پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود
نزول وحی سے پہلے نبی اکرمﷺ کے دل میں خلوت کی محبت ڈال دی گئی۔ آپ مختصر ترین خوراک کے ساتھ غارِ حرا میں خلوت نشینی فرماتے اور گھر واپسی سے قبل غار حرا کی خلوتوں میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں راتیں گزارتے، پھر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی طرف لوٹتے اور مختصر خوراک لے کر دوبارہ غار حرا کی طرف تشریف لے جاتے۔آپ غارِ حرا میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے گمراہی میں ڈوبے ہوئے اہل مکہ کو ان کے حال پر چھوڑ کر چلے جاتے اور آپ نے اتنی عبادت کی کہ عرب کہہ اٹھے:’’ان محمدا قد عشق ربہ‘‘’’محمدﷺ اپنے رب کی محبت میں ازخود رفتہ ہوگئے ہیں‘‘لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ابھی مکہ پر چھائی ہوئی گمراہی کی بدلیوں کے چھٹنے کا وقت نہیں ہوا تھا؟کیا اس تاریکی کے روشنی میں بدلنے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا؟کیا ابھی بتوں کے پاش پاش ہونے کا وقت نہیں ہوا تھا؟کیا ابھی روشنی کی کرن، یا علم کی اثر آفرینی کا لمحہ نہیں آیا تھا؟کیا اﷲ تعالیٰ کے ہاں سے رحمت یا ہدایت بخشنے والے کے ہاں سے ہدایت کی گھڑی ابھی نہیں آئی تھی؟رسول کریمﷺ اﷲ تعالیٰ کی پناہ لیتے ہیں اور اس سے مدد اور اس کی پناہ مانگتے ہیں اور اس سے تمام تر امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور امید میں پختگی اور عاجزی کو اپناتے ہیں اور اس سے اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے رحمت طلب کرتے ہیں۔رسول اکرمﷺ کے ایام اسی پرعزم جہد مسلسل میں گزرتے ہیں۔
آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف ہر صبح، ہر دوپہر اور ہر شام کو متوجہ ہوتے، اس کی طرف غروب آفتاب اور ستاروں کے چمکنے پر متوجہ ہوتے۔ آپ ہر لحظہ، ہر سانس پر پلک جھپکنے، اور دل کی ہر دھڑکن اور ہر سرگوشی پر اﷲ تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنے والے تھے۔آپ کی ساری زندگی اﷲ تعالیٰ کے لئے تھی۔ اس کے باوجود دن اور سال اس حال میں گزرتے رہے کہ تاریکیاں مکہ کے اطراف واکناف میں سایہ فگن تھیں۔ بت گمراہی اور بے راہ روی کی علامت بن کر کعبہ شریف کی دیواروں پر لٹک رہے تھے۔رسول اکرمﷺ اپنی عاجزی و انکساری اور اﷲ کی رحمت میں امید کو بھی بڑھا دیتے ہیں پھر امید خوف اور بے چینی میں بدل جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عجز و انکساری میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ رسول کریمﷺ پاکیزگی اور نورانیت کی انتہا کو چھو لیتے ہیں۔
ایک رات آپ غار حرا میں سالانہ اعتکاف میں تھے۔رحمت دوعالمﷺ غارِ حرا میں معتکف تھے کہ ایک فرشتہ اﷲ تعالیٰ کا پیغام لایا، اس نے کہا:’’پڑھیئے‘‘تو رحمت دوعالمﷺ نے فرمایا:’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘تب فرشتے نے مجھے پوری قوت سے اپنے بازؤں میں لے کر خوب اچھی طرح دبایا اور پھر چھوڑ کر کہا:’’پڑھیئے‘‘رحمت دوعالم ﷺفرماتے ہیں، میں نے کہا:’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘تب اس نے دوسری مرتبہ مجھے زور سے اپنے بازوئوں میں خوب اچھی طرح بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا:’’پڑھیئے‘‘میں نے کہا:’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘تب اس نے مجھے تیسری مرتبہ زور سے اپنے بازوؤں میں لے کر خوب اچھی طرح بھینچا اور مجھے چھوڑ کر کہا:اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراء و ربک الاکرم: (سورۃ العلق: ۱،۲،۳)پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہےرسول کریمﷺ یہ آیات لئے دھڑکتے دل کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لائے اور آپ نے سیدہ سے فرمایا:’’مجھے چادر اوڑھا دو!