بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
11.5 C
Srinagar

کشمیری پنڈتوں کی واپسی ضروری

کسی بھی ملک ،سماج یا قوم کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی تب تک ممکن نہیں ہو سکتی ہے ،جب تک نہ عام لوگوں میں تعلیم و تربیت ،انسانیت اور آپسی بھائی چارے کو فروغ نہیں ملے گا۔وادی کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے یہ پوری دنیا میں ایک ایسی جگہ مانی جاتی تھی جہاں یہ سب چیزیں پہلے سے ہی موجود تھیں ۔اگر چہ مروجہ تعلیم و تربیت میں کمی تھی لیکن یہاں کے لوگ اپنے اسلاف کی تعلیم و تربیت کی بدولت اس قدر اونچا مقام رکھتے تھے کہ ان کا کوئی سانی نہ تھا۔مذہبی رواداری ،آپسی بھائی چارہ اورانسایت کے اصول یہاں کے لوگوں میں بلند و بھالا تھے۔مسلم گھرانے میں کوئی غم یا خوشی کی تقریب ہوتی تھی تو تمام ہمسایہ ہندو برادری کے لوگ شامل ہوتے تھے ،اسی طرح اگر کسی ہندو گھرانے میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو مسلم برادری شانہ بشانہ کھڑی رہتی تھی۔کشمیر کی پانچ سو سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی یہاں کوئی بیرونی مداخلت ہوتی تھی تو سارے لوگ مل جُل کر اس کا مقابلہ کرتے تھے اور اس طرح بیرونی لوگوں کی سازش ناکام بنا دیتے تھے۔
1990کے ابتدائی ایام میں وادی میں اچانک ایک ایسی ہولناک اور ووحشیت ناک ملی ٹنسی کی آگ نمودار ہوئی ،جس نے پورے کشمیر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا ۔لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں رہا،ہر کوئی امیر اور غریب گھروں میں سہم کے رہ گئے اور اپنی تقدیر پر روتے رہے۔کشمیری پنڈتوں نے وادی سے نقل مکانی کر کے جموں کے جنگلی علاقوں میں ٹینٹوں میں برسوں تک زندگی گذاری اور کسم پُرسی کی حالت میں کھلے آسمان تلے تیز دھوپ اور برستی بارش میں دن اور راتیں گذاری۔جہاں تک وادی کی مسلم برادری کاتعلق ہے وہ اپنے گھروں میں ضرور رہتے تھے لیکن اُن کا حال بھی کچھ کم نہ تھا۔والدین اپنے بچوں کے جنازے کندھوں پر اُٹھا رہے تھے ،اپنے ہی گھر اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے ہوئے دیکھ رہے تھے،بچوں کی تعلیم بہتر ڈھنگ سے نہیں ہو رہی تھی،یہاں کے تہذیب و تمدن کا جنازہ نکل گیا،بستیاں ویران نظر آرہی تھیں،اثر ورسوخ رکھنے والے اور سرمایہ دار بھی وادی سے باہر چلے گئے اور غریب اور سادہ لوح عوام کوکسم پرسی کی حالت میں چھوڑ دیاگیاتھا۔جہاںتک بیرونی ممالک کا تعلق ہے وہ کشمیری عوام سے زبانی ہمدردی کرتے رہے لیکن کوئی دوا کام نہ کر پایا۔جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے انہوں نے بھی ان ہی حالات کا فائدہ اُٹھا کر اقتدار کی پری حاصل کی لیکن آج تک کوئی بھی سیاستدان کشمیر عوام کو پھر سے ایک ساتھ ملانے میں کامیاب نہ ہو سکا ،نہ ہی اس حوالے سے وادی کی ہندوں مسلم برادری نے ملکر کوئی منصوبہ تیار کیا۔
اب جبکہ وادی میں حالات بہتر ہو رہے ہیں ،ملی ٹنسی اور تشدد کے واقعات میں کمی ہو چکی ہے۔مرکزی اور جموں کشمیر کی سرکار ملکر پورے جموں کشمیر میںتعمیر و ترقی کے منصوبوں کو عملانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں،سڑکوں ،اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسیٹیوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ویران بستیوں کو نئے سرے سے تعمیر کیا جارہا ہے لیکن جو آپسی بھائی چارہ ،انسایت ،تہذیب و تمدن کو نقصان پہنچا ہے اُس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔یہ تب تک بہتر نہیں ہو نگے جب تک نہ کشمیری پنڈت اپنے گھروں کو واپس نہیں آسکتے ہیں۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ کشمیر پنڈت اور کشمیری مسلمان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن جب تک یہ دونوں ایک ساتھ پُرانے ایام کی طرح ملکر زندگی نہیں گذارتے ہیں تب تک یہاں کی پُرانی روایات دوبارہ بحال نہیں ہو سکتی ہیں نہ ہی یہاں کی تہذیب و تمدن برقرار رہ سکتی ہے ۔موجودہ سرکار کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ کشمیری پنڈتوںکو کشمیر میں واپس لائے اور انہیں پھر ایک بار اپنے مسلم ہمسایوں کے ساتھ بسانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہاں پھر ایک بار مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارے کی رونق نظر آسکے۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img