شوکت ساحل
سرینگر:جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں ہر اتوار کو سجنے والا بازار ’سنڈے مارکیٹ ‘ اپنی منفرد مصنوعات کے لئے کافی شہرت حاصل کرچکا ہے ،وہیں اس بازارکے ’چلتے پھرتے کتب خانے ‘کتب بینی کے شوقین افرادکو اپنی طرف مقنا طیس کی طرح کھینچتے ہیں ۔انمول کتابوں سے سجے یہ کتب خانے کتابوں سے ہماری دوری کی تاریخ نہ صرف قلمبند کررہے ہیں بلکہ بیان بھی کررہے ہیں ۔
کتب بینی انسان کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جس میں ہر طرف علم و حکمت کے موتی بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ موتی چن کر انسان اپنے شب و روز کو زیادہ بامقصد بناسکتا ہے۔ مطالعہ انسان کو زندگی کی مقصدیت کے بارے میں سوچنے اور اپنے معمولات میں معنویت پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی ہر تحریر انسان کو کسی نہ کسی حد تک جھنجھوڑتی ہے، سوچنے کی تحریک دیتی ہے، طرزِ فکر و عمل میں جدت لانے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ انسان جب باقاعدگی سے کتب بینی کرتا ہے تب اس کی سوچ میں تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔
انٹر نیٹ کی بدولت معلومات کا جو سیلاب آیا ہے ،اس میں بہت سا علم بھی بہہ گیا ہے ۔انٹرنیٹ کی وجہ سے معاشرے میں کتب بینی کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے جبکہ رہی سہی کسر سمارٹ فونز نے پوری کردی ۔اب کتابیں ہاتھ میں نہیں ہوتی اور نا ہی مطالعہ ہوتا ہے ۔تاہم’ سنڈے مارکیٹ کے کتب خانے ‘جانے انجانے اس رجحان کو بحال کرنے میں نمایاںاور کلیدی کردار کررہے ہیں ۔
کتابوں کی شوقین طالبہ
نیت امتحان کی تیاری کررہی سمینہ اختر نامی طالبہ نے ایشین میل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنڈے مارکیٹ کے ان کتب خانوں پر وہ کتابیں دستیاب ہیں ،جو اُن کے علم میں اضافہ کرنے کے لئے درکار ہیں ۔امریکہ کے38سالہ قلمکار،’جیمز کلیئر‘(James Clear) جو اپنی کتاب ’اٹومک ہیبٹس‘ (Atomic Habits) کے لئے کافی مشہور ہیں ،کی قلمبند یہ کتاب سمینہ اختر کے ہاتھ میں ہے اور وہ بہت خوش تھی ۔
انہوں نے کہا ’ اس کتاب کو سنڈے مارکیٹ کے اس کتب خانے میں پاکر مجھے کافی مسرت ہوئی ،یہ آن لائن بھی دستیاب ہے ،میں اس کتاب کو خریدنا چاہتی تھی ،تاہم آن لائن اس کتاب کی قیمت کافی ہے ،یہاں یہ کتاب مجھے صرف 200روپے میں ملی جبکہ ای کامرس کمپنی ایمیزون یہ کتاب 500روپے میں فروخت کررہی ہے ۔‘ ایک سوال کے جواب میں سمینہ اختر نے کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت مطالعہ بہت کم کیا جاتا ہے ۔تاہم مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ،اس لئے میں سنڈے مارکیٹ کے کتب خانوں میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتی رہتی ہوں ،جس کی ایک وجہ ان کی کم قیمت ہے ‘۔
کس طرح کی کتابیں دستیاب ہیں ؟
سنڈے مارکیٹ کے ان کتب خانوں پر ہر موضوع پر کتابیں دستیاب ہیں ۔اردو ،انگریزی ادب کی کتابیں ،اسلامی تعلیمات اور تاریخ پر مبنی کتابیں ،سائنس ،سیاست ،بزنس اوربھی بہت موضوعات سے متعلق کتابیں یہاں دستیاب ہیں ۔کلیات جون ایلیا سے لیکر ماتماگاندھی اور اے پی جے عبدالکلام تک زندگیوں پر بھی یہاں کتابیں دستیاب ہیں ۔
اتنا ہی نہیں ان کتب خانوں میں بچوں کی نگہداشت ،نشوو نما اور تربیت سے متعلق بہترین کتابیں بھی دستیاب ہیں ۔آپ کو صبر وتحمل کیساتھ سنڈے مارکیٹ کے ان کتب خانوں سے اپنی پسند کتابیں تلاش کر نی ہے ۔ویسے سنڈے مارکیٹ کا خاصہ تو ’تلاش ‘ ہی ہے ۔جی ہاں ! آپ کو اس مارکیٹ میں نہ صرف اپنی پسند کی چیزوں کو خریدنے کے لئے تلاش کی عینک پہننی پڑتی ہے بلکہ پیدل سفر بھی کرنا پڑتا ہے ۔
کتابوں کے شوق دوستوں کی گفتگو
دہلی سے تعلق رکھنے والے نوجوان دوستوں کا ایک گروپ وادی کشمیر کی سیر پر آیا ہو اہے ۔یہ گروپ مشہور سنڈے مارکیٹ گھومنے آیا تھا ،تاہم ان کو بھی چلتے پھرتے کتب خانوں میں سے ایک کتب خانے نے منجمد کرنے پر مجبور کیا تھا ۔