‘‘سیدہ خدیجہ نے آپ کو چادر اوڑھا دی اور جب آپ کی گھبراہٹ سکون میں تبدیل ہوئی تو آپ نے اپنی رفیقۂ حیات کو تازہ ترین واقعہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:’’میں تو احساس ذمہ داری کے تحت گھبرا گیا تھا‘‘تب حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے یوں جواب دیا:’’ہرگز نہیں، اﷲ تعالیٰ کی قسم آپ کو اﷲ تعالیٰ کبھی رسوا نہیں ہونے دیگا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور بے آسرا لوگوںپر خرچ کرتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور حق کی راہ میں آنے والے مصائب کو برداشت کرنے میں مدد فرماتے ہیں‘‘
پھر سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ کی روایت کے مطابق ورقہ بن نوفل ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے کنارہ کشی کرکے دین کا دامن تھاما اور دینی کتب کا مطالعہ کیا اور بتوں کے نام پر ذبح شدہ جانوروں کے گوشت سے بھی دوری اختیار کی۔ورقہ بن نوفل نے دین کا مطالعہ صرف عربی زبان میں ہی نہیں کیاتھا بلکہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ مطالعہ مسیحیت کے لئے صرف عربی زبان کافی ہی نہیں تو پھر انہوں نے عبرانی زبان بھی سیکھی، ان کے بارے میں امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’ورقہ بن نوفل نے زمانہ جاہلیت میں نصرانیت اختیار کرلی تھی اور وہ عبرانی زبان میں لکھنا بھی جانتے تھے اور وہ عبرانی زبان میں انجیل سے جس قدر چاہتے، لکھ لیتے تھے‘‘ورقہ بن نوفل اپنی پختہ رائے، وسیع علم اور انتہائی اخلاص کے ساتھ پہچانے جاتے تھے۔ وہ نزول وحی کے ابتدائی زمانے میںنابینا اور عمر رسیدہ ہوچکے تھے۔ انہیں دین اور دنیا کے بہت سے امور کا علم تھا۔ وہ اب اﷲ کی راہ میں استطاعت کے مطابق عمل اور اچھے خاتمے کے علاوہ کسی چیز کی امید نہیں کرتے تھے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر سیدہ خدیجہ رسول کریمﷺ کو ان کے پاس لے گئیں اور ان سے کہنے لگیں:’’اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو!‘‘جب رسول اﷲﷺ نے انہیں اپنی خود بیتی سنائی تو ورقہ بن نوفل نے کسی انتظار، تردد اور سوچ بچار کے بغیر کہا:’’یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا‘‘ورقہ بن نوفل نے یہ کلمات ایک پختہ یقین اور سچے مومن کے جذبات کے ساتھ کہے، اور انہیں یہ بات کہنے پر مجبور کرنے والے اسباب یقیناً یہ کہہ رہے تھے کہ ورقہ بن نوفل سیدنا رسول کریم ﷺ کی عفت والی پاک صاف زندگی سے آگاہ تھے۔
اس کے علاوہ ورقہ بن نوفل کی نظر میں رسول کریمﷺ دنیا کی جھوٹی اور کھوکھلی عزت کے حصول سے دور رہنے والے تھے اور اس بات سے بھی بہت دور تھے کہ وہ دنیا کے طالب ہوں۔ انہوں نے رسول کریمﷺ سے نزول وحی کی خبر سنی تو انہیں ایک سچے انسان کی بات میں پوری طرح سچائی کا احساس ہوا اور انہوں نے اس بات میں اس عنصر کو بھی محسوس کیا جو کسی کام کے اچانک ہوجانے سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی آپ کی خبرمیں کوئی منطقی تسلسل یا سوچی سمجھی تدبیر یا خود ساختہ عزت کا شائبہ بھی نہ تھا بلکہ فقط معصومیت اور سچائی تھی۔ ورقہ بن نوفل نے جوں ہی قرآن کی پہلی آیت سنی۔ ان کے دل و دماغ نے فوراً گواہی دی کہ یہ کلام آسمان سے نازل شدہ وحی ہے۔