ہفتہ, جنوری ۲۵, ۲۰۲۵
8.8 C
Srinagar

ورلڈکرافٹ سٹی کا اعزاز ۔۔۔۔۔

عالمی دستکاری کونسل نے سرینگر کو بطور عالمی دستکاری شہر کے طور تسلیم کیا ہے جو کہ اہل وادی کے لئے ایک خوش آئند قدم ہے ۔اس بات سے یہ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ وادی کی دستکاری کس قدرمعیاری و غیر معمولی ہے، جس کا پوری دنیا میں کوئی متبادل نہیں ہے۔جموں کشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے وادی کے عوام خاصکر دستکاروں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا ہے یہ ہمارے لئے یادگار کامیابی ہے، اس عالمی فیصلے سے ہمارے محنت کش کاریگروں کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ اُن کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آسکتا ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ وادی کشمیر میں دستکاری صنعت گھر گھر میں موجود تھی اور سبھی لوگ کسی نہ کسی موڑ پر اس کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔کسان تھے یاپھر سرکاری ملازم ہر گھر میں شام ہوتے ہی دیر رات تک لوگ دستکاری کی چیزیں تیار کرتے تھے۔کوئی شال بافی کرتا تھا تو کوئی قالین بافی ۔کوئی نمدہ سازی میں اپنا وقت صرف کرتا تھا تو کوئی چادر بُننے لگتا تھا۔کانگڑیاں بنا کراور پیپر معاشی کی چیزیں تیار کر کے لوگ حلال طریقے سے اپنا روز گار کماتے تھے، اس طرح اُن کے بچے بھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں کے ساتھ کام کرتے تھے اور اپنے اخراجات پورے کرتے تھے۔الغرض یہ کہ عالمی سطح پر وادی کی دستکاری نہ صرف مشہور معروف تھی بلکہ لوگ بہتر ڈھنگ سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔اب جبکہ تین دہائیوں سے وادی کے ہر شعبے میں تبدیلی آئی ہے۔ عام لوگوں کے اخراجات بھی کافی زیادہ بڑھ گئے ہیں ،بچوں کی اسکول فیس،وردی اور کتابوں کی بھر مار،بس فیس کے علاوہ سیر و تفریح کے اخراجات الگ سے بھرنے پڑتے ہیں۔شادی۔ بیاہ کی تقریابات میں کونٹلوں گوشت کا استعمال ،طرح طرح کے ڈرائی فروٹ،قسم قسم کے کپڑے ،سونے اور ہیروں کے زیورات کی خریداری کرنی پڑتی ہے۔جہاں تک ایک دستکاروں کا تعلق ہے وہ بجلی ،پانی ،جائداد ٹیکس ادا کرنے اورروز مرہ کھانے پینے کی چیزوں کو خرید نے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ مہنگائی کے اس زمانے میں اُنہیں کل ملا کر محض نام کی مزدوری اُنہیں ملتی ہے ۔نتیجہ کے طور پر دست کاری صنعت دھیرے دھیرے وادی میں دم توڑتیہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ لوگ اپنا یہ قدیم پیشہ چھوڑ کر دوسرے کام کرنے لگے ہیں ،جہاں سے وہ نہ صرف اچھا خاصہ پیسہ کما رہے ہیںبلکہ انہیں دن بھر ایک ہی جگہ بیٹھ کر اپنے آنکھوں کی روشنی ختم نہیںکرنی پڑتیہے ۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایک دستکار اپنے بچوں کو بہتر تعلیم ہی نہیں بیماری کی صورت میں وہ بہتر ڈھنگ سے خود کو اعلاج بھی نہیں کر پارہے ہیں ،نہ ہی وہ روز مرہ کے اخراجات پورا کر پارہے ہیں ۔ان حالات میں ہماری دستکاری صنعت کس طرح زندہ رہ سکتی ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے۔وادی کو عالمی دستکاری کونسل کا خطاب دینا اپنی جگہ ایک اچھی بات ہے لیکن مرکزی حکومت اور جموں کشمیرکی انتظامیہ کو ان دستکاروں کی فلاح وبہبود کے لئے ایک جامعہ پالیسی مرتب کرنی پڑے گی جس سے یہ ممکن ہو سکے کہ یہ دستکار اچھا خاصہ پیسہ کما سکے اور وہ بہتر دھنگ سے اپنے اہل وعیال کی پرورش کر پائیں اور اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں ۔سرکا ر کو چاہیے کہ وہ دستکاروں کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کریں ، بیماری کی صورت میں مفت اعلاج کی اسکیم بنا ڈالیں ،دستکاروں کے لئے پینشن اسکیم لاگو کرے۔تب جاکر یہ ممکن ہے کہ لوگ دستکاری کی جانب راغب ہو سکےں گے جس کی جانب نئی نسل جانے کو تیار نہیں ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img