ایک دوست نے اس کتب خانے سے ایک کتاب ہاتھ میں اٹھائی تھی ،وہ اپنی خاتون دوست سے مخالف ہوا اور کہا ’ تمہیں یہ کتاب پڑھنی چاہیے ،دوسرے دوست کے ہاتھ میں (How to talk to anyone)کتاب تھی ،اس نے اسی خاتون سے مخاطب ہو کر کہا ’یہ کتاب اچھی ہے ،تمیں یہ پڑھنی چاہیے ‘۔ سنڈے مارکیٹ کے شور میں یہ گفتگو انتہائی دلچسپ تھی۔ارجن ارورا نے ایشین میل کیساتھ بات کرتے ہوئے کہا’ یہاں تو کافی معلوماتی کتابیں دستیاب ہیں ،بعض کتابوں نے مجھے حیران کردیا ،یہ کتابیں یہاں کیسے ؟،میں نے اپنی پسند کی کتاب سستے دام پر خریدی ۔‘
شریا اگروال نے کہا ’سنڈے مارکیٹ کی سیر انتہائی دلچسپ تجربہ رہا ،یہ موبائیل لائبریریاں تو حیرت انگیز ہیں ،یہاں ایسی معلوماتی کتابیں ہیں ،جنہیں دیکھ کر کافی حیرانگی ہوئی ،دوست کے کہنے پر میں نے(How to talk to anyone) خریدنے کا فیصلہ لیا ،اس کے علاوہ بھی یہاں بہت ساری ایسی کتابیں تھیں ،جنہیں خریدنے کا من کررہا تھا۔‘
موسم سرد ہو یا گرم یہ کتب خانے دلچسپی کے مرکز
وادی کشمیر اپنی خوبصورتی کیساتھ ساتھ موسم کے حوالے سے بھی جنت ِ بے نظیر کا خطاب اپنے سر سجا چکی ہے ۔یہاں کے چاروں موسم ’موسم بہار ،موسم گرما ،موسم خزاں اور موسم سرما‘ کے رنگ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔اسی طرح سنڈے مارکیٹ کے کتب خانے بھی یہاں آنے والے افراد کے لئے دلچسپی کے مرکز رہتے ہیں ۔یہ چلتے پھرتے کتب خانے نہ صرف موسم گرما میںسنڈے مارکیٹ کی زینت بخشتے ہیں بلکہ موسم سرما میں بھی کتب بینی کے شوقین افراد کے لئے ذہن جھنجھوڑ دیتے ہیں ۔
عامر لطیف نامی نوجوان نے بتایا ’مجھے اردو ادب سے گہری دلچسپ ہے ،میں نے یہاں اپنا من پسند شاعری مجموعہ خریدا ۔یہ کتاب مجھے 150روپے میں ملی ،یہ گھاٹے کا سودا نہیں ،کتاب بہترین دوست ہے ‘۔
سنڈے مارکیٹ کے کتب فروش
کتابوں کی اپنی چلتی پھرتی دکان میں ،کتابیں دیکھ رہے ایک گاہک کو اسکی پسند کی کتاب دکھاتے ہوئے نوجوان کتب فروش ارشد میر (نام تبدیل ) کہتے ہیں ’میں سرکاری ملازم ہوں ،تاہم ہر اتوار کو یہاں یہ دکان لگاتا ہوں ،تاکہ کتب بینی کا رجحان پروان چڑھ سکے ۔‘انہوں نے کہا ’ وہ گزشتہ تین برسوں سے کتا بوں کو سنڈے مارکیٹ میں فروخت کررہے ہیں ،یہاں کتب بینی کے شوقین افراد کو اُن کی پسند کی کتابیں سستے داموں پر ملتی ہیں ،جو کتاب آئن لائن 500سے لیکر 1000روپے میں فروخت ہوتی ہے ،وہ یہاں200سے300روپے میں دستیاب ہے ‘۔
ایک اور کتب فروش بشیر احمد کہتے ہیں ،’میں سنڈے مارکیٹ میں 6سال سے زیادہ عرصے سے کتابیں فروخت کرتاآرہا ہوں ،کتابوں کی قیمتیں بعض اوقات ایک رہتی ہے یعنی اُس دن کتابوں کی سیل لگائی جاتی ہے ،ویسے تو یہاں کتابوں کی الگ الگ قیمتیں ہیں ،50روپے سے لیکر1000ہزار روپے تک آپ کو کتاب مل سکتی ہے ‘۔اس کتب خانے کے بغل میں بیٹھے ایک اور کتب فروش محمد اشرف کہتے ہیں ’میری دکان پر آپ جو بھی کتاب پسند کریں گے ،اُس کی قیمت 200روپے ہے ،جی ہاں ! 200روپے ،جو کوئی بھی کتاب آپ خریدنا چاہتے ہیں ‘۔
معروف شاعر ونغمہ نگار گلزار کیا کہتے ہیں؟
ہندوستان کے معروف شاعر ،نغمہ نگار ،ہدایت وپیش کش کار گلزار کہتے ہیں۔ ’کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے ،بڑی حسرت سے تکتی ہیں ،مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں ،جو شامیں ان کی صحبت میں کٹاکرتی تھیں ‘اب اکثر گزرتی جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر ۔۔۔۔۔بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں ،انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے ،جو قدریں وہ سناتی تھیں ،کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے ۔جو رشتے وہ سناتی تھیں ،وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں ۔۔۔کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے ،کئی لفظوں کے معنی گرپڑے ہیں ۔‘