قرآن کی نازل ہونے والی پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تعلیم کا تعلق کسی وزیر، امیر، ذاتی مفاد، علاقائی منفعت، مادی غرض یا کسی ملک اور ماحول کے نام سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تمام تر تعلق اﷲ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ ہوتا ہے اور اس صورت میں تعلیم کسی بھی انسان کو معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے شعور و آگہی عطا کرتی ہے۔ بلکہ ایک خاص معاشرے کو بھی نفع دیتی ہے جسے ہم وطن کہتے ہیں۔ بلکہ ان دونوں سے ہٹ کر تمام انسانیت کو نفع پہنچاتی ہے۔جب تعلیم کا پہلا اور آخری مقصد اﷲ تعالیٰ کی وہ ذات ہو جو خیر اور نور کا سرچشمہ اور خالق و مالک ہے تو ایسی تعلیم آگہی اور خیر کا باعث بنتی ہے اور وہ ہر زمانے میں ہمہ جہت نور بن جایا کرتی ہے۔
اقراء سے مراد صرف پڑھنا ہی نہیں تھا، بلکہ یہ تو ایک ایسی رمز تھی جو کسی انسان کے مثبت عمل کرنے اور منفی عمل سے دور رہنے پر دلالت کرتی ہے۔پہلی وحی کا پہلا کلمہ (اقراء) یہ کہنا چاہتا ہے کہ : ’’اپنے رب کے نام سے پڑھو، اسی کے نام سے چلو، پھرو، اسی کے نام سے بات کرو اور اسی کے نام سے عمل بجالاؤ۔ اور اگر کسی بات سے رکے ہو تو مناسب ہے کہ وہ رکنا بھی اسی کے نام سے ہو‘‘اور آخرکار آیت کا معنی یہ بنتا ہے:’’اے مخاطب تو اپنی تمام زندگی میں تن بدن کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے اسباب بنالے‘‘اگر قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت زندگی کے ایک مثبت اور تعمیری پہلو یعنی اﷲ تعالیٰ کے نام سے پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے پر ابھارتی ہے تو بعد میں ایسی آیات بھی نازل ہوئیں جو بہت واضح انداز میں اور بڑی صراحت سے منفی اعمال سے منع کرتی ہیں۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اﷲ علیہ وانہ لفسق (سورۃ الانعام: ۱۲۱)’’اسے نہ کھائو ،جس پر اﷲ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بے شک حکم عدولی ہے‘‘بتوں کے لئے جانور ذبح کئے جانے کی جگہ پرجانور ذبح کرنا فسق ہے۔ کیونکہ یہ اﷲ کی رضا کے لئے ذبح نہیں کئے گئے او ران پر اﷲ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس چیز پر بھی اﷲ تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا۔ اس سے بچنا ضروری ہے اور اس چیز کا استعمال کرنا ایسا فسق ہے جس کا درجہ یوں گھٹتا اور بڑھتا ہے، جیسے ناپاکی کا گھٹنا بڑھنا۔یوں اسلام نے اپنی تاریخ کے پہلے ہی لمحے یعنی پہلی وحی کے نازل ہوتے ہی ہمیں اخلاص کے عروج پر پہنچا دیا اور تقویٰ کی آغوش میں دے کر احسان کے اعلیٰ درجے پر فائز کردیا اورسچائی کے بلند مقام پر پہنچا دیا۔ جب تمام تر زندگی اﷲ کے لئے وقف ہے تو جھوٹ، دکھاوا، نفاق، دھوکہ اور غیر اﷲ کو اعمال دکھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
اقراء اور تربیت
اﷲ تعالیٰ نے پہلی آیت مبارکہ میں فرمایا:اقراء باسم ربک الذی خلق (سورۃ العلق: ۱ ) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔اﷲ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:اقراء بسم اﷲ (پڑھ اﷲ کے نام سے)کیونکہ نزول وحی کے آغاز سے ہی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ آسمان سے نازل ہونے والا الٰہی دستور (قرآن) سراپا تربیت ہے اور وہ ایک مربی کے نام سے نازل ہورہا ہے۔ اور جب اس تربیت کا مصدر اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے تو یہ تربیت ہر اعتبار سے مکمل ہوگی، اپنے تمام پہلوئوں سے مکمل ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ نے بعد میں نازل ہونے والی آیت میں فرمایا:کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر (سورۃ ھود: ۱)’’یہ ایک کتاب ہے جس کی آیات حکمت سے بھری ہیں، پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے‘‘ایک دوسری سورت میں ارشاد ربانی ہے:لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ تنزیل من حکیم حمید (سورۃ فصلت: ۴۲) ’’باطل کو اس کی طرف راہ نہیں، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، اتارا ہوا ہے حکمت والے سب خوبیاں سراہے کا‘‘مکمل تربیت وہ ہے جو عقیدہ، اخلاق اور قانون سازی کو شامل ہو، الٰہی دستور نازل ہوا تو اس نے ہر دور میں انسانی زندگی کے مذکورہ بالا تینوں پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ پیش نظر آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قرآنی تربیت کو کسی قسم کے شک اور تردد کے بغیر قبول کیا جانا چاہئے، کیونکہ یہ تربیت اس ذات کی طرف سے ہے جس نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا ہے۔
انسانی جسم میں ہر خلیے کا وجود اور اس کا دیگر خلیوں سے ایسا تعلق جو جسم میں خاص عمل سرانجام دیتا ہے، وہ رب جس نے انسانی جسم کا یہ نظام تخلیق کیا ہے، اسے انسان کی ہمہ جہت ضروریات کابھی پوری طرح علم ہے۔ قرآنی تربیت کسی ایسی ذات کی طرف سے نہیں جو انسان سے بے تعلق ہے، بلکہ یہ تربیت ایسے خالق کی طرف سے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اس کا علم تخلیق کے دقیق امور کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اسے اپنی مخلوقات کی ضروریات کا پورا علم ہے۔ اسے مخلوق کو نفع اور نقصان دینے والے امور کا بھی بخوبی علم ہے، اس کا تربیتی نظام علمی قیادت اور بصیرت پر مشتمل ہدایت کی بنیادوں پر استوار ہے۔ مذکورہ بالا تمام وجوہات کی بنیاد پر تربیت کا خداداد نظام رہنمائی اور نتائج دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تربیتی نظام زمانوں اور اماکن کے بدلنے پربھی تبدیلی کو قبول نہیں کرتا، کیونکہ رب کائنات کا پیدا کیا ہوا انسان تو کسی بھی زمانے میں ہو اور کہیں بھی ہو، انسان ہی ہوگا، نہ کسی دوسری مخلوق میں تبدیل ہوگا اور نہ ہی اس کے طریقہ تخلیق میں کوئی تبدیلی آئے گی۔
اقراء اور اخلاص
جب ورقہ بن نوفل نے سماوی وحی کے کلمات سنے تو وہ فوراً ان کلمات کے الوہی ہونے پر ایمان لے آئے۔ قارئین کرام! آپ ایسی ہستی کے بارے میں کیا کہیں گے جس نے ساری کائنات سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف رخ کیا؟ ایک ایسی ہستی جس نے دھمکیوں، مال ودولت، عزت و شہرت اور حکومت کی پرکشش پیشکشوں کوٹھکرا کر فقط یہی چاہا کہ تمام انسان اپنے رب کے نام سے پڑھیں اور اپنے طرز زندگی کی بنیاد اپنے رب کے عطاء کئے ہوئے تربیتی نظام پر اُٹھائیں۔ اگر کوئی ایسی ہستی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے تو پھر سچ کیا ہوگا؟ اگر وہ مخلص نہیں تو روئے زمین پر کون اخلاص والا ہوگا؟رحمت دوعالمﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت سنتے ہی ورقہ بن نوفل ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
اقراء اور علم
