تعلیم کسی بھی مہذب معاشرے کی روح ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک فرد کو الفاظ، اعداد یا معلومات سکھانے کا نام نہیں بلکہ اس کی سوچ، اس کے کردار، اس کے رویوں اور اس کی انسانیت کو تراشنے کا عمل ہے۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو ایک عام انسان کو شعور دیتا ہے، ایک باشعور فرد کو معاشرے کا ذمہ دار شہری بناتا ہے، اور ایک ذمہ دار شہری کو قوم کا سرمایہ بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کو ہمیشہ عبادت، خدمت اور قومی ترقی کی کنجی سمجھا جاتا رہا ہے۔لیکن جب یہ مقدس شعبہ صرف منافع کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر تعلیم نہیں، صرف ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں اور شخصیت سازی کے بجائے محض امتحانات کی تیاری کروائی جاتی ہے۔بدقسمتی سے آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں جہاں تعلیم کا معیار کمزور اور اخراجات بے لگام ہو چکے ہیں اور یہ صورتحال والدین اور طلبہ دونوں کے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے۔آج کے نجی تعلیمی ادارے بظاہر ترقی، جدت اور معیار کے نمائندہ نظر آتے ہیں، لیکن ان کی چمک دمک کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں نے تعلیم کو تجارت کا ایسا میدان بنا دیا ہے جہاں ہر چیز کا مول ہے۔داخلہ فیس، سالانہ فیس، امتحانی فیس، غیر نصابی سرگرمیوں کے چارجز، حتیٰ کہ والدین کی جیب کی گہرائی کا اندازہ لگانے کے لیے روز نت نئے بہانے تراشے جاتے ہیں۔
والدین کو مخصوص دکانوں سے مہنگی کتابیں اور یونیفارم خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، گویا مارکیٹ کی آزادی کا حق ان سے چھین لیا گیا ہو۔ ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جذباتی طور پر یرغمال بنایا جاتا ہے۔’اگر آپ یہ چیز نہیں لائیں گے تو آپ کے بچے کو تقریب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔‘ ایک عام متوسط طبقے کے والدین کے لیے یہ جملہ کسی سزا سے کم نہیں، کیونکہ ہر ماں باپ اپنے بچے کو کمتر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔مزید افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ تعلیمی ادارے اب غیر نصابی سرگرمیوں کی نمائش میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں، جبکہ اصل نصاب، اساتذہ کی تربیت، بچوں کی ذہنی صحت اور ان کی علمی قابلیت ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ماضی میں اساتذہ بچوں کی کمزوریوں کو نرمی، رہنمائی اور حوصلہ افزائی سے دور کرتے تھے، آج ان کمزوریوں پر طنز کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کا رویہ کارکردگی کے پیمانے پر مبنی ہے، جس سے کمزور بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ان حالات میں یہ سوال اب صرف والدین کا نہیں رہا، بلکہ پورے جموں وکشمیر اور سماج کے سامنے ایک کڑوا سچ بن کر کھڑا ہے۔ کیا تعلیم صرف ان لوگوں کا حق ہے جن کی جیب بھاری ہے؟ کیا قوم کی بنیاد صرف امیروں کے بچوں پر رکھی جائے گی؟ آئین نے ہر ایک بچے کے لئے تعلیم کا حق محفوظ کیا ہے ۔لیکن اب سر مایہ داری کے سبب اس حق پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔
حکومت اگر واقعی تعلیم کو آئینی و بنیادی حق مانتی ہے، تو اسے خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نجی اسکولوں کے نظام پر واضح پالیسی بنائے، ایسی پالیسی جو والدین کو معاشی دباو سے نکالے اور اسکولوں کو جوابدہ بنائے۔ فیسوں کا تعین شفاف طریقے سے ہو، ان میں سال بہ سال من مانے اضافے کی اجازت نہ ہو، اور کوئی بھی ادارہ والدین کو مخصوص دکانوں سے مہنگی اشیاءخریدنے پر مجبور نہ کر سکے۔ تعلیم کے معیار کو جانچنے کے لیے ایک غیرجانبدار نگران نظام قائم کیا جائے جو نہ صرف نصاب اور اساتذہ کی کارکردگی پر نظر رکھے بلکہ بچوں کے ذہنی و جذباتی تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ تعلیم صرف ایک ادارہ یا نصاب کا نام نہیں، بلکہ قوم کی اجتماعی روح ہے۔ اگر یہ شعبہ بددیانتی، منافع خوری اور بے ضابطگی کی نذر ہو جائے تو اس کے اثرات صرف موجودہ والدین پر نہیں بلکہ آنے والی نسلوں پر مرتب ہوں گے۔ تعلیم کو دوبارہ اس کے اصل مقام پر لانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں، ورنہ یہ روشنی صرف چند ایوانوں تک محدود رہ جائے گی، اور باقی ملک تاریکی میں ڈوبا رہ جائے گا۔
