!تنگ دلی کے رنگ

!تنگ دلی کے رنگ

60 سال پہلے

بے اعتدالیِ مزاج سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے، جسے تنگ دلی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جسے قرآن میں ’شُّحِ نفس‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے جو اس سے بچ گیا، ( وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo) اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے، (وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط وَ اِنْ تُحسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o)۔ اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجایش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہر رعایت چاہتا ہے ، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرسکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی راے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ اُن سے وہ انتہائی مطالبات کرتا ہے جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔ اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ یہ چیز ترقی کرتی رہے تو آگے چل کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے ، اور پھر جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔
اسی تنگ دلی کی ایک اور شکل زود رنجی، نک چڑھاپن، اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ہے۔ جو اجتماعی زندگی میں اُس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو، اور اُن لوگوں کے لیے بھی مصیبت جنھیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔ (’اشارات‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۵، جمادی الاولیٰ ۱۳۷۶ھ/ جنوری ۱۹۵۷ء، ص۷-۸)

Leave a Reply

Your email address will not be published.