’’قرآن وحدیث کی روشنی میں مکارم اخلاق ‘‘

’’قرآن وحدیث کی روشنی میں مکارم اخلاق ‘‘

 عبیداللہ ندوی

خلق کے لغوی معنیٰ ہیں ’’طبیعت‘‘ ، ’’ فطری خصلت‘‘ اسی سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے : کَانَ خلقہ القرآن یعنی: آپؐ کی طبیعت وخصلت، قرآن ، قرآنی آداب قرآنی اوامر ونواہی ، قرآنی مکارم ومحاسن اور قرآنی معانی والطاف تھی اور ابن الاعرابی ؒ فرماتےہیں کہ خلق کے لغوی معنیٰ ہیں ’’مروءت‘‘ اور دوسرا معنیٰ ہیں ’’ دین‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :  وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقِ عَظِیْم  (قلم :۴) یعنی : آپ ؐ عظیم دین پر ہیں ۔ (تاج العروس :۱۳؍۱۲۴)

در حقیقت جس طرح خلقت انسان کی ظاہری شکل وصورت ہے اسی طرح اخلاق انسان کی باطنی شکل و صورت ہیں اور دونوں کے اچھے برے اوصاف ہیں ، اوراجر وثواب کا مدار ظاہر کے مقابلہ میں باطن پر زیادہ ہوتا ہے ، چنانچہ : ابن اشیر جزریؒ فرماتے ہیں : خلق ۔ خاء کے ضمہ کے ساتھ ۔ انسان کی باطنی شکل و صورت اس کا نفس اور  خاص معانی واوصاف بمنزلۂ خلق۔ خاء کے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ ہے ۔ جس کے معنیٰ ہیں ظاہر ی شکل وصورت اورخالص معانی واوصاف ، اور دونوں کے بعض اوصاف حسنہ اور بعض قبیحہ ہوتے ہیں اورثواب وعقاب کا تعلق بمقابلۂ صورت ظاہرہ کے اوصاف کے صورت باطنہ کے اوصاف سے زیادہ ہے۔ (النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر : ۱؍۶۷) یہی وجہ ہے کہ حسن خلق کی مدح وستائش اورسوء خلق کی کراہیت ومذمت میں بے شمار آیات قرانیہ اور احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں ، ارشاد خداوندی ہے :خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ (الاعراف : ۱۹۹) ’’ آپ در گزر کواختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اورجاہلوں سے کنارہ کش ہوجائیں‘‘۔

حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’ ما أنزل اللہ الافی أخلاق الناس، وأمر اللہ ننیہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یأخذ العفو من أخلاق الناس أ وکما قال (صحیح البخاری(۴۳۶۷) کہ اللہ رب العزت نے یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل فرمائی ہے ، اوراپنے نبیؐ کولوگوں کے برے اخلاق کے نتیجہ میں جوٹھیس پہنچتی تھی اسے معاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ، دوسری جگہ فرمانِ الٰہی ہے : وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَۃٍ سَيِّئَۃٌ مِّثْلُہَا۝۰ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَي اللہِ(الشوریٰ:۴۰) ’’ اوربرائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جومعاف کردے اوراصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘‘اورسورۂ اعراف میں اپنے نبی کے حوالے سے اس امت کوتعلیم دیتے ہوئے فرمایا:  وَّاْمُرْ قَوْمَكَ يَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا(الاعراف: ۱۴۵) ’’اوراپنی قوم کوحکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ظالم سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر عفو ودر گزر کرنا احسن وبہتر ہے ۔ (شرح السنۃ للبغوی: ۳/۷۶) اورسورۂ فصلت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ(فصلت :۳۴) اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں :کہ جب لوگ غصہ کے وقت صبر وشکیبائی اوربد سلوکی کے وقت عفو و درگزر کامعاملہ کرتے ہیں ، تواللہ رب العزت ان کی حفاظت فرماتاہےاور ان کے دشمن ان کے سامنے اس طرح سرنگوں ہوجاتے ہیں گویاکہ جگری دوست ہوں۔ (شرح السنۃ للبغوی :۳/۷۶)

