نوعمر لڑکیوں کی تعلیم میں ڈیجیٹل دنیا کا تعاون بھی اہم ہے

نوعمر لڑکیوں کی تعلیم میں ڈیجیٹل دنیا کا تعاون بھی اہم ہے
جیوتی
کاجل (بدلا ہوا نام) ایک 15 سالہ لڑکی ہے جو دہلی کے اْتم نگر علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے خاندان میں کل چھ افراد ہیں۔ کاجل اپنی چار بہنوں، ماں اور خالہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی ہے۔ اس کے والد کی کورونا وبا کے دوران ایک حادثے میں موت ہو گئی۔ اس ناخوشگوار واقعے کی وجہ سے کاجل اور اس کے خاندان کو کئی معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران آن لائن تعلیم کی وجہ سے کاجل کی پڑھائی میں بھی رکاوٹ آنے لگی۔ گھر میں اینڈرائیڈ فون نہ ہونے کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز سے محروم ہونے لگی۔ لیکن ایک دن اس کی ملاقات مقامی رضاکارانہ تنظیم پروتسہان انڈیا فاؤنڈیشن کی ایک ٹیچر ریحانہ سے ہوئی۔ کاجل کے خاندانی حالات کو دیکھتے ہوئے، اس نے تنظیم کی جانب سے اسے ڈیجیٹل ڈیوائس کے طور پر ایک ٹیب تحفے میں دیا۔ اس ڈیوائس نے کاجل کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ اس نے دوبارہ پڑھائی شروع کی۔ آج وہ 10ویں جماعت میں پڑھ رہی ہے، اس ڈیجیٹل ڈیوائس کی وجہ سے نہ صرف کاجل بلکہ اس کی خالہ نے بھی اوپن اسکولنگ کے ذریعے بارہویں جماعت پاس کی ہے۔
کاجل کی طرح 16 سالہ سکینہ نے بھی ڈیجیٹل ٹولز کی مدد سے اپنی تعلیمی رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔ دہلی کے مشہور علاقے دوارکا کے قریب نوادہ کی رہنے والی سکینہ کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے۔ اس کے والد رکشہ چلانے والے اور والدہ گھریلو ملازمہ ہیں۔ وہ 6 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ گھر کی کمزور معاشی حالت سے سب سے پہلے لڑکیاں متاثر ہوتی ہیں۔ صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کے لیے تعلیمی مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کا اثر سکینہ کی بڑی بہنوں پر بھی پڑا، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی پڑھائی درمیان میں چھوڑ دی اور شاید سکینہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا، اگر اسے وقت پر ڈیجیٹل آلات اور ڈیجیٹل تعلیم کی سہولت نہ ملتی۔سکینہ نے نہ صرف کورونا جیسی وبا کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی ڈیجیٹل تعلیم کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ آج وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہے جس نے دسویں جماعت میں 73 فیصد نمبر لے کر ٹاپ کیا ہے۔ اس وقت سکینہ سائنس اسٹریم سے اپنی مزید تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ”کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کے بعد میری پڑھائی چھوٹ گئی تھی۔ لیکن جب مجھے تنظیم کے ذریعے ٹیب ملا تو مجھے اپنے خواب سچ ہوتے نظر آنے لگے۔ میں نے اس ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعے اپنی آن لائن کلاسز اور پڑھائی جاری رکھی۔میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری بڑی بہن، جس کی پڑھائی کورونا کے دوران سہولیات کی کمی کی وجہ سے روک دی گئی تھی،وہ بھی اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرے اور اپنے خواب پورے کرے۔“
آج، ڈیجیٹل دنیا کی مدد سے، کاجل اور سکینہ جو بھی کرنا چاہتی ہیں، کر سکتی ہیں۔ لیکن ایسی لڑکیوں کی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں، جو مختلف وجوہات کی بنا پر آج بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ اکثر معاشرے کی قدامت پسند سوچ نوعمر لڑکیوں کی صحیح نشوونما میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پروتسہان انڈیا کی ٹیچر ریحانہ کہتی ہیں کہ ”صرف دیہی علاقوں میں ہی نہیں، بلکہ دہلی جیسے میٹروپولیٹن شہروں کے کچی آبادی والے علاقوں میں بھی نوعمر لڑکیوں کو انہی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر گھر کی معاشی حالت کمزور ہو تو لڑکیوں کو سب سے پہلے اسکول چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تاکہ لڑکوں کو پڑھنے کا موقع ملے، اگر لڑکی پڑھائی میں لڑکے سے زیادہ ہوشیار ہو تو بھی اسے پڑھائی چھوڑ کر گھر کے کام کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ تمام اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، ایسے میں تنظیم کے ذریعے انہیں ڈیجیٹل ٹولز فراہم کرنا کسی اعزاز سے کم نہیں۔“ریحانہ کہتی ہیں کہ کاجل اور سکینہ کی کہانی ہمیں دکھاتی ہے کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز کسی کی زندگی میں کتنی اہم ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی پڑھائی کو فروغ ملتا ہے بلکہ ان کی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانے میں بھی اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ تنظیم کے ذریعے دہلی کے اتم نگر سے لے کر دوارکا علاقے تک کئی معاشی طور پر کمزور لڑکیوں کو ڈیجیٹل ڈیوائس فراہم کی گئی ہیں، جس کے ذریعے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ لڑکیاں اس معاشرے سے آتی ہیں جہاں روایت اور رسم و رواج کے نام پر پدرانہ سوچ کا غلبہ ہے۔ جہاں بچی کی پیدائش سے لے کر تعلیم تک اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ تاہم، اسی معاشرے میں، کاجل اور سکینہ جیسے خاندان ہیں، جو بیداری کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں بلکہ اسے فروغ دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشت والے ملک میں خواتین کی خواندگی کی شرح اب بھی تشویشناک صورتحال میں ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو (ڈبلو پی آر) کی ویب سائٹ کے مطابق، ہندوستان میں خواندگی کی شرح 74 فیصد ہے جبکہ دنیا کی اوسط شرح خواندگی 83.41 فیصد ہے۔ خواتین کی خواندگی کی بات کریں تو ہندوستان میں خواتین کی خواندگی کی شرح دنیا میں 71.88 فیصد کے مقابلے میں صرف 65.8 فیصد ہے۔ جبکہ ہندوستان میں مردوں کی خواندگی کی شرح بین الاقوامی سطح پر 79.16 فیصد کے مقابلے میں 82.4 فیصد ہے۔ یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان میں آج تک خواتین کی تعلیم پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ اس کے پیچھے مالی بوجھ، قدامت پسند سوچ، خاندان کی جانب سے تعاون کی کمی اور لڑکیوں کا تعلیم کی طرف مائل نہ ہونا ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران ان اعداد و شمار میں مزید کمی واقع ہوئی۔ ہندوستان میں 15 سے 18 سال کی عمر کی 40 فیصد لڑکیاں ہیں جو دوبارہ اسکول نہیں جا سکیں۔ تاہم، وبائی مرض کے بعد، مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے بہت سے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ اسکولوں میں طالبات میں مفت لیپ ٹاپ اور بعض مقامات پر ٹیبلٹ بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ لیکن نتائج کو تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ ریحانہ کہتی ہیں کہ مرد اور خواتین کی تعلیم کے اعداد و شمار میں اس فرق کو کوئی منصوبہ یا قانون بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے معاشرے میں بیداری پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جب تک معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتا، ان اعداد و شمار میں کسی تبدیلی کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.