سرینگر/میرواعظ کشمیر اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیرمین ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے ایک بار پھر عالمی سطح پر بدلتے جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے پیش نظر متنازعہ مسائل کے پر امن حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حریت کانفرنس اپنے قیام سے لیکر آج تک اپنے اس دستوری موقف پر سختی سے قائم ہے کہ مسائل کو طاقت اور تشدد سے نہیں بلکہ بامعنی مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔بھیجے گئے پریس بیان میں میرواعظ محمد عمر فاروق نے ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ اگست 2019 سے ساڑھے چار سال تک وہ اپنے گھر میں نظر بند رہے اور اس کے بعد گزشتہ دنوں پہلی بار اپنے قریبی ساتھیوں پروفیسر عبدالغنی بٹ، بلال غنی لون، مولانا مسرور عباس انصاری کے ساتھ پہلی میٹنگ ہوئی۔ یہ ایک جذباتی لمحہ تھااور اس دوران ہم نے اپنے ان تمام ساتھیوں بشمول سید علی گیلانی، مولانا محمد عباس انصاری، محمد مصدق عادل، محمدا شرف صحرائی جو میری نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے تھے کو یاد کیا اور اس کے ساتھ جیلوں میں مقید محمد یاسین ملک ، شبیر احمد شاہ، محترمہ آسیہ اندرابی، شاہد الاسلام، جناب نعیم احمد خان، محمد قاسم فکتو ، مسرت عالم ، پیر حفیظ اللہ اور ایاز اکبر شامل ہیںکی مسلسل حراست پر بھی میٹنگ میں تشویش کا اظہار کیا۔
میرواعظ نے کہا کہ 1993 میں جب حریت کانفرنس کی تشکیل ہوئی ا±س وقت جموںوکشمیر میں عسکریت اپنے عروج پر تھی اور اس وقت کی مشکل صورتحال میں بھی حریت کانفرنس نے تنازع کشمیر کے پر امن حل کی وکالت کی اور30سال کا عرصہ گذرجانے کے بعد آج بھی حریت کانفرنس اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ تشدد اور طاقت نہیں بلکہ پر امن مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔
جناب میرواعظ نے بھارت کے وزیراعظم شری نریندر مودی جی کے BRICSسربراہی اجلاس میں دیئے گئے بیان جس میں جناب مودی نے کہا کہ یہ دور تشدد کا نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی کا دور ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حریت کانفرنس نے مسئلہ کے حل کے حوالے سے ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر ہی زور دیا ہے اور ہم نے آنجہانی شری اٹل بہاری واجپائی، شری منموہن سنگھ اور مرحوم جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی مذاکرات کے کئی دور کئے ہیں اور آج بھی ہم حکومت ہندوستان کے ساتھ اس دیرینہ تنازع کے حل کیلئے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ان تیس برسوں کے دوران بہت خون بہاہے اور ابھی حالیہ دنوں میں ہی گگن گیر اور اب گلمرگ جیسے ہائی سیکورٹی زون میں بھی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جو کہ بہت سنگین معاملات ہیں لہٰذا ان کی تحقیقات ہونی چاہئے۔اس موقعہ پر مرحوم مزاحمتی قائدین کے ایصال ثواب کیلئے اجتماعی طور فاتحہ خوانی کی گئی۔