وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ”بیٹی بچاو، بیٹی پڑھاو“ تحریک کے 10 سال مکمل ہونے پر اظہارِ تشکر کیا۔سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں وزیر اعظم نریندرا مودی نے لکھا، ’آج ہم بیٹی بچاو¿، بیٹی پڑھاو¿ تحریک کے10 سال مکمل کر رہے ہیں۔ پچھلے دہائی میں، یہ تحریک ایک تبدیلی کا باعث بنی اور عوامی قوت سے چلنے والا ایسا اقدام بن چکی ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے سے لوگوں کی شرکت کو فروغ دیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ لوگوں اور مختلف کمیونٹی سروس تنظیموں کی انتھک کوششوں کی بدولت، بیٹی بچاﺅ ۔بیٹی پڑھاﺅنے کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ تاریخ کے طور کم بچوں کے جنسی تناسب والے اضلاع میں زبردست بہتری آئی ہے اور بیداری کی مہمات نے صنفی مساوات کی اہمیت کو گہرائی سے اجاگر کیا ہے۔‘اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے ’میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس تحریک کو نچلی سطح تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئیے ہم اپنی بیٹیوں کے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں، ان کی تعلیم کو یقینی بنائیں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں ،جہاں وہ بغیر کسی امتیاز کے ترقی کر سکیں۔ ہم سب مل کر یہ بات یقینی بنا سکتے ہیں کہ آنے والے سال ہندوستان کی بیٹیوں کے لیے مزید ترقی اور نئے مواقع لے کر آئیں۔ُ
اس سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ذریعے گود لیے گئے گاو¿ں جئے پور میں شہریوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ان کا کہناتھا ”آئیے ہم بچی کی پیدائش کا جشن منائیں، ہمیں اپنی بیٹیوں پر بھی یکساں فخر ہونا چاہئے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ بیٹی پیدا ہونے پر اس موقع کو بطور جشن منانے کیلئے پانچ پودے لگائیں۔“بیٹی بچاو¿ بیٹی پڑھاو¿کا آغاز وزیراعظم کے ذریعے22جنوری 2015 کو پانی پت، ہریانہ میں کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کو گھٹتے ہوئے بچوں کے صنفی تناسب اور ایک عرصہ حیات میں تمام متعلقہ خواتین کو خودمختار بنانے کے موضوعات کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ ایک سہ وزارتی کوشش ہے جس میں خواتین اور بچوں کی ترقیات، صحت و خاندانی بہبود اور انسانی وسائل کی ترقیات کی وزارت شامل ہیں۔حکومت ہمارے معاشرے کے ذریعے بچیوں کے بارے میں رائج انداز فکر کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔بیٹی بچاﺅبیٹی پڑھاﺅکی شروعات کے بعد سے تقریباً تمام ریاستوں میں کثیر شعبہ جاتی ضلعی منصوبے نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ضلعی اور زمینی سطح کے کارکنان کی صلاحیت میں اضافہ کرنے اور تربیت فراہم کرنے والوں کے لئے صلاحیت سازی پروگراموں کے ذریعہ انہیں تربیت دی جا رہی ہے۔
بہرکیف ہر انسان کی خواہشات ہوتی ہیں مگر ان کا پورا نہ ہونے کا الزام کسی اور کو دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ ان خوا ہشات میں سے ایک بیٹا ہونے کی خواہش بھی ہے۔ ٹھیک ہے اولاد نرینہ کی خواہش کرنا کوئی گناہ نہیں کیونکہ جہاں بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے وہیں بیٹے کو نعمت قرار دیا گیا ہے۔ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ ایک بیٹا ہی آپ کی نسل کو چلانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جن کا کوئی بیٹا نہیں ہوتا ان کو معاشرہ بدقسمت تصور کرتا ہے۔ یہ وہ ناانصافی ہے جو عورت کو سہنا پڑ رہی ہے۔کسی گھر میں دوسری یا تیسری بیٹی پیدا ہونے پر عورت کے سر پر طلاق یا پھر شوہر کی دوسری شادی کی تلوار لٹکنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہے۔ ڈپریشن اس کا ایک منفی پہلو بن کر سامنے آتا ہے۔ہمارے معاشرے میں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بیٹی کی پیدائش پر مایوسی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔بیٹیا ں والدین کا نام روشن کررہی ہیں ،لیکن پھر نہ جانے کیوں بیٹی کی پیدائش کو بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔بیٹی بوجھ نہیں بلکہ والدین کا فخر ہے ۔جس معاشرے میں بیٹی کو حقیر سمجھا جاتا ہو ہمارے خیال میں وہ معاشرہ عزت و تکریم کے معنی سے عاری ہے اور بے حسی اس کا زیور ہے۔اولاد نرینہ کی خواہش کرنا غلط نہیں مگر بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کرنا اللہ کی رحمت سے منہ پھیرنے کے مترادف ضرور ہے۔
