سری نگر:وادی کشمیر اس وقت ایک غیر معمولی ماحولیاتی چیلنج سے دوچار ہے، جہاں حالیہ طویل خشک موسم نے قدرتی آبی وسائل کو شدید متاثر کیا ہے۔ ماہرین اس صورتحال کو موسمیاتی تبدیلی سے جڑی ایک ’مختصر خشک سالی‘ قرار دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وادی کے متعدد چشمے اور ندی نالے یا تو مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں یا ان میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال نے وادی کے ان وسیع علاقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جہاں پینے کے پانی کے لیے قدرتی چشمے ہی بنیادی سہارا سمجھے جاتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق جموں و کشمیر کو حالیہ عرصے میں 85.8 فیصد بارش کی شدید کمی کا سامنا رہا ہے۔ 5 نومبر کے بعد سے بیشتر اضلاع میں یا تو بارش نہیں ہوئی یا انتہائی معمولی بارش ریکارڈ کی گئی، حالانکہ اس مدت کے دوران خطے میں اوسطاً 43.1 ملی میٹر بارش ہونی چاہیے تھی۔ بارش اور برف باری کی اس غیر معمولی کمی نے قدرتی آبی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں واقع ترال کے آری پل چشمے اور بلبل چشمے مکمل طور پر خشک ہو چکے ہیں، جو کبھی مقامی آبادی کے لیے پانی کا مستقل ذریعہ تھے۔ اسی طرح تاریخی اہمیت کے حامل اچھبل چشمے میں پانی کے بہاؤ میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس سے ان درجنوں دیہات کے لیے پانی کی فراہمی خطرے میں پڑ گئی ہے جو اس پر انحصار کرتے ہیں۔
ندی نالوں کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ رمبہ آرا سمیت کئی چھوٹے بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح معمول سے کہیں کم ہے، جبکہ کئی مقامات پر دریا کا پاٹ طویل حصوں میں خشک اور نمایاں نظر آ رہا ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی صورتحال دیکھی ہے۔
ماہرین کے مطابق کشمیر میں بارش اور برف باری کے روایتی نظام میں بنیادی تبدیلی آ چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں پہاڑوں پر ہونے والی برف باری قدرتی ذخیرہ (سیزنل اسٹوریج) کا کام کرتی تھی، جو موسم بہار میں پگھل کر زیر زمین آبی ذخائر کو دوبارہ بھر دیتی تھی، جس سے چشموں میں پانی کا بہاؤ برقرار رہتا تھا۔
ان کے مطابق اب برف باری کی جگہ بارش نے لے لی ہے، جو زمین میں جذب ہونے کے بجائے تیزی سے بہہ جاتی ہے اور زیر زمین آبی ذخائر کو ری چارج نہیں کر پاتی۔ اس کے نتیجے میں گراؤنڈ واٹر لیول میں مسلسل کمی آ رہی ہے، جس کا براہِ راست اثر چشموں پر پڑ رہا ہے، کیونکہ چشمے دراصل زیر زمین پانی کے قدرتی اخراجی راستے ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا بلکہ گزشتہ تین سے چار دہائیوں سے اس کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ موسمیاتی ماہرین نے تحقیقی مطالعات اور نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر ہمالیہ کے خطے میں 50 فیصد سے زائد چشمے یا تو خشک ہو چکے ہیں یا انتہائی کمزور ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اس زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے، تاہم بے تحاشہ تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور قدرتی واٹر ریچارج زونز کی تباہی نے بھی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
صدیوں سے کشمیر کے یہ چشمے، جنہیں مقامی زبان میں ’ناگ‘ کہا جاتا ہے، دیہی زندگی، زراعت اور ثقافتی روایات کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ دیہات کی آبادی، کھیتوں کی سیرابی، مویشیوں کی پرورش اور روزمرہ زندگی انہی چشموں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں موجود تقریباً 2,500 درج شدہ چشموں میں سے 60 فیصد سے زائد یا تو خشک ہو چکے ہیں یا آلودگی کے باعث استعمال کے قابل نہیں رہے، جس سے آنے والے وقت میں شدید آبی بحران کے خدشات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق موسم سرما کے دوران پانی کے مؤثر انتظام کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جن میں پانی کے محتاط استعمال کو فروغ دینا، چشموں کے قدرتی ذرائع پر ضابطہ کاری، اور عارضی پتھریلے بند (اسٹون بنڈز) تعمیر کرنا شامل ہے تاکہ پانی کو ضائع ہونے سے روکا جا سکے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا اور قدرتی آبی ذخائر کے تحفظ کے لیے ٹھوس پالیسیاں نافذ نہ کی گئیں تو وادی کشمیر کو مستقبل قریب میں ایک شدید اور دیرپا پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف انسانی زندگی بلکہ زراعت، معیشت اور ماحولیات پر بھی گہرے ہوں گے۔
یہ صورتحال ایک واضح انتباہ ہے کہ قدرت کے بدلتے رویے کے ساتھ ہم آہنگ منصوبہ بندی اور پائیدار آبی نظم و نسق اب محض انتخاب نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔




