سری نگر: وادی کشمیر میں ان دنوں ناشپاتی اتارنے کا کام شد ومد سے جاری ہے تاہم پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہونے سے کسان مایوس نظر آرہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غیر معیاری جراثیم کش ادویات اور شدید گرمی نے پیداوار کو شدید نقصان پہنچایا ہے،جس کے باعث اس سال فصل تقریباً نصف رہ گئی ہے۔
سری نگر سے تعلق رکھنے والے ایک باغ مالک فاروق احمد نے یو این آئی کو بتایا ’ ہم نے ساری امید اس فصل سے باندھی تھی، مگر غیر معیاری اسپرے نے درختوں کے پتے جلا دیے اور پھل کا معیار بھی گر گیا اور پھر رہی سہی کسر اس گرمی نے پوری کر دی۔‘
کسانوں کے مطابق اس سال ناشپاتی کی پیداوار میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر غیر معیاری ادویات کی خرید وفروخت پر قابو نہ پایا تو آئندہ برسوں میں وادی کی میوہ صنعت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
چرار شریف کے ایک اور باغ مالک، شاہین امین نے کہا’ہم بازار سے ادویات خریدتے ہیں، مگر ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی، افسران کو چاہیے کہ اسپرے ادویات کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کریں، تبھی کسان محفوظ رہ سکتا ہے۔‘
سری نگر سے تعلق رکھنے والے نذیر احمد، جو ایک مقامی میوہ بیوپاری ہیں، کا کہنا ہے کہ اس بحران نے صرف باغ مالکوں کو ہی نہیں بلکہ منڈیوں کے تاجروں کو بھی بڑا مالی نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا ’پیداوار کم ہوئی تو سپلائی گھٹ گئی اور جب سپلائی گھٹے گی تو منڈی کے ریٹ ضرور بڑھیں گے۔ اس سے صارفین کو بھی نقصان ہوگا۔‘
کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وادی کشمیر میں بھی کراپ انشورنس اسکیم نافذ کی جائے جس طرح یہ اسکیم ملک کی دیگر ریاستوں میں پہلے سےنافذ ہے تاکہ قدرتی آفات یا اس طرح کے زرعی بحران کی صورت میں کسانوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور مارکیٹ میں غیر معیاری زرعی مصنوعات کی موجودگی وادی کی میوہ صنعت کے لیے ایک ڈبل چیلنج بن چکی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر بروقت اور سخت اقدامات نہ کیے گئے تو ناشپاتی کے ساتھ ساتھ سیب اور دوسری فصلیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