نیوز ڈیسک
سرینگر: مقدس ماہِ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں بجلی اور پانی کی شدید قلت نے عوام کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ افطاری اور سحری کے اوقات میں بھی بجلی ناپید ہوتی ہے، جبکہ کئی علاقوں میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
وائیلو، اننت ناگ کے اقرار پٹھان کا کہنا ہے کہ ’ماہِ رمضان کے مقدس ایام شروع ہوتے ہی بجلی کا نام و نشان نہیں ہے۔ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے، مگر عملی طور پر ہم اندھیرے میں سحری اور افطاری کرنے پر مجبور ہیں۔‘
ڈورو، اننت ناگ کے بزرگ محمد شفیع نے بجلی کی مسلسل کٹوتی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی کے بغیر نہ سحری ممکن ہے اور نہ افطاری۔ پہلے ہی مہنگائی نے پریشان کر رکھا تھا، اب محکمہ پی ڈی ڈی نے بھی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔‘
کپوارہ کے غلام محمد نے محکمہ پی ڈی ڈی کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں کئی دنوں سے ٹرانسفارمر خراب ہے، مگر محکمہ اسے ٹھیک کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ عوام احتجاج کریں یا رشوت دیں، تبھی مسئلہ حل ہوتا ہے۔‘
ہندوارہ کے راجا امتیاز نے کہا کہ ’محکمہ ہر سال دعویٰ کرتا ہے کہ بجلی کا نظام بہتر بنایا جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ پرانے اور خستہ حال کھمبے اور تاریں تبدیل نہیں کی جا رہیں، جس کی وجہ سے حادثات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔‘
بانڈی پورہ کے عبدالاسلام نے پانی کی قلت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں کئی دنوں سے پانی کی شدید قلت ہے۔ جل شکتی محکمہ کے افسران صرف یقین دہانیاں کروا رہے ہیں، لیکن عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔‘
بڈگام کے غلام حسن نے کہا کہ ’پانی کا بحران اس قدر شدید ہے کہ لوگ افطاری اور سحری کے لیے بھی پریشان ہیں۔ اگر بجلی نہیں ہے، تو کم از کم پانی تو فراہم کیا جانا چاہیے، مگر حکام اس مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔‘
عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ماہِ رمضان کے دوران بجلی اور پانی کی مسلسل فراہمی یقینی بنائی جائے، تاکہ روزہ داروں کو سحری و افطاری کے وقت مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شہریوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر جلد از جلد ان مسائل کو حل نہ کیا گیا تو احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔





