جب توپیں گرجنے لگیں، جب بارود کی بو ہوا میں گھلنے لگے، جب چیخیں اذانوں سے اونچی ہونے لگیں اور جب گھروں کی چھتیں زمین بوس ہونے لگیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جنگ اب سرحدوں سے نکل کر انسانیت پر حملہ آور ہو چکی ہے۔ آپریشن سندور کے بعد پاکستان کی جانب سے جاری شدید بمباری نے بارہمولہ ،اوڑی ،کپوارہ ،سرینگر،راجوری، پونچھ اور کئی دیگر علاقوں کو خاک و خون میں نہلا دیا ہے۔ ایڈیشنل ڈی سی سمیت متعدد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ایسے کربناک لمحے میں جب حکومتی ادارے دفاعی حکمت عملیوں میں مصروف ہیں اور سیاسی بیانات کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے، تو ایک سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے:کہاں ہیں ہماری رضاکار تنظیمیں؟ کہاں ہے وہ انسانی ہمدردی جس پر فخر کرتے ہم تھکتے نہیں؟۔یہ وہ وقت ہے جب ریڈ کراس سوسائٹی، سول ڈیفنس، یوتھ ویلفیئر بورڈز، مذہبی فلاحی ادارے اور درجنوں مقامی و قومی این جی اوز کو اپنے دفتری کمروں سے نکل کر میدان عمل میں آنا چاہیے تھا۔ یہ جنگ فقط گولیوں کی جنگ نہیں، یہ ایک انسانی بحران ہے اور اس بحران کا سب سے پہلا جواب رضاکار تنظیموں کی شکل میں سامنے آنا چاہیے تھا۔
جنگ زدہ علاقوں میں اس وقت سب سے بڑی ضرورت فوری طبی امداد، خوراک، پانی اور عارضی پناہ گاہوں کی ہے۔ زخمیوں کو طبی مراکز تک کون پہنچائے؟ بے گھر خواتین کے سروں پر چھت کون فراہم کرے؟ راشن سے محروم افراد وخاندانوں کی جھولی میں خوراک کون ڈالے؟یہ فریضہ نہ فوج کا ہے، نہ صرف حکومت کا،یہ ان تمام اداروں کا ہے جنہوں نے خود کو ہمیشہ انسانی خدمت کا علمبردار کہا ہے۔ اگر رضاکار تنظیمیں اس وقت بھی سوشل میڈیا پر پوسٹیں لکھنے یا امداد کی درخواستیں تیار کرنے تک محدود ہیں، تو پھر ا±ن کا وجود محض رسمی ہے، روح سے خالی ہے۔آج کا المیہ یہ نہیں کہ بارود برسا ہے، آج کا المیہ یہ ہے کہ انسانیت زخمی ہے اور ا±س کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب رضاکار تنظیموں کو کاغذی منصوبہ بندی سے نکل کر عملی اقدامات کا آغاز کرنا ہوگا۔
ا±نہیں فوری ریلیف کیمپ قائم کرنے چاہییں۔ میڈیکل ٹیمیں اور ایمبولنس سروسز جنگی بنیادوں پر روانہ کی جانی چاہییں۔ عوام کے درمیان حوصلہ اور حوصلہ افزائی کے پیغامات پہنچانے چاہییں تاکہ خوف کا ماحول تھم سکے۔ میڈیا کے ذریعے حقیقی صورتحال اور ضروریات کی تصویر دنیا کے سامنے لائی جانی چاہیے تاکہ عالمی ادارے بھی متحرک ہوں۔یاد رکھیے، جب تاریخ لکھی جائے گی تو محض ہتھیاروں کا ذکر نہیں ہوگا، انسانوں کے سلوک کا بھی حساب ہوگا۔ اگر ہم نے آج ان زخمیوں کا ہاتھ نہ تھاما، تو کل ہماری آوازیں سنی نہیں جائیں گی۔ہم اس اداریے کے ذریعے رضاکار تنظیموں کو پکار رہے ہیں،”اٹھو! جاگو! اپنے حصے کا کردار ادا کرو!“یہ وقت مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ہے، نہ کہ خاموشی سے حالات کا تماشائی بننے کا۔
