پیر, نومبر ۱۷, ۲۰۲۵
17.6 C
Srinagar

بنگلہ دیش میں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دینے کا الزام، شیخ حسینہ کو سزائے موت سنا دی گئی

مانیٹرنگ ڈیسک

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن سے متعلق مقدمے میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت سنائی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے شیخ حسینہ انڈیا میں موجود ہیں اور اس کیس کا فیصلہ ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا ہے۔ان پر گذشتہ سال طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دینے کا الزام تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ان مظاہروں کے دوران 1400 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ گذشتہ ہفتے بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ نے اپنے خلاف عائد کردہ الزام کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے خلاف پہلے سے طے شدہ فیصلہ سنایا جائے گا۔

بنگلہ دیش میں اس کیس کے لیے قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹرائبیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال اور سابق آئی جی پولیس عبداللہ المامون کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔

ٹرائبیونل نے کہا کہ شیخ حسینہ نے ’ڈرون، ہیلی کاپٹروں اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا حکم دی‘ جبکہ سابق وزیر داخلہ اور آئی جی نے ’ہتھیاروں کے استعمال کے حکم پر عمل کیا۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ ملزمان نے ’جو جرائم کیے ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ سزا کے مستحق ہیں۔‘پیر کو شیخ حسینہ کے خلاف فیصلہ سنائے جانے سے قبل دارالحکومت ڈھاکہ میں سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے تھے۔ اس دوران ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پراسیکیوٹرز نے عدالت سے شیخ حسینہ کو سزائے موت دینے کی استدعا کی تھی جبکہ شیخ حسینہ خود پر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتی ہیں۔پیر کو عدالت میں کیس کے تین ملزمان میں سے صرف ایک موجود تھا۔ سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللہ المامون نے صحت جرم قبول کیا تھا اور وہ سلطانی گواہ بن گئے تھے۔شیخ حسینہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے انڈیا میں رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال بھی روپوش رہے ہیں۔

شیخ حسینہ کے خلاف فیصلے میں کیا ہے؟

یہ فیصلہ جسٹس محمد غلام مرتضیٰ مجمدار کی سربراہی میں تین رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹرائبیونل نے سنایا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شیخ حسینہ کے خلاف تین الزامات ثابت ہوئے جن میں سے ایک پر عمر قید جبکہ دو پر سزائے موت دی گئی ہے۔

پراسیکیوشن نے بارہا عدالتی سماعتوں کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ ‘شیخ حسینہ جولائی کی بغاوت کے دوران انسانیت کے خلاف تمام جرائم کی ‘ماسٹر مائنڈ’، ‘منصوبہ ساز’ اور ‘اعلی سطح پر حکم دینے والی اہلکار’ تھیں۔

یہ ٹرائبیونل پہلی بار معزول عوامی لیگ کی حکومت کے دوران 1971 میں انسانیت کے خلاف جرائم کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اس بار ٹرائبیونل کی تشکیل 5 اگست 2024 کو عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد کی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے خلاف جولائی کی بغاوت کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا پہلا مقدمہ دوبارہ تشکیل شدہ ٹریبونل نے دائر کیا تھا۔

از سر نو تشکیل شدہ ٹرائبیونل کا پہلا ٹرائل گذشتہ سال 17 اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔ اسی دن ٹرائبیونل نے کیس میں شیخ حسینہ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا۔

اس وقت شیخ حسینہ اس کیس میں واحد ملزم تھیں۔ بعد ازاں رواں سال مارچ میں ٹرائبیونل نے سابق وزیر داخلہ اور سابق آئی جی پولیس کو کیس میں ملزم بنانے کی استغاثہ کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے ٹرائبیونل کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم 6 جنوری 2009 سے 5 اگست 2024 کے درمیان درج کیے گئے۔جولائی کے دوران ٹرائبیونل نے تین ملزمان کے خلاف پانچ الزامات کی باقاعدہ فرد جرم کے ساتھ مقدمے کی سماعت شروع کرنے کا حکم دیا۔

اس کیس میں شیخ حسینہ اور تین دیگر کے خلاف لگائے گئے پانچ الزامات تھے:

  • اشتعال انگیز بیانات دینا
  • ہیلی کاپٹر، ڈرون اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو ‘مارنے اور ختم کرنے کے احکامات’ دینا
  • رنگ پور کی بیگم روکیہ یونیورسٹی کے طالب علم ابو سعید کے قتل کے لیے اُکسانے، سازش، اور اس میں ملوث ہونے کے الزامات
  • گذشتہ سال 5 اگست کو ڈھاکہ کے چنکھر پل علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے مبینہ طور پر چھ افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا
  • اشولیہ میں ایک زندہ سمیت چھ افراد کو مبینہ طور پر جلا کر ہلاک کیا گیا

اس کیس میں تحریک کے شرکا، عینی شاہدین اور زخمیوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں سمیت کل 54 افراد نے گواہی دی۔اس کے علاوہ شیخ حسینہ کی گفتگو کی آڈیو اور ویڈیو، میڈیا رپورٹس اور پکڑی گئی گولیوں کو بطور ثبوت ٹرائبیونل میں پیش کیا گیا۔گواہی لینے کے بعد کیس میں دلائل 12 اکتوبر کو شروع ہوئے اور 23 اکتوبر کو ختم ہوئے۔

اس دن چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام اور اٹارنی جنرل محمد اسد الزمان نے جولائی کی بغاوت کے دوران ‘انسانیت کے خلاف جرائم’ پر شیخ حسینہ اور اسد الزماں خان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

شیخ حسینہ، بنگلہ دیش اور انڈیا کے موقف

اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گذشتہ سال موسم گرما میں مظاہروں کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سابق وزیرِ اعظم پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں کی ’ماسٹر مائنڈ‘ ہیں۔ شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

رواں سال بی بی سی آئی نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے فون کی ایک ایسی آڈیو کی تصدیق کی جس سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ سال بنگلہ دیش میں طلبہ کی سربراہی میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاون کرنے کا حکم انھوں نے ہی دیا تھا۔

اس آڈیو میں، جو مارچ میں آن لائن لیک ہوئی، حسینہ واجد کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ مظاہرین کے خلاف ‘مہلک ہتھیار استعمال کریں اور جہاں بھی انھیں دیکھیں، گولی مار دیں۔’

اس ریکارڈنگ میں حسینہ واجد کو ایک سینیئر حکومتی اہلکار سے بات چیت کرتے سنا جا سکتا ہے جو اب تک سامنے آنے والا سب سے اہم ثبوت ہے کہ انھوں نے حکومت مخالف مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا۔

بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ ان پر عائد کردہ الزام درست نہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے خلاف ‘کینگرو کورٹ’ کو سیاسی مخالفین کنٹرول کر رہے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں عدالتی کارروائی کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔

شیخ حسینہ کا دعویٰ ہے کہ اس ٹرائل میں ان کے خلاف ‘پہلے سے طے شدہ’ فیصلہ سنایا جائے گا۔

حال ہی میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا حسینہ واجد کی ‘حمایت’ کر رہا ہے۔ تاہم انڈیا کا موقف ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت کرتا ہے اور مقبول مینڈیٹ کے بعد جو بھی حکومت سامنے آئے گی اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

انڈیا سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے حسینہ سے متعلق معاملات کو ‘عدالتی اور قانونی’ مسائل کے طور پر بیان کیا ہے جس کے لیے دونوں پڑوسیوں کے درمیان ‘مشاورت’ ضروری ہے۔

شیخ حسینہ کیسے طاقتور رہنما بنیں؟

شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔

وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔اس وقت سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔

Popular Categories

spot_imgspot_img