اور سورۂ بقرہ میں حکم الٰہی ہے : وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۝۰ۣ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا(البقرۃ: ۸۳) ’’ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، اسی طرح قرابتداروں ، یتیموں اور مسکینوں کےساتھ اورلوگوں کواچھی باتیں کہنا ‘‘۔ ابن حبانؒ فرماتے ہیں: ’ اس وعدہ کی خلاف ورزی پر گرفت کے بیان میں جواللہ رب العزت نے ان سے صرف اپنی عبادت اورصلہ رحمی ، مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک اوراسلام کے مالی وبدنی ارکان جیسے مکارم اخلاق پر لیا تھا ۔ (بحر محیط :۱/۴۵۵)

نیز حسن خلق سے آراستہ وپیراستہ ہونےپر آمادہ کرنے والی نبوی تعلیمات بکثرت آئی ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :’’ مؤمن اپنے حسن خلق کی وجہ سے مسلسل روزہ دار تہجد گزار کا درجہ پاتا ہے ‘‘ (سنن أبی داؤد:۴۸۹۸، مسند أحمد: ۲۴۵۹۵، شعب الایمان: ۷۶۳۲) چونکہ رات کوتہجد پڑھنے والا ،اور دن کو روزہ کی وجہ سے سخت گرمی میں پیاس برداشت کرنے والا اپنے حصہ کے کھانے ، پینے ، ازدواجی ضر وریات اورنیند سے دست بردار ہونے میں اپنی ذات سے مجاہدہ کرتا ہے تو گویاوہ ایک جان سے مجاہدہ کرتا ہے ، مگر جس کے مختلف قسم کی طبیعت اورمزاج کے لوگوں کےساتھ اخلاق اچھے ہوتے ہیں ، وہ گویا بے شمار جانوں سے مجاہدہ کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل روزہ دار تہجد گزار کا درجہ پاتا ہے ، بلکہ بسا اوقات حسن خلق کی وجہ سے درجہ زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔(التیسیر بشرح الجامع الصغیر : ۱/۵۷۴)

دوسری حدیث ابوہریرہؓ سے مروی ہے :’’ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں ، ،  (سنن أبی داؤد:۴۶۸۲، مسند احمد:۷۰۹۵، مسند أبی یعلیٰ عن أنس بن مالک:۴۲۴۰، مسند البزار: ۷۹۴۵، سنن الدارمی:۲۷۹۲) چونکہ اس دین کی بنیاد حسن خلق اور سخاوت وکرم گستری پر ہے ، اسی لئے بندوں کے کمال ایمان کو تولنے کا ترازو، ناپنے کا پیمانہ، اورمعلو م کرنے کی کیفیت حسن خلق ہے ۔ حسن خلق کا مفہوم نیکی کرنا ، اذیت رسانی سے  باز رہنا ، خندہ پیشانی سے ملنا، تواضع وانکساری اختیار کرنا اوراس کے علاوہ دیگر خیر وبھلائی کا کام کرنا ہے ۔ (فیض القدیر : ۱/۲۲۶) اورحسن خلق سے مراد مؤمنوں کے ساتھ حسن خلق کا مظاہرہ کرنا ہے ، اسی طرح کفار ومشرکین کے ساتھ ، اور صحیح قول کے مطابق فساق وفجار کے ساتھ بھی حسن خلق کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ (التیسیر للمناوی :۱/۳۷۸)اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’ کوئی چیز قیامت کے دن میزان عدل وانصاف میں حسن خلق سے زیادہ وزنی نہیں ہوگی ، اورحسن خلق والا حسن خلق کی وجہ سے مسلسل روزہ دار ، تہجد گزار کا درجہ پائےگا ‘‘۔(سنن الترمذی: ۲۰۰۳، ادب البخاری:۲۷۰، مسند الشامیین:۲۱۷۹) حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: صحیح یہ ہے کہ اعمال کا وزن ہوگا ، اس سے حضرت طیبیؒ کی تردید ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا قول ہے : صحائف کا وزن ہوگا ، اس لئے کہ اعمال اعراض ہیں ا ور اعراض کا وزن ممکن نہیں، اوراہل سنت والجماعت کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اعمال کا حجم وجسم بنایا جائے گا ، چنانچہ فرمابرداروں کے اعمال اچھی شکل وصورت میں ہوں گے ، اور نافرمانوں کے اعمال بد شکل وبد صورت ہوںگے ، پھر ان کا وزن ہوگا۔ (فیض القدیر : ۵/۶۱۷) اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ’’ میری بعثت اور میرے خروج وظہور کے منجملہ مقاصد میں سے ایک مقصد اتما م مکارم اخلاق بھی ہے ‘‘۔ (مستدرک الحاکم:۴۲۲۱، کبری للبیہقی:۲۰۵۷۱، مسند البزار : ۸۹۴۹ ، مسند احمد بن حنبل:۸۹۵۲، ادب البخاری:۲۷۳) اس حدیث کے مفہوم میں ہرطرح کی صلاح ودرستگی ، خیروبھلائی ، دیانت وامانت، فضل وخوبی، مروءت وانسانیت ، احسان وکرم گستری اورعدل وانصاف شامل ہے اورنبی پاک کی بعثت اس کے اتمام وکمال کے لئے ہوئی ہے۔

