جمعرات, مئی ۱۵, ۲۰۲۵
27.8 C
Srinagar

کشیدگی، جنگ بندی اور اس کے بعد۔۔۔۔

پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والا ہولناک حملہ، جس نے کئی معصوم جانیں نگل لیں، ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی اب صرف ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ بھارت نے نہ صرف فوری اور فیصلہ کن عسکری اقدامات کے ذریعے اس حملے کا مو¿ثر جواب دیا بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی دیا کہ دہشت گردی کے خلاف وہ اب کوئی نرمی برتنے کو تیار نہیں۔ جو لکیر بھارت نے آپریشن سندور کے ذریعے کھینچی ہے، وہ محض عسکری نہیں بلکہ اخلاقی اور قومی خودداری پر مبنی ہے ، اور یہی وہ لکیر ہے جو جنوبی ایشیا میں امن کی نئی تعریف طے کرے گی۔تین روزہ شدید گولہ باری، سرحد پار کارروائیاں اور سفارتی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ بھارت اب کسی بیرونی یا اندرونی دباو¿ میں آ کر اپنے قومی مفادات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ جنگ بندی کا اعلان خواہ واشنگٹن کی وساطت سے ہوا ہو، بھارت نے اپنی خودمختاری اور فیصلہ سازی کی آزادی کو ہر محاذ پر برقرار رکھا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ بھارت کی سفارتی یلغار، چاہے ترکی کے میڈیا پر پابندی ہو،آذربائیجان سے درآمد اور برآمد پر روک ،سفری آوا جاہی مسدودہو یا سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی، دراصل ایک اسٹرٹیجک پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد قومی سلامتی کو ہر قیمت پر یقینی بنانا ہے۔آج اگر بھارت نے بگلیہار اور سلال ڈیمز سے پانی کی فراہمی کو محدود کرنے کا عندیہ دیا ہے تو یہ نہ صرف ایک دفاعی قدم ہے بلکہ اس کے پیچھے یہ پیغام بھی چھپا ہے کہ پاکستان کی سرزمین سے ہونے والی دراندازی کو اب صرف روایتی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ وسیع تر پالیسی فیصلوں سے روکا جائے گا۔ بھارت کی یہ حکمت عملی خاموش ضرور ہے مگر اس کی گونج دیرپا ہے۔ یہی پالیسی آگے چل کر ایک نئے توازن کو جنم دے سکتی ہے، جس میں امن دہشت گردی کے مکمل خاتمے سے مشروط ہوگا۔
البتہ یہ بات بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ہر کشیدگی کے بعد بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا، جمہوری ریاستوں کی شناخت ہوتا ہے۔ بھارت نے بارہا کہا ہے کہ وہ امن کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ وہ امن گولیوں کے سائے میں نہ ہو۔ لہٰذا، چاہے ملکی سطح پر ہوں یا بین الاقوامی، مذاکرات کی میز سجانا اب بھی ایک اہم ضرورت ہے، لیکن ان مذاکرات کی بنیاد زمینی حقیقتوں پر ہونی چاہیے، نہ کہ جذباتی نعرے بازی پر۔اس خطے میں امن اسی وقت ممکن ہے جب تمام فریق یہ تسلیم کریں کہ دہشت گردی کسی بھی ریاست کی تائید سے پاک ہونی چاہیے۔آج بھارت نے جو واضح، مو¿ثر اور طاقتور لکیر کھینچی ہے، وہ نہ صرف اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے ہے بلکہ پورے خطے میں امن کی ایک نئی جہت متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ باقی دنیا بھی اس حقیقت کو سمجھے اور دہشت گردی کے خلاف اس لڑائی میں بھارت کے ساتھ کھڑی ہو۔

Popular Categories

spot_imgspot_img