صنفی امتیاز کے درمیان تعلیم کے لیے جدوجہد کر تی نوعمر لڑکیاں

صنفی امتیاز کے درمیان تعلیم کے لیے جدوجہد کر تی نوعمر لڑکیاں
مہیما جوشی
کپکوٹ، اتراکھنڈ
”ہمارے دور میں حیض کے دوران لڑکی ہو یا عورت، اسے الگ جگہ پر رکھا جاتا تھا، اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔ اگر کوئی لڑکی اس کے خلاف احتجاج کرتی تو پورا معاشرہ اسے مجرم تصور کرتا تھا۔ اس کام میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی سب سے آگے رہتی تھیں، اگر کوئی عورت بچہ پیدا نہ کر پاتی تو عورتیں اسے طعنے دینے اور اس کا ذہنی استحصال کرنے میں سب سے آگے رہتی تھیں۔ لیکن اب زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ دیہات میں بھی شہر کی ہوابہنے لگی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ معاشرہ عورتوں اور لڑکیوں کو آزادی سے رہنے نہیں دیتا۔“ یہ بات 70 سالہ درگا دیوی کا کہنا ہے، جو پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے لاما باگڈ گاؤں کی رہنے والی ہیں اور گزشتہ سات دہائیوں سے گاؤں کے بدلتے ہوئے سماجی ماحول کو قریب سے دیکھ رہی ہیں۔یہ گاؤں باگیشور ضلع سے تقریباً 19 کلومیٹردور کپکوٹ بلاک میں واقع ہے۔ جس کی آبادی 1600 کے قریب ہے۔ گاؤں میں اونچی اور نچلی ذات والوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ لیکن مرد اور خواتین کی شرح خواندگی میں بڑا فرق ہے۔ جہاں 40 فیصد مرد خواندہ ہیں، وہیں خواتین میں خواندگی کی شرح صرف 20 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ فرق صرف سماجی ماحول میں ہی نہیں بلکہ شعور میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں خواتین کو اپنے چھوٹے سے چھوٹے حقوق کا بھی علم نہیں۔ یہاں لڑکیوں کو بہت چھوٹی عمر سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ صنفی امتیاز،کم عمر میں شادی اور پھر حمل، جنسی ہراسانی اور گھریلو تشدد وغیرہ نمایاں ہیں۔ کم عمری میں شادی کرنے والی نوجوان لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کچھ معیارات اور طرز عمل پر عمل کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتیں تو انہیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو نہ صرف معاشرے بلکہ گھر کے اندر بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایک طرف حکومت کی طرف سے خواتین کی تعلیم اورانہیں بااختیار بنانے سے متعلق بہت سی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پنچایت میں خواتین کے لیے بھی نشستیں مخصوص ہیں۔ جس پر ایک خاتون سرپنچ یاپردھان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پدرانہ سماج پر مبنی اس گاؤں کی ساخت میں حتمی فیصلہ لینے کا حق صرف مرد کو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دیہات میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم یا حقوق دینے کی سوچ بہت تنگ ہے۔ 49 سالہ پرکاش چندر جوشی کھلے عام لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت تونہیں کرتے، لیکن وہ کسی بھی قسم کی ملازمت یا ان کے حقوق کے لیے خواتین پر کڑی تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”معاشرے کو یہ طے کرنا چاہیے کہ لڑکیوں کو کتنی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، لیکن میری رائے میں لڑکیوں اور خواتین کو صرف گھریلو کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان کے لیے مناسب ہے۔ آخر انہیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ اگر خواتین گھر میں رہیں اور اگر وہ کام کرتی ہیں تو اس سے ہی ہماری ثقافت اور پہاڑوں کی طرز زندگی برقرار رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوکریوں میں مردوں کی زیادہ حمایت کرے کیونکہ انہیں کام کرنا ہے۔“زمینی حقیقت بتاتی ہے کہ اس طرح کی تنگ نظر سوچ کا اثر نئی نسل پر کتنا پڑ رہا ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ نوعمرلڑکیوں کی نئی نسل بھی اس کے خلاف بولنے کی ہمت جمع کر رہی ہیں۔ وہ صنفی امتیاز کو اچھی طرح سمجھ رہی ہیں۔