امن، انسانیت کی سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ محض ایک حالت نہیں بلکہ ایک تہذیب ، ایک طرز فکر، ایک انداز حیات ہے۔ جب فضاو¿ں میں امن کا رنگ بکھرتا ہے تو زمیں گلزار بن جاتی ہے، دلوں میں وسعت آتی ہے، اور نسلیں مستقبل کی جانب نرمی سے بڑھتی ہیں۔ لیکن جب بارود کی بو ہوا میں گھلتی ہے، جب گولیاں لفظوں کا جواب بنتی ہیں اور جب معصوموں کی لاشیں دلیل بنائی جاتی ہیں، تب صرف انسان ہی نہیں مرتا، انسانیت دفن ہو جاتی ہے۔دنیا نے کئی جنگیں دیکھی ہیں، خون کے دریا بہتے بھی دیکھے ہیں، لیکن سوال آج بھی وہیں کھڑا ہے،’ کیا کسی جنگ نے واقعی کوئی مسئلہ حل کیا؟ ‘’جنگ و جدل، خون خرابہ، دہشت گردی‘،یہ سب انسانوں کی وہ شکستیں ہیں جو وہ خود کو ہی دے بیٹھتے ہیں۔ جو معصوم بچوں کی ہنسی چھین لیں، وہ فتح نہیں ہو سکتی، جو ماں کی گود اجاڑ دے، وہ طاقت نہیں کہلا سکتی۔
دہشت گردی کا تعلق نہ کسی مذہب سے ہوتا ہے، نہ کسی خطے سے۔ یہ ایک سوچ ہے،مری ہوئی، بیمار اور درندہ صفت سوچ ۔ کسی بھی مذہب نے انسان کو مارنے کا درس نہیں دیا۔ ہر آسمانی کتاب نے زندگی کو حرمت دی، نہ کہ موت کو جواز۔امن اگر باغ ہے تو جنگ اس کا خار دار کانٹا ہے۔ امن اگر گیت ہے تو جنگ اس کی چیخ ہے۔ بارود کبھی خوشبو نہیں بن سکتا، نہ بندوق کی زبان پھولوں کی بولی بول سکتی ہے۔ جب جنگ کے میدان میں لاشیں گرتی ہیں تو صرف ایک سپاہی نہیں، پیچھے اس کا پورا خاندان دفن ہو جاتا ہے۔ ایک غریب چھت سے محروم ہوتا ہے، ایک یتیم کی عید چھن جاتی ہے اور ایک بیوہ کا سنورنے والا کل خاک ہو جاتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ جنگ کے حق میں بولنے والے اکثر وہ ہوتے ہیں جو خود کبھی میدان میں نہیں اترتے۔ وہ اے سی کمروں میں بیٹھ کر لفظوں سے بارود اگالتے ہیں، لیکن ایک لمحے کو بھی انہیں میدانِ جنگ کی دھوپ، گولیوں کی سنسناہٹ، اور خون کے چھینٹوں کا سامنا نہیں ہوتا۔ اگر انہیں ایک دن میدان میں اتار دیا جائے، تو انہیں اندازہ ہو کہ جنگ اور میز پر بحث کرنے میں کیا فرق ہے۔
آج دنیا ایک’گلوبل ولیجُ ‘بن چکی ہے۔ اس بستی میں ہر قوم، ہر نسل، ہر عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس بستی کا اصول تصادم نہیں، تعامل ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنا ہوگا، اختلاف کو دشمنی نہیں بلکہ فکری تنوع سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دہشت گردی یا شدت پسندی جیسے مسائل کا مقابلہ ہتھوڑے سے نہیں، ذہانت، ہمدردی اور حکمت سے کرنا ہوگا۔’ہیمر پالیسی‘کے بجائے ’ہارٹ پالیسی‘ اپنانا ہوگی اور سب سے بڑھ کر، مذہب کے نام پر تقسیم نہیں بلکہ اتحاد کی دیوار کھڑی کرنا ہوگی۔ سماج، معاشرہ یا ملک، کسی بھی بنیاد پر بکھرنے کے لیے نہیں، جڑنے کے لیے وجود میں آئے ہیں۔ ہمیں اپنے تنوع کو کمزوری نہیں، طاقت بنانا ہوگا۔ یہی دیوار دشمنوں کے ہر وار سے ہمیں بچا سکتی ہے۔امن صرف نعرہ نہیں، ایک عہد ہے۔ ایک ایسا عہد جو ہمیں ہر روز نبھانا ہے،اپنے خیالات سے، اپنے رویوں سے اور اپنے فیصلوں سے دنیا کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے وہ امن ہے صرف امن ہے اور امن ہے۔
