ہریش کمار
پونچھ، جموں
آج کے دور میں بڑی تعداد میں بالغوں کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی منشیات کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ یہ لت اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ والدین بھی اپنے بچوں کو اس سے دور رکھنے سے قاصر ہیں۔ بڑوں کی طرح اب بچے بھی ہر قسم کی ادویات کا سہارا لینے لگے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اس کی وجہ سے وہ کس دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی نشے کی وجہ سے نہ صرف بچوں کی صحت بلکہ ان کا کیریئر بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1987 میں منشیات کے استعمال کے خلاف عالمی دن منانے کا آغاز کیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد لوگوں کو منشیات کی لت اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کرنا ہے۔ دنیا بھر میں پہلی بار 26 جون 1989 کو یہ دن منایا گیا۔ اس کے بعد ہر سال اس دن کسی نہ کسی موضوع پر لوگوں میں منشیات کے خلاف بیداری پھیلانے کا کام کیا جاتا ہے۔
اس سال کے عالمی دن کا تھیم ”ثبوت واضح ہے: روک تھام میں سرمایہ کاری“ ہے۔ اس تھیم کا بنیادی مقصد شواہد سے آگے بڑھ کر اس کی روک تھام پر خصوصی زوردینا ہے۔ اس روک تھام کا تعلق صرف منشیات کی لت سے ہی نہیں ہے بلکہ نئی نسل تک اس کی پہنچ کو روکنے اور انہیں اس کے خلاف آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔ دسمبر 2022 میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ملک میں 10 سے 17 سال کی عمر کے 1.58 کروڑ بچے منشیات کے عادی ہیں۔ یہ بچے اور نوجوان شراب، افیم، کوکین، بھنگ سمیت کئی قسم کی نشہ آور اشیاء استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف چونکا دینے والے ہیں بلکہ ہم سب کے لیے تشویشناک بھی ہیں۔
جموں و کشمیر کے مرکزی علاقے کا سرحدی ضلع پونچھ بھی اس سماجی برائی سے اچھوتا نہیں ہے۔ یہاں بھی کچھ بچے منشیات لیتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔حال ہی میں جموں کے باہو فورٹ علاقے میں تین نابالغ بچے نشے کی حالت میں پکڑے گئے تھے۔ پانچویں جماعت کا طالب علم سنتوش کمار (بدلیا ہوا نام) شام کو اپنے دودوستوں کے ساتھ کھیلنے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا۔ اس کی والدہ آنچل دیوی (نام بدلا ہوا) رات بھر اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہی، اس دوران اسے معلوم ہوا کہ پڑوس میں رہنے والے دو گھروں کے بچے بھی لاپتہ ہیں۔ پھر گھر کے تینوں افراد نے رات بھر ان بچوں کو تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن بچے نہیں ملے۔ جس کے بعد اہل خانہ نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔ تفتیش کے دوران پولیس نے تینوں میں سے ایک نابالغ کو بازیاب کرایا۔ جس نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ باقی دو نابالغ کچھ ہی کلومیٹر دور جنگل میں نشے میں دھت ہو کر بے ہوش پڑے ہیں۔ جس کے بعد پولیس نے انہیں جنگل سے بے ہوشی کی حالت میں برآمد کیا اور ان کا میڈیکل چیک اپ کرایا۔ جہاں دوران تفتیش انہوں نے خود منشیات لینے کا اعتراف کیا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے ایک نابالغ اپنے خاندان کے ساتھ ہاکر کا کام کرتا ہے۔ جہاں اس نے اپنی کمائی سے نشہ آور اشیاء خریدی تھیں۔
اس سلسلے میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی وکیل سیدہ رخسار کوثر کا کہنا ہے کہ پونچھ کے دیہی علاقوں میں منشیات کا کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اب تک صرف نوجوان ہی اس میں ملوث پائے جاتے تھے لیکن اب یہ برائی بچوں میں بھی پھیل رہی ہے۔ اس کے لیے گھر سے لے کر اسکول تک بچوں کو خصوصی کونسلنگ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے رویے پر نظر رکھنے اور ان کے ساتھ دوستی رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی نشے کی لت کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک طرف جہاں ان کی تعلیمی ترقی نہیں ہو رہی وہیں بعض اوقات خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے بھی بچے منشیات کے عادی ہونے لگتے ہیں۔ ایڈوکیٹ رخسار کے مطابق یہاں کے سکولوں میں اکثر لمبی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ٹیوشن سنٹر بھی برائے نام ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو مصروف رکھنا مشکل ہے۔ ایسے میں بچے اپنے فارغ وقت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اکثر گھر سے باہر نکل کر کھیلنے کے نام پر منشیات کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔
ایڈوکیٹ رخسار بتاتی ہیں کہ وہ پونچھ کے مینڈھر میں واقع چھترال گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ جہاں صرف چند ماہ قبل تین کمسن بچے زیادہ نشہ کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ سردیوں کی طویل تعطیلات کے باعث یہ بچے پڑھائی سے بالکل دور تھے۔ تعلیم سے دوری نے انہیں منشیات کا عادی بنا دیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی بار گھر کی اندرونی لڑائیاں اور بڑوں کی ہر بات پر انہیں ڈانٹنا بھی بچوں کو گھر اور معاشرے سے دور اور منشیات کے قریب دھکیل رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ان دیہی علاقوں کے بچوں کو اس سے بچانا ہے تو انہیں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے لیے والدین کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
والدین کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان کا بچہ منشیات کی لت کا شکار ہو گیا ہے؟ اس سوال پر پونچھ کے ایک سینئر سماجی کارکن 65 سالہ سکھ چین لال کا کہنا ہے کہ اگربچے کی طبیعت میں تبدیلی آئے اور وہ انتہائی پرجوش اور جارحانہ رویہ اختیار کر رہا ہے، بغیر کسی وجہ کے مزید پاکٹ منی مانگ رہا ہے اور پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دے رہا ہے تو والدین کو ہوشیارہو جاناچاہیے اوران باتوں کو انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں سختی کے بجائے بچے کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات گھر کا ماحول اور والدین کی سختی بھی بچوں کو ان سے دور اور منشیات کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ بچے نشے کی لت کی تکمیل کے لیے جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جو نہ صرف ان کے خاندان بلکہ معاشرے کے لیے بھی مہلک ثابت ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس برائی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ڈی ایڈکشن سینٹرز کے ساتھ ساتھ دیگر مراکز بھی کھولے ہیں۔ لیکن یہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ معاشرہ اپنا کردار نمایاں طور پر ادا نہ کرے۔ (چرخہ فیچرس)