ہر سال 22 اپریل کو عالمی یومِ ارض ( وولڈ ارتھ ڈے) منایا جاتا ہے۔ ایک ایسا دن جو ہمیں زمین سے ہمارے گہرے، ناقابلِ انکار تعلق کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ دن نہ صرف ماحولیاتی شعور بیدار کرنے کا عالمی مظہر ہے بلکہ انسان کو اس کی زمینی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کا بھی ایک مقدس موقع ہے۔عالمی یومِ ارض کی ابتدا1070 میں امریکہ سے ہوئی، جب صنعتی ترقی کی چکاچوند کے بیچ بڑھتی ماحولیاتی تباہی کے خلاف عوامی ردعمل ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ یہ آواز اتنی بلند ہوئی کہ آخرکار 2009 میں اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی طور پر تسلیم کرتے ہوئے ایک تاریخی قرارداد منظور کی۔ تب سے لے کر آج تک، یہ دن دنیا بھر میں زمین کی قدر و قیمت، اس کے مسائل، اور ہماری ذمہ داریوں کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔سال 2025 کی عالمی تھیم(Our Planet our Power) ہے۔ یعنی’ہماری طاقت، ہمارا سیارہ‘۔ اس تھیم کا پیغام یہ ہے کہ زمین کو بچانے کی طاقت فردِ واحد، برادریوں اور اقوام کے ہاتھوں میں ہے۔ ہم اجتماعی طور پر ایسی پالیسیاں اپنا سکتے ہیں، ایسی عادات تشکیل دے سکتے ہیں اور ایسے عمل کو فروغ دے سکتے ہیں جو زمین کی بحالی اور تحفظ کا ذریعہ بنیں۔
یہ تھیم ہمیں متحرک کرتی ہے کہ صرف ماحولیاتی خدشات پر بات کرنا کافی نہیں، بلکہ زمین کے لیے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔آج جب دنیا بھر میں زمین کے احترام اور تحفظ کا دن منایا جا رہا ہے، تو جموں و کشمیر کی یونین ٹریٹری (یو ٹی) میں بھی اس موقع کو خصوصی انداز میں یاد کیا گیا۔ تاہم، اس بار کا یومِ ارض رام بن کے دل خراش سانحہ کے سائے میں آیا۔ ایک ایسا واقعہ جس نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یاد دلایا کہ قدرت کے ساتھ برابری اور توازن کا رشتہ توڑا جائے تو فطرت کس قدر بے رحم ہو سکتی ہے۔یونین ٹریٹری کے مختلف علاقوں میں سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے تقریبات منعقد کی گئیں۔ تعلیمی ادارے اس سرگرمی کا مرکز بنے، جہاں بچوں نے ماحولیاتی تحفظ کے حق میں ریلیاں نکالیں، تھیم پر مبنی ملبوسات زیب تن کیے، اور اپنے ننھے ہاتھوں سے پودے لگا کر بڑے پیغامات دیے کہ زمین کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے، اور وہ اس کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔مقررین نے عالمی یومِ ارض کی تاریخی حیثیت، ماحولیاتی خطرات، اور مقامی مسائل پر مدلل تقاریر کیں، جن میں سبز انقلاب کو ایک عملی لائحہ عمل کے طور پر اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
رام بن جیسے سانحات فطرت کی وارننگ ہیں۔ ایک انتباہ کہ زمین کے ساتھ ہمارا رویہ غیر سنجیدہ رہا تو وہ آفات کی صورت ہم پر پلٹ سکتا ہے۔ زمین کی چیخیں اب دبائی نہیں جا سکتیں۔ اب وقت ہے کہ ہم زمین کو صرف وسائل کی منڈی نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک زندہ، سانس لیتی ہستی کے طور پر تسلیم کریں جو ہماری بقاءکے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتی ہے۔یومِ ارض ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم زمین سے اپنے تعلق کو صرف جذبات کی سطح پر نہ رکھیں بلکہ اسے عمل کی شکل دیں۔ ہمیں درخت لگانے سے لے کر پانی کے بچاو¿ تک، پلاسٹک کے استعمال میں کمی سے لے کر صاف توانائی کے فروغ تک، ہر قدم پر یہ سوچ اپنانا ہوگی کہ ہماری طاقت، اجتماعی شعور اور نیت ہی زمین کو بچا سکتی ہے۔آخرکار، زمین ایک عطیہ ہے۔مگر یہ عطیہ مشروط ہے: اس کی حفاظت کے ساتھ۔ یومِ ارض ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم زمین کے مالک نہیں بلکہ اس کے امین ہیں اور ایک سچے امین کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنی امانت کو آنے والی نسلوں کے لیے پہلے سے بہتر حالت میں منتقل کرے۔