ہم لفظ ’’اقراء‘‘ کی طرف دوبارہ لوٹتے ہیں، جس کے کچھ معانی ہم نے اختصار کے ساتھ سابقہ صفحات میں بیان کردیئے۔ اب ہم ان معانی کی کچھ تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ’’اقراء‘‘ ثقافت، علم، فکر اور جستجو کی طرف دعوت دینے والا کلمہ ہے۔ یہ کلمہ زمینوں، آسمانوں،پہاڑوں، دریاؤں اور اﷲ تعالیٰ کی تخلیق میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ کائنات چھوٹی ہو یا بڑی وہ ’’اقراء‘‘ میں پائے جانے والے اطلاق کا حصہ ہے۔ یہ کلمہ کسی قسم کی حد بندی یا پابندی سے آزاد ہے۔ ہاں ایک قید ضرور ہے کہ یہ جستجو اور غوروفکر اﷲ تعالیٰ کے نام سے ہی ہو۔اس کلمہ کے نازل ہوتے ہی اسلام دیگر صفات کے ساتھ ساتھ علم کے رنگ میں بھی رنگا۔ وقل رب زدنی علماً (سورۃ طٰہ: ۱۱۴)’’اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے‘‘یہ دعا بندۂ مومن کی شعارات میں سے ایک ہے ’’اور جس کے دودن ایک جیسے ہی گزر جائیں، وہ خسارے میں ہے‘‘ اور جس کی نیکیوں میں اضافہ نہ ہو وہ یقینا خسارے میں ہے۔ کیا علم والا اور بے علم برابر ہیں؟ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں قرآن کی کثیر آیات میں اپنی یہ نعمتیں یاد دلائی ہیں کہ اس نے دن، رات، سورج، چاند، زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ہمارے لئے مسخر فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت کو دل و جان سے اپنائیں اور علم و آگہی کے ذریعے وہ سب کچھ مسخر کرلیں جو اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لئے بنایا ہے۔ اور انسانیت کی فلاح کے لئے مشاہدہ اور تجربات کو بنیاد بناکر کائنات کو مسخر کرلیں۔ اسلام میں علم و آگہی مادہ امور تک محدود نہیں، کیونکہ اس حوالے سے اسلامی نکتہ نظر مغربی مفکرین کے جدید نکتہ نظر سے کہیں زیادہ وسعت اور گہرائی والا ہے، کیونکہ مغربی مفکرین کا نظریہ مادی امور تک محدود ہے۔
اسلام تسخیر کائنات کی ترغیب دیتا ہے، مگر وہ تسخیر کائنات کو بندۂ مومن کی منزل نہیں بتاتا، اہل ایمان کی منزل قرآن کی درج ذیل آیات میں متعین کی گئی ہے۔وان الیٰ ربک المنتہیٰ (سورۃ النجم: ۴۲)’’اور یہ کہ بے شک تمہارے رب ہی کی طرف انتہا ہے‘‘اس کے علاوہ فرمان الٰہی ہے ۔ اقراء باسم ربک الذی خلق (سورۃ العلق:۱)’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘اﷲ کا یہ حکم بھی ہمیں مذکورہ منزل کا پتا دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف براہ راست متوجہ کیا ہے۔ علم عبادت ہے، اگر ہمیں بحیثیت مسلمان اﷲ کی راہ میں تسخیر کائنات کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں اس امر پر اﷲ کی رضا کی امید دلائی گئی ہے تو ہم اپنے اس عمل کے ذریعے کائنات کے خالق کی بارگاہ کی طرف توجہ کرنے والے ہوں گے۔ تسخیر کائنات کو منزل بنانے والے شمار نہ ہوں گے۔ اس نقطہ نظر سے تسخیر کائنا ت کا عمل بھی عبادت ہے، رحمت دوعالمﷺ کا ارشاد ہے:فمن کانت ہجرتہ الی اﷲ ورسولہ فہجرتہ الی اﷲ ورسولہ ومن کانت ہجرتہ الی دنیا یصیبہا اوامراۃ ینکحھا ’’جس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول کی طرف ہوگی تو اس کی ہجرت اﷲ اور اس کے رسول کی طرف ہی شمار ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہوگی، وہ دنیا کو حاصل کرلے گا اور جس کی ہجرت عورت کی طرف ہوگی، وہ اس سے نکاح کرلے گا۔(اسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا‘‘ ۔ اس حدیث کے تناظر میں تسخیر کائنات کا عمل اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہجرت اور متوجہ ہونا ہے ۔ یہ عمل اﷲ تعالیٰ کے نام سے پڑھنے کے مترادف ہے۔ اور یہ عمل ’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘ کے دائرے میں شامل ہے۔