اس سلسلے میں 17 سالہ دکشا کہتی ہے”صنفی عدم مساوات نہ صرف خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے بلکہ معاشی اور سماجی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جس معاشرے اور ملک میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو مناسب مقام نہیں ملتا، وہ سماج اور ملک پسماندہ رہتاہے۔ صنفی عدم مساوات اب بھی عالمی معاشرے کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ ایک گاؤں جس کی خواتین اور مرد بیدار ہوں گے وہ اپنے معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، ایسا گاؤں ہی ترقی یافتہ گاؤں کے تصور کو پورا کر سکتا ہے۔”11ویں جماعت کی طالبہ پشپا آریہ پوچھتی ہے،” آخر گھر کے تمام کام عورتیں اور لڑکیاں کرتی ہیں، اس کے باوجود ان کے ساتھ صنفی امتیاز کیوں ہے؟ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور مویشی چراتی ہیں، پھر لڑکے کچن کا کام کیوں نہیں کرتے ہیں؟“ وہ مزیدکہتی ہے”آج کے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو برابر کا درجہ دیا جانا چاہیے، لیکن سچ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں، یہاں تک کہ ہمارے اپنے خاندانوں میں لڑکیوں کو صنفی تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنی پڑتی ہے۔“
اس امتیازی سلوک پر گاؤں کی ایک اور 17 سالہ لڑکی سنیتا جوشی کہتی ہیں، ”بچپن سے ہی گھر میں میرے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے، درحقیقت ہم ذہنی طور پر گھر کے کام اس طرح کرنے کے پابند ہو جاتے ہیں کہ ہم لڑکیاں ضود تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتی ہیں۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم یہاں اجنبی ہیں اور ہمارا اصل ٹھکانہ ہمارا سسرال ہے۔جہاں عورت کا اصل فرض اپنی ساس سسر کی خدمت اور شوہر کی اطاعت ہے۔“وہ کہتی ہیں کہ ‘کوئی بچہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اس کے معاشرے کے لوگ اور والدین پڑھے لکھے اور باشعور نہ ہوں۔ اس سوچ کی کمی کی وجہ سے ہی معاشرے میں صنفی امتیاز کو فروغ ملتا ہے۔ دیکشا، پشپا اور سنیتا نہ صرف اپنی عمر کی لڑکیوں کے ساتھ اسکول ہی نہیں جاتی ہیں بلکہ ان علاقوں میں نوجوان لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم،”چرخہ“ کے دیشا پروجیکٹ سے بھی وابستہ ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ اب ان نوعمر لڑکیوں کے ساتھ ساتھ کئی خواتین نے بھی صنفی امتیاز کو سمجھنا اور اس پر بولنا شروع کر دیا ہے۔ 42 سالہ مایا دیوی کہتی ہیں، ”میری نوعمری میں لڑکیوں کو پڑھانے سے زیادہ گھر کے کام سکھانے پر زور دیا جاتا تھا۔ ماہواری کے دوران انہیں گھر سے باہر گائے کے گوشالا میں رکھا جاتا تھا۔ سردی کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو، لڑکیوں کووہیں گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ اس وقت لڑکیوں کی کم عمرمیں شادی اوران پر تشدد عام تھا۔ لیکن اب یہ رواج اور ظلم بہت کم ہو گئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ ہماری بہواور بیٹیوں کے ساتھ نہیں ہورہا ہے۔ جب تک یہ معاشرہ تعلیم یافتہ نہیں ہو گا اس طرح کا شعور نہیں آ سکتا۔“
آزادی کے 76 سال بعد بھی ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر دور دراز دیہی علاقوں میں خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے خلاف صنفی امتیاز اب بھی برقرار ہے۔ یہ نہ صرف گھر اور معاشرے میں بلکہ اسکولوں میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اساتذہ خود لڑکوں کو ریاضی اور سائنس پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو ہوم سائنس پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنس پڑھ کر وہ کون سی آفیسر بنے گی؟ اگر وہ ہوم سائنس لے کر کھانا پکانا سیکھ لے گی تو سسرال میں اس کی عزت بڑھے گی۔ یہ لفظ نہ صرف لڑکیوں کے خواب بلکہ ان کی ہمت کو بھی توڑ دیتا ہے۔ درحقیقت نئی نسل میں لڑکیوں کے اسکول جانے کی وجہ سے تعلیم میں بہتری توآ رہی ہے۔ لیکن سماجی برائیوں، دقیانوسی تصورات اور مردانہ سوچ کی وجہ سے مستقبل میں صنفی عدم مساوات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی ہے۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.