منگل, ستمبر ۲, ۲۰۲۵
18.2 C
Srinagar

قومی شاہراہ پر ٹریفک کی معطلی سے سیب کے تاجر پریشان، حکومت سے متبادل راستوں اور خصوصی ٹرین سروس کا مطالبہ

سری نگر: وادی کشمیر میں گرچہ ان دنوں سیب باغوں میں درختوں سے سیب توڑنے اور ان کو پیک کرنے کی سرگرمیاں بام عروج پر ہیں تاہم وادی کی لائف لائن کہلائی جانے والی سری نگر-جموں قومی شاہراہ کی مسلسل بندش نے میوہ بیوپاریوں اور باغ مالکان کو پریشانیوں کے اتھاہ دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

بیوپاریوں کا ماننا ہے کہ امسال سیب کی فصل بہتر اور معیاری ہے لیکن خراب موسمی صورتحال کے باعث قومی شاہراہ کی مسلسل اور طویل بندش ان کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

سری نگر کے مضافاتی علاقے گلاب کے ایک میوہ تاجر نذیر احمد نے یو این آئی کو بتایا:’اگرچہ پیداوار اچھی ہے، لیکن قومی شاہراہ بند رہنے کی وجہ سے مال باہر بھیجنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ سیب کو زیادہ سے زیادہ دس سے پندرہ دن تک ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘اگر حکومت فوری طور پر متبادل راستہ یا کوئی خصوصی سہولت فراہم نہیں کرے گی تو بڑے پیمانے پر نقصان یقینی ہے’۔

ایک اور تاجر فیاض احمد کا کہنا تھا کہ رواں برس سیب کی قیمتیں بازار میں اچھی ہیں اور مانگ بھی زیادہ ہے، مگر قومی شاہراہ کی بار بار کی بندش نے تاجروں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا:’ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سیب کے تاجروں کو راحت دینے کے لیے خصوصی ٹرین سروس فراہم کی جائے تاکہ ہماری محنت ضائع نہ ہو’۔

ماہرین کے مطابق کشمیر ملک کے کل سیب پیداوار کا تقریباً 75 تا 78 فیصد فراہم کرتا ہے، جس کی سالانہ پیداوار 20 تا 25 لاکھ میٹرک ٹن کے درمیان رہتی ہے۔

سیب کی فصل کو وادی کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے، جو لاکھوں لوگوں کے لیے براہِ راست اور بالواسطہ روزگار فراہم کرتی ہے۔

بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس شعبے کو سب سے بڑا چیلنج سرد خانوں کی کمی ہے، جس کی وجہ سے ہر سال بڑی مقدار میں میوہ ضائع ہوجاتا ہے یا کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نےگذشتہ برسوں میں اس شعبے کی ترقی کے لیے ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن اسکیم اور ای۔نام پورٹل جیسی سہولیات متعارف کرائی ہیں، جس سے معیاری پودے لگانے اور مارکیٹنگ میں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے کہا: ‘ لیکن جب تک شاہراہ کی بندش اور نقل و حمل کے مسائل حل نہیں کیے جاتے، ان اسکیموں کا اصل فائدہ کسان اور تاجر تک نہیں پہنچ پاتا’۔

ادھر اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیب کے شعبے کو سنبھالنے کے لیے متبادل ٹرانسپورٹ روٹس، ریلوے کارگو سروسز، اور بڑے پیمانے پر کولڈ اسٹوریج کی سہولیات فراہم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، ورنہ وادی کی معیشت کو ہر سال اربوں کا نقصان ہوتا رہے گا۔

وسطی ضلع بڈگام کے اعجاز احمد نامی ایک باغ مالک نے بتایا: ‘ہم سال بھر محنت اور کافی خرچہ کرکے باغ میں میوہ تیار کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ اس کو بیچ کر اس پر ہونےو الے خرچے کی بھرپائی بھی ہوگی اور کچھ بچت بھی ہوگی جس سے اخراجات خانہ پورے ہوں گے لیکن قومی شاہراہ کے بند ہونے سے ہماری پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں’۔
انہوں نے کہا: ‘حکومت کو چاہئے کہ وہ میوہ کو کشمیر سے باہر ٹرانسپورٹ کرنے کے لئے ایک ایک خصوصی منصوبہ سازی کرے تاکہ باغ مالکان اور میوہ تاجروں کو نقصان سے بچایا جا سکے’۔

Popular Categories

spot_imgspot_img