اسے میرے پاس لے آو¿۔ چنانچہ جب محمد بن مسلمہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ دروازہ پر دربان موجود ہے اور اندر گئے تو دیکھا کہ عیاض باریک قمیص پہنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امیر المومنینؓ نے آپ کو طلب کیا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے موقع دو کہ قبا پہن لوں۔ محمد بن مسلمہ نے کہا نہیں، اسی طرح چلنا ہوگا۔ اور وہ اسی حال میں لے کر سیدنا عمرؓ کے پاس آگئے۔ عمرؓ نے انہیں( گورنر مصر) کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ قمیص اتار دو اور آپ نے اون کا جبہ اور بکروں کا ریوڑ اور لاٹھی منگائی اور کہا یہ اونی جبہ پہنو، لاٹھی اُٹھاو¿ اور بکریاں چراو¿۔ اور اس کا دودھ خود بھی پیو اور جو تمہارے پاس سے گزرے اسے بھی پلاو¿ اور جو افزائش پواسے ہمارے لیے محفوظ کرلو۔ کیا تم نے سن لیا؟ اس نے کہا جی ہاں۔ لیکن اس زندگی سے موت بہتر ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ دہراتے رہے کہ کیا تم نے سن لیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ پھر عمرؓ نے کہا کہ تم اس زندگی کو برا نہ سمجھو، تمہارا باپ بھی بکریاں چراتا تھا اس لیے اس کا نام غنم تھا۔ پھر آپؓ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں اے امیر المومنین! آپؓ نے کہا وہ ہمیں لادو۔ اس کے بعد آپ کے کسی عامل نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔( کتاب الخراج از امام یوسف ص139 ، فقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ از ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی پروفیسر یونیورسٹی آف پیٹرولم و معدنیات ظہران سعودی عرب، مترجم ساجد الرحمن صدیقی، ناشر ادارہ معارف اسلامی لاہور)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہی طرز عمل تھا جس نے ان کے زمانے کی بیرو کریسی کی اصول و قواعد کا پابند بناکر ان کی وسیع سلطنت کو امن و امان کا گہوارہ بنارکھا تھا۔ آج بھی کرپٹ معاشروں میں ایسی ہی حکمرانوں کی ضرورت ہے جو معاشرے سے ظلم و انصافی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو عمر رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے والا حکمران عطا کرے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.