علماء کرام فرماتےہیں کہ مکارم اخلاق، فضل وخوبی اورنیکی وبھلائی کی جامع ترین آیت اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے :  اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ( النحل: ۹۰) ’’ اللہ تعالیٰ عدل کا ، بھلائی کا اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتا ہے ، اوربے حیائی کے کاموں ، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے ، وہ خود تمہیں نصیحتیں کررہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ‘ کہ مکارم اخلاق یہ ہیں: اچھی گفتگو لوگوں کے ساتھ سچائی ، مسائل کے پکار پر جواب، بدلہ وصلہ رحمی، حفظ امانت ، مہمان نوازی وغیرہ ، اورشرم وحیاء مکارم اخلاق کا سر ہے ، اورمزید فرماتی ہیں کہ مکارم اخلاق کبھی باپ میں ہوتا ہے تو بیٹا میں نہیں ، اوربیٹا میں ہوتا ہے توباپ میں نہیں ا ورکبھی آقا میں ہوتا ہے تو غلام میں نہیں اورغلام میں ہوتا ہے تو آقا میں نہیں، اللہ جیسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔

اورابوالعتاہیہ نے کیا ہی خوب کہا ہے :

لیس دنیا اِلا بدین                            ولیس الدین الامکارم الأخلاق

انما المکرو الخدیعۃ فی النار              ہما من فروع أہل النفاق

دنیا تو صرف دین ہے ، اوردین تو صرف مکارم اخلاق ہے ۔ درحقیقت مکرو فریب جہنم میں لے جاتی ہے ، اوریہ دونوں منافقوں کا شیوہ ہیں ۔ (التعقید لابن عبدالبر:۲۴/۳۳۴)

خلاصہ کلام یہ کہ دین اسلام معاملات کا دین ہے اورمعاملات کی بنیاد حسن خلق پر ہے، اسلئے اس سلسلے میں بے شمار الٰہی احکام اورنبوی تعلیمات وارد ہوئی ہیں ، اللہ رب العزت سے دعا ہےکہ ہمیں مکارم اخلاق سے مزین وآراستہ ہونے اور قرآنی تعلیمات اورنبوی ارشادات پر عمل کی توفیق بخشے ۔آمین ‘‘

وماتوفیقی الا باللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.