ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی
ماہ صیام کی آمد پر اس کا استقبال، اس پر مسرت وانبساط کا احساس، اس کی آمد کا انتظار اور اس سے استفادہ کے لئے اللہ سے طلبِ توفیق ایمان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے، نیکیوں اور خیر وبرکات کے فصلِ بہار کا انتظار اور اس پر خوشی ہر اس شخص کو ہوتی ہے جو بہار کے موسم میں کھیتی کرنا چاہتا ہو تاکہ اس کے پاس آخرت کے لئے ایک اچھا ذخیرہ تیار ہو سکے، وہ مہینہ جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہو،جو سراپا مبارک ہو، جو قوت ایمانی اور جسمانی سلامتی کے حصول ،جود وسخا اور بذل وعطا اور رجوع الی اللہ کا مہینہ ہو، جس میں سرکش شیاطین کو مقیدکردیا جاتا ہو، جنت کے دروازے وا اور جہنم کے دروازے بندکئے جاتے ہوں،اس مہینہ کا استقبال تو جزو ایمانی قرار پاتا ہے، سلفِ صالحین اس ماہ کے استقبال کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے تھے اور اس کے لئے ہر طرح کی تیاری کرتے تھے، اپنے آپ کو اس کے لئے فارغ کر لیتے تھے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔
استقبال رمضان کے پیشِ نظر نبی کریمﷺ صحابہ کرامؓ کو بشارت سناتے اور فرماتے کہ” تمہارے اوپر رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوا ہے جو مبارک مہینہ ہے، اللہ عزوجل نے اس کے روزے تم پر فرض کئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں، اس میں سرکش شیاطین مقید کئے جاتے ہیں، اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ محروم ہی رہ گیا۔“(سنن نسائی)
علامہ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں:”ایک مو¿من کیوں کر جنت کے دروازے کھلنے پر خوش نہیں ہو گا اور ایک گناہ گار کیوںکر جہنم کے دروازے بند کرنے پر خوش نہیں ہوگا، ایک عقلمند کیوںکر ایک ایسے وقت کی آمد پر خوش نہیں ہوگا جس میں شیاطین مقید کئے جاتے ہیں۔“
معلی بن فضلؒ فرماتے ہیں کہ” سلفِ صالحین چھ ماہ تک اللہ تعالیٰ سے رمضان تک پہنچنے کی توفیق کی دعا کرتے تھے اور پھرچھ ماہ تک یہ دعا کرتے رہتے کہ اللہ ان کے روزوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔“
علامہ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں کہ رمضان تک پہنچنے کی توفیق ملنا اور اس کے روزے رکھنا اس شخص کے لئے عظیم نعمت ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کا موقع عنایت فرمائے، اُس حدیث سے اس کی دلیل ملتی ہے جس میں دو صحابہ کا تذکرہ ہے، ان میں سے ایک شہید ہو جاتے ہیں جب کہ دوسرے ان کے بعد وفات پاتے ہیں،لیکن ان کو خواب میں اس طور پر دیکھا گیا کہ بعد میں وفات پانے والے جنت میں پہلے داخل ہوتے ہیں۔ جب رسول اللہﷺ سے اس بابت دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا :”کیااس نے پہلے والے کے بعد اتنی نمازیں نہیں پڑھیں، اور اس کو رمضان ملا تو اس نے اس کے مزید روزے بھی رکھے، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ان کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا آسمان وزمین کے درمیان کا فرق ہے۔“ (مسند ا¿حمد:۳۰۴۱)
اس لئے اس عظیم نعمت کے حصول پر جتنا بھی شکر کیا جائے وہ کم ہے، ماہِ صیام کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع کی جائے، اس کا اس انداز سے استقبال کیا جائے جیسے کہ خشک زمین بارش کا، مریض ڈاکٹر اور معالج کا، اور محب اپنے محبوب ِ منتظر کا استقبال کرتے ہیں،استقبالِ رمضان کے لئے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کئے جائیں تو کیا ہی بہتر ہو:
٭ یہ دعا کی جائے کہ اللہ مجھے رمضان تک صحت وعافیت کے ساتھ پہنچائے، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے فرماتے ہیںکہ جب رجب کا مہینہ آتا تھا تو رسول اللہﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان“۔(مسند ا¿حمد، طبرانی)” اے اللہ! رجب وشعبان کو ہمارے لئے بابرکت بنا،اور ہمیں رمضان تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما“۔
٭ رمضان کے خصائص وفضائل کا استحضار کیا جائے، تاکہ اس کی اہمیت ومقام تازہ ہو جائے، اپنے آپ کو نفسیاتی اور روحانی اعتبار سے تیار کیا جائے، رمضان سے متعلق آیات قرآنیہ، احادیثِ نبویہ کا از سر نو مطالعہ کیا جائے، رمضان سے متعلق کسی کتاب یا پمفلٹ کا مطالعہ کرکے اپنے شوق کو مہمیز دیا جائے، نبی کریمﷺ صحابہ¿ کرام کے دلوں کو استقبالِ رمضان اور اس سے استفادہ کے لئے تیار کرتے تھے، رمضان کی آمد کا اہمیت کے ساتھ ان کے سامنے تذکرہ کرتے تھے۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