علم اگر صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو وہ اگرچہ مادی حوالے سے ہو، اسلام میں عبادت ہی شمار کیا جائے گا اور ایسا نہ کبھی ہوا اور نہ ہی آئندہ ہوگا کہ اسلام علم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہو یا کبھی رکاوٹ بنے۔دین کے علم سے لاتعلق ہونے کا مسئلہ یورپ کی پیداوار اور اسلام کی روح سے کوسوں دور ہے۔ قرآن حکیم نے تو رحمت دوعالمﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی کے دن سے ہی علم کی ترغیب دی ہے۔ اسلام کی اسی ترغیب نے عصر حاضر کے اس سائنسی نہج و اسلوب کو بنیاد فراہم کی ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر مغرب میں ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی، جو آئے دن اپنی گہرائیوں میں سے کسی نئی چیز کو اجاگر کرتی رہی ہے۔ اس امر میں کچھ شک نہیں کہ اسلامی تہذیب نے ہی مغربی دنیا کو علمی، سائنسی اور تہذیبی بنیادیں فراہم کیں، نیز مغربی تہذیب کو مختلف دائروں میں کثیر علمی حقائق سے آشنا کیا۔
یورپ میں جدید سائنسی تحقیقات کی بنیاد روجر بیکن (Roger Bacon) نے رکھی۔ اسی نے یورپ میں سائنسی تحقیقات کو فروغ دیا۔ روجر بیکن کے حوالے سے پروفیسر بریفالٹ (Robert Breafault) اپنی کتاب ’’تشکیل انسانیت‘‘ (The Making of Mumani) میں لکھتا ہے: ’’روجر بیکن نے عربی زبان اور عربی علوم کی تعلیم آکسفورڈ میں اندلس کے تعلیم یافتگان سے حاصل کی۔ روجر بیکن اور بعد میں آنے والے اس کے ہم نام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ تجرباتی منہج و اسلوب (Experimental Method) کی دریافت کو اپنی طرف منسوب کریں۔ روجر بیکن نے تو مسیحی یورپ کے حوالے سے اس صراحت میں قطعاً جھجک محسوس نہیں کی کہ اس کے معاصرین کا عربی زبان اور عربوں کے علم سیکھنا ہی حقیقی آگہی کا واحد راستہ تھا، جبکہ یورپ میں تجرباتی منہج و اسلوب کے بانیوں کے بارے میں ہونے والے مذاکرے مغربی تہذیب کی علمی بنیادوں سے متعلق حقائق میں تحریف پر مبنی تھے۔ عربوں کا تجرباتی منہج و اسلوب بیکن کے زمانے میں یورپ کے کونے کونے تک پہنچ چکا تھا اور لوگ اسے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے یورپ میں ٹوٹ پڑے تھے‘‘
۔۔۔۔۱۔۔۔۔
بریفالٹ نے مزید کہا:’’جدید دنیا کو عربی تہذیب نے جو اہم چیز دی وہ علم (سائنس) ہے، لیکن اس کے ثمرات دیر سے سامنے آنے والے تھے‘‘مسلم اسپین میں جس عبقریت کو عرب ثقافت نے جنم دیا، وہ مسلم اسپین کے منظر سے عربی تہذیب کے چھپ جانے کے طویل عرصہ بعد اپنے نکتہ عروج پر پہنچی۔ مسلم دنیا کی علمی ترقی کے زیر اثر صرف سائنس نے ہی یورپ میں زندگی کی لہر یں دوڑائی بلکہ اس سے پہلے اسلامی تہذیب کے بہت سے اثرات اور اس کے اثر انگیز شعاعیں بھی یورپ میں پہنچ چکی تھیں۔(بحوالہ: تجدید فکریات اسلام، علامہ محمد اقبال)اگر ہم معاملے کی حقیقی پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ دین اور سائنس میں تصادم کا مسئلہ غلط فہمی پر مبنی ہے، حقیقی نہیں۔ فی الحقیقت سائنس دین سے متصادم نہیں ہے۔ اس لئے کہ علم کا دائرہ مادے اور جسم کو گھیرے ہوئے ہے، جبکہ دین کا دائرہ جسم کی طرح (ماورائے حواس) خیراور فضیلت کو بھی حصار میں لئے ہوئے ہے۔ یہ دونوں آپس میں کیسے ٹکرائیں گے۔عصر حاضر کے بعض ملحدوں کو طرح طرح کے ایسے وہم و گمان لاحق ہوتے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ وہ ان اوہام کو بحث اور تحقیق کی بساط پر رکھ کر آپس میں مذاکرہ اور مجادلہ کرتے ہیں، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان اوہام کو بے دھڑک حقائق گمان کرلیا جاتا ہے۔ پھر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسے الجھے ہوئے امور ہیں جن میں غورفکر نہ کرنا چاہئے، ایسے ہی مسائل میں سے سائنس اور دین کے درمیان اختلاف کا مسئلہ ہے۔