ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اور کشمیر

ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اور کشمیر

رمیض بٹ /بارہمولہ

ڈاکٹر سر محمد اقبال کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؒ کا کشمیر سے روحانی تعلق تھا۔اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے آباءو اجداد کا تعلق کشمیر سے ہی تھا۔اقبال کے فکر و نظریہ نے کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئے ۔ اہل کشمیر کے دلوں میں اقبال کے لئے جو عقیدت اور محبت کا جذبہ موجود ہے اسکا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں ۔کشمیر کے نوجوانوں، بزرگوں، پروفیسروں، دانشوروں، گویا ہر ایک طبقہ سے وابستہ انسان نے اقبال کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھااور پڑھا ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر اقبالؒ اہل کشمیر کے لئے ایک موضوع نہیں بلکہ کشمیر کی تہذیب و تمد ن کا حصہ ہے ۔ تعلیمی اداروں کی بات کرلیں توہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اقبال کے نام پر درجنوں تعلیمی ادارے اور لابرئیریاںہیں ۔صحیح معنوں میں بولا جائے تو اہل کشمیر کے لئے ذکر اقبال ذکر محبوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کو سر زمین کشمیر سے جو نسبت اور کشمیر کی تحریک آزادی سے جو قربت رہی ہے اسکے پیش نظر اقبال کی زندگی، شخصیت، اور فن کے مختلف گوشوں پر کشمیر حاوی رہا ہے۔اقبال نے نظم”گل رحیابان جنت کشمیر“ لکھ کر اپنے کشمیری نثراد ہونے پر فخر کیا ہے ۔فقیر وحیدالدین اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر اقبال ؒ کے حوالے سے کچھ اس طرح سے رقم طراز ہیں کہ”جناب ممتاز حسن فرماتے ہیں کہ ایک روز علامہ اقبال کی صحبت میں کشمیر کی سیاسی تحریک پر گفتگو ہو رہی تھی تو علامہ اقبال فرمانے لگے کہ میں نے جو کشمیر کے متعلق نظم نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی اس میں ریشم ساز کارخانوں اور کاریگروں کا ذکر شامل تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک وجود میں آئی تو اسکی ابتدا بھی ایک ریشم کارخانے میں کاریگروں کی بغاوت سے ہوئی۔علامہ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف ”پیام مشرق“ میں کشمیر کے بارے میں چند اشعارلکھے گئے ہیں۔اقبال کا شمار دنیا کے عظیم ترین فلسفی شاعروں میں ہوتا ہے۔ یوں تو ان پر دنیا کے متعدد مصنفین نے اپنی اپنی زبانوں میں مقالے بھی لکھے ہیں اور کتابیں بھی اور ان پر دنیا کے کئی طالب علم ریسرچ بھی کر رہے ہیں ۔ ان کے کلام کا ترجمہ بھی کیا ہے اور ان کی تفسیریں بھی لکھی ہیںان کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور سوانح حیات پر بھی، لیکن سب سے پہلے اقبال پر جو ٹھوس اور جامع نوعیت کا کام کیا گیا تھا وہ ایک کشمیری اہل قلم ہی کا تھا اور وہ اقبال کی سب سے پہلی سوانح حیات جو منشی محمود الدین فوق نے لکھی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کی بات ہے کہ منشی محمود الدین فوق لاہور سے ایک ماہنامہ کشمیری میگزین شائع کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے اپریل کے پہلے شمارے میں اقبال کی حالات زندگی لکھنے اور اس ضمن میں اولیت کا شرف حاصل کیا۔ اقبال کے بارے میں سب سے پہلی کتاب جو اردو میں لکھی گئی تھی وہ شرف بھی ایک کشمیری مصنف مولوی احمد دین ایڈوکیٹ کو حاصل ہوا۔

اقبال اگر چہ سارے جہاں کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سارے جہاں میں کشمیر کا ایک چھوٹا سا ملک جو 222284 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی کل آبادی ایک کروڑ پچیس لاکھ ہے تاہم آپ نے اپنے آبائی وطن کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام کے درد و کرب کو اپنے دل میں جگہ دے کر اپنی شاعری کے ذریعے سے اس کا اظہار کیا ہے وہ ارض کشمیر کے عوام کے لئے سرما یہ افتخار ہے ۔ جو نظمیں آپ کی سب سے پہلے کسی اخبار یا رسالے کی زینت بنی وہ بھی کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق ہیں۔انگلستان سے واپس آکر آپ پہلے کشمیری انجمن کے اور اسکے بعد آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے سیکریٹری مقر ر ہوئے ۔نواب سر سلیم اللہ، نواب آف ڈھاکہ جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسے میں امرتسر تشریف لائے تھے تو کشمیریان پنجاب کی طرف سے سر محمد اقبال ہی نے آپ کی خدمت میں خیر مقدم کا ایڈریس فارسی زبان میں پڑھا تھا۔ اقبال اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ کشمیر آنے کی خواہش ایک مدت سے تھی ان کی یہ خواہش جون۱۲۹۱ءمیں پوری ہوئی۔ وجہ سفر یہ تھا کہ منشی سراج الدین نے انہیں ایک معاملے میں قانونی مشاورت کے لئے بلایا تھا۔اگست ۱۲۹۱ءوہ تاریخی مہینہ ہے جب اقبال آخری بار کشمیر تشریف لائے اور اس سر زمین کا درد بھرے دل سے مطالعہ کیا جس کے تاثرات ان کے کلام میں موجود ہیں۔ اس سفر کے متعلق خاص بات یہ ہے کہ جب مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو معلوم ہوا کہ اقبال کشمیر تشریف لائے ہیں تو انہوں نے فوری طور پر اقبال کو دعوت نامہ پیش کیا جو اقبال نے بخوشی قبول کیا اور وہ ایک دو روز مہاراجہ کے مہمان بنے۔ اقبال کے اس سفر کا حاصل انکی نظم”ساقی نامہ“ ہے ۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.