٭رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے خالص نیت کے ساتھ عزمِ مصمم کیا جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ: ”وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا“۔ ( سورہ¿ محمد:۱۲)
٭ رمضان کے احکام ومسائل سے واقفیت حاصل کی جائے اس لئے کہ کسی بھی عبادت کی ادائیگی اس کے بارے میں صحیح علم وتفقہ پر موقوف ہے، مسائل سے واقفیت اور احکام سے آگہی شوق اور رغبت کی دلیل ہے۔
٭ رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے، اپنے آپ کو فارغ کر لیا جائے، غیر ضروری اسفار کو مقدم یا مو¿خر کیا جائے، دنیاوی کاموں کے لئے ہم منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن کم ہی خوش بخت لوگ دینی امور کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں، رمضان کا پہلے سے مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جائے، خاص طور پر اس مہینہ کو قرآن اورقرآنی علوم کے لئے خاص کیا جائے،حفظ قرآن کے لئے خاکہ مرتب کیا جائے، جیسے کہ امام مالکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس ماہ میں احادیث وغیرہ کے بجائے قرآن کی جانب متوجہ ہو جاتے تھے، اس لئے کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے ، قرآن سے سب سے زیادہ استفادہ اسی ماہ میں کیا جا سکتا ہے، سحر خیزی سے لے کر قیام اللیل تک کا نظام الاوقات اس طور پر مرتب کیا جائے کہ وقت کا کوئی بھی حصہ ضائع نہ ہو۔
٭ اہلِ خانہ اور قرابت داروں کی تربیت کے لئے یومیہ یا ہفتہ واری دروس کا خاص اہتمام کیا جائے، تاکہ سب لوگ اجتماعی طور پر ماہِ صیام سے استفادہ کر سکیں۔
٭ رمضان میں دعوتی کاموں کے لئے پہلے سے خاکہ تیار کیا جائے، رمضان سے متعلق دروس کی تیاری اور مطالعہ کے لئے کتابوں اور لٹریچر کی تقسیم کی تیاری کی جائے، اگر ”ہدیہ رمضان“ کے نام سے ایک گفٹ پیک تیار کیا جائے تو کیا ہی بہتر ہو جس میں چند کتابیں ،کیسٹ یا سی ڈی یا کوئی علمی تحفہ رکھ کر اہلِ تعلق کو پیش کیا جائے، دعوت کے بہت سے طریقے اور بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں۔
٭کتابِ زندگی کے روشن اور صاف وشفاف صفحہ کے ذریعہ رمضان کا استقبال کیا جائے، اللہ کے دربار میں سچی توبہ کی جائے، رسول اللہﷺ کی اوامر ونواہی کے معاملہ میں اطاعتِ کاملہ کا عزمِ مصمم کیا جائے، والدین، اعزہ واقارب، بیوی بچوں کے ساتھ صلہ رحمی کے جذبہ کو بیدار کیا جائے،معاشرہ کے لئے صالح ونافع انسان بن کر اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے، ارشاد نبویﷺ ہے: ”خیر الناس ا¿نفعہم للناس“ ۔ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔
٭ سگریٹ، تمباکو اور دیگر نشہ آور اشیاءکے عادی لوگوں کے لئے رمضان سب سے بہتر موقع ہے جس میں وہ دنیا وآخرت کے اعتبار سے ضرر رساں اس وبا سے آزادی حاصل کر سکتے ہیںبشرطیکہ وہ عزمِ مصمم کر لیں۔
٭ مالی عبادت،صدقہ وزکوٰة اور فقراءومساکین پر خرچ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا جائے ، اس کے لئے منصوبہ بندی کی جائے،رمضان کے مہینہ میں زکوٰة وصدقات کی ادائیگی اجر وثواب کو دو چند کر نے کا اہم ترین سبب ہے، رسول اللہﷺ رمضان کے مہینہ میں تیز ہوا کی طرح سخاوت فرمایا کرتے تھے۔
اس طرح سے رمضان کا استقبال کریں کہ اللہ کو بھی اپنے بندوں کا انتظار وشوق دیکھ کر رحم آجائے کہ میرے بندے میری رحمت ومغفرت اور جہنم سے آزادی کے کس قدر منتظر ہیں اور اخلاص وللہیت اور صدق وصفائی دیکھ کر اللہ کی رحمت جوش میں آجائے اور ماہِ مبارک کے آتے ہی رب کی طرف سے رحمتوں کی بارش ہو، عفو درگزر سے بندے کا دامن بھر دیا جائے اور جہنم سے آزادی اور جنت کا استحقاق بھی مقدر کر دیا جائے، بس سراپا شوق بن جائیے، اپنے دامن کو رمضان کی برکتوں اور رحمتوں کے لئے کشادہ کر دیجئے، رب کریم کی توجہات کے مستحق بن جائیے، عجب نہیں کہ یہی رمضان ہمارے لئے ایک نئی زندگی، ایک نیا رخ اور ایک نیا جذبہ پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے، اور پھر ہمارے لئے اور پوری امت مسلمہ کے لئے ماہِ رمضان ”شہر الفرقان“ بن جائے، سراپا استقبال وانتظار بن کر اور دیدارِ یار جیسا شوق دکھا کر قدم آگے بڑھائیں اور رحمتوں اور برکتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔
اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج کلہوتران، ڈوڈہ
email:[email protected]
٭٭٭٭٭