منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
4.8 C
Srinagar

دیانت داری بھی ضروری۔۔۔۔

رمضان المبارک کے دوران ہر مسلم گھرانے میں اچھے قسم کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ غریب ہو یا امیر، ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ سحری اور افطار کے وقت وہ تازہ پھل، میوہ جات اور مشروبات روزہ داروں کو یہ سوچ کر پیش کرے کہ اسے اس کے عوض زیادہ سے زیادہ ثواب ملے گا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس متبرک مہینے کے دوران ایک نیکی کرنے پر70 گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔رحمتوں اور برکتوں کے اس مہینے میں لوگ مساجد، خانقاہوں اور امام باڑوں میں مشروبات، کھجور اور مختلف اقسام کے پھل افطاری کے وقت تقسیم کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکیں۔ کسی کو کھلانا، پلانا اور سحری و افطار کے وقت خدمت کرنا انتہائی ثواب کا کام مانا جاتا ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق، ماہِ رمضان کے دوران افطاری کے وقت 70 ہزار گناہگاروں کو رب العالمین آزاد کر دیتا ہے۔ روزہ واقعی ایک افضل عبادت ہے جو انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر صاف و پاک بناتا ہے۔
لیکن ایک بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ مسلمان سحری و افطاری میں غلط قسم کا کھانا پینا استعمال نہ کریں۔ جو کچھ تناول کیا جائے، وہ حلال طریقے سے کمایا گیا ہو۔ آج کل ہم بازاروں میں دیکھتے ہیں کہ باقی مہینوں کی نسبت کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ میوہ جات، سبزیاں اور کھجور باقی مہینوں کے مقابلے میں مہنگے فروخت کیے جاتے ہیں۔ نہ ہی سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی پوچھنے والا ہے، اور نہ ہی خود مسلمان اس معاملے میں کوئی حسنِ ظن رکھتے ہیں۔اگرچہ لوگ اس مہینے میں کم کام کرتے ہیں، لیکن پھر بھی کمائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ آخر کس طرح؟ ہمیں یہ بات کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہم ایک طرف روزہ رکھتے ہیں، مساجد، خانقاہوں اور امام باڑوں میں نیاز کے طور پر کھجور، پھل اور مشروبات تقسیم کرتے ہیں، لیکن کبھی یہ سوچنا گوارہ نہیں کرتے کہ ہم نے یہ سب کچھ کس طرح کمایا ہے۔ کہیں ہم نے یہ مال کماتے وقت کسی پر ظلم تو نہیں کیا؟ حد سے زیادہ منافع تو نہیں کمایا؟ جھوٹ بول کر کسی کا حق تو نہیں مارا؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق، حرام کا ایک لقمہ کھانے سے چالیس سال کی عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔
بازاروں میں جو سبزیاں اور پھل دکانوں اور ریڑیوں پر سجے ہوتے ہیں، سامنے ایک قسم کا مال ہوتا ہے اور پیچھے دوسرا۔ خریدار کو فروخت کرتے وقت ہمیں یہ خیال نہیں رہتا کہ ہم اسے دھوکہ دے رہے ہیں۔ شام کے وقت ہم اسی طرح کمائے ہوئے مال سے گھر والوں کو افطار کراتے ہیں اور ہو سکے تو مسجد میں بھی کچھ نہ کچھ تقسیم کرنے لے جاتے ہیں، مگر اس پر ثواب کی ا±مید رکھنا عبث ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس مقدس مہینے کے دوران تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کریں، کیونکہ یہی رمضان کے روزوں کا اصل مدعا و مقصد ہے۔ مسلمان کو اس مہینے کے دوران بدلنا چاہیے اور اپنی زندگی پرہیزگاری کے سانچے میں ڈھالنی چاہیے۔ جھوٹ بولنے، حد سے زیادہ منافع کمانے، دھوکہ دے کر مال جمع کرنے، غیبت کرنے اور کسی کا حق مارنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، غریبوں اور محتاجوں سے ہمدردی کرنی چاہیے، یتیموں اور بیواو¿ں کی کفالت کرنی چاہیے اور اپنی آگے کی زندگی اسی نقشِ قدم پر گزارنی چاہیے۔ تب جا کر ہمیں کامیابی ملے گی اور ہم دونوں جہانوں میں سرخرو ہوں گے۔کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتی طاقت اور ڈنڈے کے زور پر قومیں تبدیل نہیں ہوتیں، بلکہ اس کے لیے بنی نوع انسان کا قلب و ذہن تبدیل ہونا چاہیے، اور اس کے لیے رمضان المبارک بہترین موقع ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img