ای ۔رکشا ،ہمارا گناہ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔

ای ۔رکشا ،ہمارا گناہ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔
وائس آف امریکا اردو میں گزشتہ برس دسمبر میں شائع ایک رپورٹ کی چند سطریں کوٹ کرکے آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ”جس طرح پاکستان کا ٹرک آرٹ دنیا میں اس کی پہچان ہے، وہیں بنگلہ دیش کے سائیکل رکشہ پر رنگوں کی کاری گری سے بنایا جانے والا آرٹ بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس ’رکشہ آرٹ‘ کے رنگ دھندلے ہوتے جا رہے ہیں۔اگر آپ بنگلہ دیش جائیں یا وہاں کے مناظر دیکھیں تو آپ کو رنگ برنگے ڈیزائن، فلمی ستاروں کی تصاویر، پرندوں، مختلف عمارتوں اور نقش و نگار والے سائیکل رکشہ نظر آئیں گے۔ سائیکل رکشہ ڈرائیور دہائیوں سے اپنی سواری پر ایسے رنگ بکھیر رہے ہیں۔لیکن اب بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ تیز رفتار، جدید موٹرائزڈ رکشے جس طرح سائیکل رکشے کی جگہ لے رہیں، اس سے رکشہ آرٹ کی یہ روایت بھی ختم ہوجائے گی۔‘ ‘ رپورٹ میں شائع یہ اقتباس آپ کے سامنے رکھنے کا ایک ہی مقصد ہے ،وہ یہ کہ دنیا سفری سہولیات میں آئے روز نت نئی ترقی کے منازل طے کررہی ہے اور اپنے پیچھے طرح طرح کی یاد چھوڑ رہی ہے ۔
کشمیر میں دہائیوں قبل سواری کے لئے یکا سواری یا گھوڑا گاڑی کا استعمال کیا جا تا تھا ،جسے شاہی سواری بھی کہا جاتا تھا ۔عصر حاضر میں اس سواری کے بعض نقوش شمالی کشمیر اور جنوبی کشمیر کے چند اضلاع کے بعض علاقوں میں نظر آرہے ہیں ۔ حال ہی میںیعنی گزشتہ برس سے شہر سرینگر سمیت بعض اضلاع کے قصبوں میں کم فاصلوں کے لئے سفر کرنے کے لئے ’ای ۔رکشا ‘ سواری متعارف کرائی گئی ۔انتظامیہ نے اس سواری کو ماحول دوست ٹریفک جیسے سنگین مسائل کا حل قرار دیا تھا ،اور ان کے لئے روٹ پلان بھی مرتب کئے گئے ۔کئی نوجوانوں کو سرکاری اسکیم کے تحت یہ رکشافراہم کئے گئے ،تاکہ وہ روزگار سے ہم آہنگ ہوسکیں ۔اب شہر سرینگر اور کئی قصبوں میں ای ۔رکشا اپنے پیر جما چکا ہے ،یعنی یہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے حلال روزگار کا ایک بہترین اور آسان وسیلہ یا ذریعہ بن چکا ہے ۔ایک ای ۔رکشا کی کم سے کم قیمت 3لاکھ تک ہے ،اور نوجوانوں نے قرضے حاصل کرکے یہ روزگار شروع کیا ،سڑکوں پر روٹ پرمٹ بھی دیا گیا۔ٹریفک کا یہ جدیدنظام ملک بھر میں لاگو ہوچکا ہے ۔جموں وکشمیر کے جڑواں دارالحکومتی شہروں میں بھی یہ سواری ایک پہنچا ن حاصل کرچکی ہے ۔اسکی ایک خاصیت یہ ہے کہ کم فاصلوں کے لئے لوگ اس سواری کا استعمال کرتے ہیں ،کیوں کہ کم فاصلوں کے لئے مسافر گاڑیوں میں سفر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور سب سے بڑا مسئلہ روٹ کا ہے ۔
اگر چہ سرینگر کے قلب لالچوک تک ان ای، رکشاﺅں کو مختلف روٹوں پر چلنے کی اجازت دی گئی ،لیکن چند روز سے ان ای ۔رکشاﺅں کو چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔کوئی بتایا گا ،کہ ان کا گنا ہ کیا ہے ؟ٹریفک حکام اپنی من مرضی کے فیصلے پر ٹریفک نظام کو درست کرنے کے لئے جبراً اقدام کرسکتی ہے ،؟کیا ٹریفک پولیس کو ٹریفک ایکٹ یا آئین ہند میں ایسے فیصلے لینے کا حق دیا گیا ہے؟ ۔عوامی حکومتوں میں ایسے فیصلے کابینہ لیتی ہے،لیکن بدقسمتی سے جموں وکشمیر میں گزشتہ ایک دہائی سے عوامی حکومت کا کہیں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے ،جس کی جگہ لیفٹیننٹ گو رنر انتظامیہ نے لی ،جس کی انتظامی کونسل بڑے فیصلے لیکر مہر ثبت کررہی ہے اور اُنہیں زمینی سطح پر عملا یا جاتا ہے اور یہ فیصلے عملانے کے لئے ہرطرح کے سرکاری محکمہ جات اور ادارے پابند ہوتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ای۔ رکشاﺅں کو چلنے کی اجازت کس نے دی ؟کیا انتظامی کونسل نے یہ فیصلہ لیا ؟ایسے فیصلہ کون لے رہا ہے اور کس کی مرضی سے لے رہا ہے ؟اور اگرا یسافیصلہ لیا گیاہے ،تو سڑکوں پر چلنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے ؟سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ حکمران بغیر پالیسی کے کس طرح بڑے بڑے فیصلے لے رہے ہیں ؟ای ۔رکشاﺅں کے خلاف جموں میں ہڑتال اپنی جگہ ،سرینگر میں نہ چلنے کی اجازت بھی اپنی جگہ ۔اگر ہر کوئی یہ فیصلہ کرے گا ،کہ ٹرین چلنے سے مسافر بسوں کا نقصان ہورہا ہے اور ہوائی جہاز چلنے سے ٹرین سواری متاثر ہورہی ہے ،تو ہم اس سوچ کیساتھ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے ہی جائیں گے ۔نوجوانوں کی بڑی تعداد ای۔ رکشاﺅں سے روزگارحاصل کررہی ہے،روٹ پلان مرتب کریں۔ہوامیں داغے جارہے فیصلوں سے اضطراب اور تذبزب کو ہوا نہ دیں بلکہ دور اندیشی کا مظاہرہ کریں ۔یہ روزگار کا معاملہ ہے !۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.