وادی کشمیر ملک کا وہ سرد ترین خطہ ہے، جہاں نومبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی سردیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے اور برف و باراں روز کا معمول بن جاتاہے۔تین مہینوں تک سردی کی شدت اس قدر زوروں پر رہتی ہے کہ لوگوں کو عبور و مرورمیں نہ صرف مشکلات و مسائل درپیش آتے ہیں بلکہ ان ایام میں بجلی اور پانی کی بھی منفی درجے حرارت کی وجہ سے قلت پیدا ہوتی ہے۔تمام آبی ذخائر منجمد ہوتے ہیں۔رسوئی گیس،کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہورہی ہے کیونکہ برف و باراں کی صورت میں قومی شاہراہ بھی اکثر و بیشتر بند رہتی ہے اور بازاروں میں ذخیرہ اندوزی جنم لیتی ہے۔پہلے ایام میں نومبر سے قبل ہی سرکا راور انتظامیہ راشن ،رسوئی گیس،تیل خاکی اوردیگر ضروری اشیاءکو مختلف دور دراز علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی ذخیرہ کرتے تھی۔اگر چہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن جموں کشمیر میں ہوئے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں مہینوں صرف ہوئے اور تمام سرکاری مشینری صاف و شفاف انتخابات منعقد کرانے میں لگی تھی۔ اسطرح وادی میں ضروری اشیاء ذخیرہ کرنے کی جانب کم ہی دھیان دیا گیا۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے سب سے پہلے اسی سلسلے میں افسران کی ایک میٹنگ طلب کی تھی ،جس دوران ضروری اسٹاک سے متعلق جانکاری حاصل کی گئی اور افسران کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس بارے میں کوئی کوتاہی نہ برتیں ۔یہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ برف باری ہونے کی وجہ سے نہ صرف پانی اور بجلی سپلائی میں خلل پیدا ہوجاتا ہے بلکہ سڑکیں بھی بند ہو جاتی ہیں۔صوبائی انتظامیہ نے بھی اگر چہ اس حوالے سے تمام تیاریوں کی یقین دہانی کی ہے اور تمام ضلع حکام کو متحرک رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ تاہم پھر بھی موسم خراب ہونے پر اور شدید برف باری ہوتے وقت لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سڑکیں بند ہو جاتی ہیں، شہری علاقوں میں برف کا پانی سڑکوں پر جمع ہو جاتا ہے اور اکثر بجلی ٹرانسفارمر جل جاتے ہیں ۔بجلی غائب ہونے سے نہ صرف بچوں کی تعلیم پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں انٹر نیٹسروس بھی متاثر ہوتی ہے جس سے تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر متاثر ہوتے ہیں۔ اب جبکہ ایک دہائی بعد جموں کشمیر میں عوامی سرکار وجود میں آئی ہے اورلوگوں نے بڑھ چڑھ کر انتخابات میں حصہ لیکر اپنی سہولیت اور آرام دہی کے لئے اپنے اپنے نمائندوں کو چُن لیا ہے ۔ان اسمبلی ممبران پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سردیوں کے ان مشکل ترین ایام میں جموں جانے کی بجائے اپنے اپنے علاقوں میں قیام کریں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اپنے علاقوں میں سرکاری اہلکاروں کو متحرک رکھیں تاکہ عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