شرم دار معاشرہ۔۔۔۔۔ مشتاق کاشمیری

شرم دار معاشرہ۔۔۔۔۔ مشتاق کاشمیری

جب ہم پلے بڑھے ہیں ہم نے شرم و حیا کے الفاظ صرف اپنے ہی معاشرہ کے ساتھ منسوب ہوتے دیکھے ہیں۔ اس لیے کہ اس پاکیزہ اور شرم دار معاشرہ کی نسبت شرم دار اور باحیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم محترم سے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی مسلمان مرد کا گھٹنا اتفاقاً بے پردہ ہوجاتا تو اس عمل کو بے شرمی کہا جاتا۔ خواتین کے بارے میں ایسا ذکر ہی نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ عورت ذات مکمل شرم و حیا کا پتلا ہوتی۔ کسی بھی خاتون کا برہنہ سر ہونے کا گمان تک نہ کیا جاتا۔ کسی خاتون کو سربرہنہ ہونے کی علامت یہ ہوتی کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے یعنی پاگل ہوگئی ہے۔ ایسی خاتون کے ساتھ ہر کس و ناکس کی ہمدردیاں ہوتیں۔اس کو پاگل خانے لیا جاتا۔ لوگ کفِ افسوس ملتے رہتے۔
اب دیکھئے یہ علمی دور ہے۔ سربرہنہ خواتین اور لڑکیاں نہایت اطمینان اور کمالِ ذوق سے اپنے بالوں کی، اپنے بناؤ سنگار کی اور اپنے عریاں بدن کی سرعام نمائش کرتی ہیں اور کوئی انہیں پاگل نہیں کہتا۔ کسی بستی میں ایسی خواتین اور جوان لڑکیوں کے جھنڈ کے جھنڈ سڑکوں پر اُمڈ کر آکر تشنہ نظر آوارہ جوانوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہوں تو کیا وہ بستی از خود وارفتہ لوگوں کی بستی بستی نہیں کہلائی جاسکتی ہے؟ یہ سوال ہے والدین سے بھی اور جوانوں سے بھی جن کی لاڈلی بیٹیاں اور جن کی پیاری بہنیں چادر زہراؓ کو اپنے جنونی ہاتھوں سے پارہ پارہ کررہی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.